بھٹ شاہ میں بھٹائی شیخ ایاز اور کراڑ جھیل
میرے ذاتی خیال میں سندھ میں بے شمار تاریخی اور ثقافتی مقامات ہیں ، پنجاب اور کے پی کے جانے کی ضرورت کسی کو نہیں۔
جب ہم شہداد پورکا دورہ پورا کرکے ہالا شہرکی طرف جانیوالی سڑک پر ہولیے ، بھٹ شاہ پہنچے تو پہلے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کی طرف چل پڑے ۔ مزار کے اطراف میں مٹھائی، چادروں اور سندھی کلچرکے کپڑوں، کھلونوں کی دکانیں قطار سے بنی ہوئی تھیں جن کے ساتھ کھانے کے ہوٹل بھی موجود تھے ۔
مین گیٹ سے پیدل چلنا پڑتا ہے اور رش کا عالم دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہاں پر تو روزانہ میلہ لگتا ہے۔ زائرین میں سب سے زیادہ رش عورتوں کا تھا اور مجھے یہ لگ رہا تھا کہ لوگ 10 سے 12 افراد کے گروپ میں سیکیورٹی گیٹ سے باہر آرہے تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ زائرین کا سامان دیکھ کرایسا محسوس ہوا کہ وہ کم از کم ایک ہفتہ رہیں گے اور ایسا ہی تھا ۔ لوگ یہاں پر منت مانگنے آتے ہیں جس کے لیے انھیں 4 راتیں یا پھر اس سے زیادہ رہنا پڑتا ہے۔
اب شاید پہلی مرتبہ چپلیں اور جوتے رکھنے والے کوئی پیسہ وصول نہیں کر رہے تھے ۔ ہار بیچنے والے ہر جگہ نظر آرہے تھے جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت تقریباً دوپہرکا ایک بج رہا تھا۔ مزارکے باہر بھی زائرین کے ہجوم تھے اور کافی افراد سیلفی بنانے میں مصروف تھے۔ مزار کے بیرونی حصے میں بھٹائی کے فقیر مخصوص راگ گانے میں مصروف تھے اور وہ تمبورو (Tamboro) کو بھٹائی کے انداز سے بجا رہے تھے۔ 98 فی صد آنے والے شاہ عبداللطیف بھٹائی کو پیر سمجھتے ہیں جب کہ صرف دو فی صد انھیں شاعر اور صوفی مانتے ہیں۔
فاتحہ پڑھنے کے لیے مزار کے اندر گئے تو دروازہ پر اکثر یہ دیکھا کہ عورتیں کہہ رہی تھیں کہ بھٹائی ہم تیرا در چھوڑ کے نہیں جائیںگے جب تک تم ہمارا کام نہیں کرو گے ، وہاں پر کچھ پرانے درختوں میں کپڑوں کے رنگین ٹکڑے بندھے ہوئے ہیں جو لوگوں نے اپنی تمنا پوری ہونے کے لیے باندھے تھے۔
جب باقی دوست آئے تو ہم شیخ ایاز کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد کراڑ جھیل کو دیکھتے رہے کیونکہ شیخ ایاز کی قبر کراڑ جھیل کے کنارے پر ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کراڑ جھیل خوبصورت تھی لیکن اب خشک ہوگئی ہے اور اب بھی اس میں ہرے رنگ کا Pollutel پانی بہہ رہا ہے لیکن محکمہ کلچر نے جو ترقیاتی کام شروع کیا تھا اب وہ رکا ہوا ہے، وہاں پر میوزم دیکھنے کے بعد بھٹ شاہ کو الوداع کہا۔
پہلے ارادہ تھا کہ حیدرآباد میں دوپہرکا کھانا کھاکرکراچی روانہ ہوجائیںگے مگر اچانک ارادہ بدل گیا اور ہم نے گاڑی کا رخ کوٹری کی طرف کردیا۔ ایک ہوٹل پر کھانا کھانے کے بعد ٹھٹھہ کی طرف چل پڑے یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ کوٹری کا پورا انڈسٹریل زون کی سڑکیں بری طرح شکستہ تھیں جہاں پر ہمارا بڑا وقت برباد ہوگیا۔کوٹری کا برا حال تھا لیکن جب ٹھٹھہ ضلع کی حدود میں داخل ہوئے تو سڑک شاندار اور آرام دہ تھی۔
میرے دل میں طویل عرصے سے یہ خیال تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش ، جھرک شہر دیکھوں کیونکہ ہم جب پڑھتے تھے تو ہم نے کتاب میں یہی پڑھا تھا کہ قائد اعظم جھرک میں پیدا ہوئے تھے، جب شہر میں داخل ہوئے تو یوں لگا کہ ہم موئن جو دڑو میں آگئے ہیں ۔ چاروں اطراف گھر شکستہ ہوئے تھے اور موت جیسی خاموشی تھی، کافی اندر گئے تو ایک چھوٹا سا بازار دیکھنے میں آیا جہاں سے ہم نے قائداعظم کے گھر کے بارے میں معلوم کیا ۔ تنگ گلیوں سے چلتے ہوئے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ قائد اعظم کے گھر کو مسمار کرکے ایک پرائیویٹ اسکول بنایا گیا ہے جب سے یہ کہا گیا کہ قائد اعظم وزیر مینشن میں پیدا ہوئے تھے اس وقت سے جھرک شہر کے گھر کوگرانا لازمی ہوگیا تھا۔
