ہم شبیر حسن خاں جوش ہیں

جوش نے صبح کو وہ مقام عطا کردیا کہ اس مقام کے بعد کچھ کہنے سننے کو باقی نہیں بچتا۔


Saeed Parvez May 28, 2018

چھٹپنے سے صبح اٹھنے کی عادت ہے۔ ابا فجر کی نماز کے لیے اٹھتے تو سارے گھر کو اٹھا دیتے۔ اماں بھی صبح نماز کی پابند تھیں۔ میں نماز فجر کے بعد دو میل دوڑ لگاتا۔ کبھی کبھی یہ فاصلہ لمبا بھی ہوجاتا۔ سو یہ صبح اٹھنے کا عمل آج بھی جاری ہے۔ بس عمر کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلی آئی ہے کہ وہ دوڑنا اب نہیں رہا۔ وہ آہستہ آہستہ دوڑنا بھی نہیں رہا۔ بس اب پیدل چلنا ہی رہ گیا ہے۔

لڑکپن لاہور میں گزرا۔ گھر کے قریب ہی دریائے راوی کا بند تھا، ایک سڑک تھی جو آج بھی ہے، جو لاہور سے ساہیوال، ملتان شریف سے کراچی تک جاتی ہے اور اوپر راولپنڈی، پشاور تک۔ اسی بند پر صبح کی دوڑ ہوا کرتی تھی، گلاب اور موتیے کے پھول دور تک لگے ہوئے اور ان کی بھینی بھینی خوشبو فضا میں پھیلی ہوتی۔ یہ بات ہے 1960 کی دہائی کی۔ کیا زمانہ تھا۔ امیر لوگ اپنی کھال میں مست اور غریب لوگ اپنے حال میں۔ سادہ زمانہ تھا۔ یہ الللے تللے نہیں تھے۔

خیر میں واپس آتا ہوں ورنہ ماضی کا قصہ مجھے گھیر لے گا اور وہ بات رہ جائے گی جو آج مجھے کرنی ہے۔

کل صبح دودھ والے کی دکان پر گیا، دودھ طلب کیا، تو دکاندار نے کچھ دیر انتظار کا کہا کہ لڑکا ربڑ بینڈ لینے گیا ہوا تھا۔ میں رک گیا، اور ربڑ بینڈ آنے کا