اسی گلی میں ایک گھر نظر آیا جس کے لیے بتایا گیا کہ یہ گھر پرنس کریم آغا کے خاندان والوں کا ہے جس کی مرمت آغا خان فاؤنڈیشن والے کرواتے رہتے ہیں گھر کی دیکھ بھال کے لیے ایک بندہ رکھا ہوا ہے جس سے ہم نے گزارش کی کہ وہ ہمیں اندر سے گھر دکھائیں وہ ہمیں گھر کے اندر لے گیا ،کیا گھر تھا کہ مزا آگیا دیواریں کشادہ تھیں گھر میں اندر دروازے اور کھڑکیاں اور برانڈے میں جو لکڑیاں لگی ہوئی تھیں وہ آج بھی سالم اور خوبصورت تھیں۔ اس گھر اور آغا خان اسپتال میں جو لکڑیوں کا کام ہے وہ ایک ہی جیسا تھا، گھر کی چھت اونچی تھی اس میں ہوا کے لیے چھت میں روشن دان بنے ہوئے تھے۔ گھر کے ایک کمرے میں پرنس کریم آغا خان کی اپنی تصویر ان کے والد کی تصویر، ان کے دادا کی تصویر۔
گھرکا خیال رکھنے والے نے کہاکہ اس گھرکو اصلی حالت میں رکھنے کے لیے ، اس کی مرمت پرانے اسٹائل سے کی گئی ہے تاکہ تاریخی مقام زندہ اور برقرار اصلی حالت میں رہے۔ اس گھرکے علاوہ دوسرا گھر بھی آغا خان والوں کا ہے جسے وہ سنبھالتے آرہے ہیں ۔ میں اداس دل سے جھرک سے نکل کر کینجھر جھیل کی طرف چل پڑا۔ آگے چلتے چلتے دیکھا تو لکھا ہوا تھا '' سونڈا کا قبرستان'' جس کی قبریں اور عبارتیں گرتی گرتی زمین پر بکھر چکی ہیں۔ کچھ قبریں اب بھی اونچی اور مضبوط کھڑی نظر آئیں اور کچھ اچھی حالت والے مزار بھی یہ قبرستان بالکل مین روڈ پر ہے وقت کی کمی کی وجہ سے یہ سوچ کر کے اسے بعد میں آرام سے دیکھنے آئیںگے ہم چل پڑے اور کھینجر جیھل پر آکے رکے جہاں پر وہاں کے انچارج عدیل ہمارا انتظار کررہے تھے۔
ان کے ساتھ چائے پی اور جھیل کی خوبصورتی پر ایک نظر ڈالی۔ میں جب بھی اس جھیل پر آتا ہوں ہر مرتبہ اس میں بہتری پاتا ہوں ۔ اس مرتبہ بھی مین گیٹ سے لے اندر تک اینٹوں کا روڈ بنا دیا ہے۔ پرانے ریسٹورنٹ کو خوبصورت بنایاگیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کا معیار بھی بہتر ہوگیا ہے لگائے ہوئے پودے درخت بن چکے ہیں اور لان میں بھی ہریالی نظر آئی جہاں پر بیٹھنے کے لیے بینچز رکھی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ Swimming Pool بنایاگیا ہے۔
ایک چھوٹی سی مسجد بنائی گئی ہے جہاں پر نماز باسانی پڑھی جاسکتی ہے جھیل کے ارد گرد اوپر والے حصے میں کئی رنگ کے پھول اور پودے اگل چکے تھے جس کی خوشبو فضا کو معطر کررہی تھی ۔ اس کے علاوہ کنارہ سے جھیل کے اندر کچھ Stops بنائے جارہے تھے، تاکہ آنے والے اپنے پاؤں جھیل ڈال کر بیٹھ سکیں ۔ لکڑی والی کشتیاں بھی بنوائی جارہی ہیں۔ بہر حال جیسے ہی رات ہوتی ہے سولر سسٹم سے لائٹیں آن ہوجاتی ہیں جس سے رات میں ہر چیز حسین اور پر کشش ہوجاتی ہے۔
سورج غروب ہونے والا تھا ہم نے عدیل کو اور جھیل کو الوداع کہہ کرکراچی کی طرف لوٹ پڑے اب رات کے 9 بج رہے تھے کہ ہم گھاروں پہنچ گئے جہاں پر زوروں کی بھوک لگی جس کے لیے ہم نے کیفے عمران پر آکر رکے یہاں پر ایسا رش ہوتا ہے کہ جیسے کھانا مفت میں مل رہا ہو۔ بہر حال کھانا اچھا ہے مگر بے حد مہنگا ہے آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ انڈا آملیٹ50 روپے کا ملتا ہے۔
میرے ذاتی خیال میں سندھ میں بے شمار تاریخی اور ثقافتی مقامات ہیں ، پنجاب اور کے پی کے جانے کی ضرورت کسی کو نہیں ، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اسے کون سنبھالے، ہم تو صرف ان کو تباہ کرنے والے اور ان پر قبضہ کرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو اس طرف بھرپور توجہ دینی چاہیے ، سیاحتی مقامات سے حاصل ہونے والی رقم ان مقامات کو مزید بہتر بنانے پر خرچ کرنی چاہیے۔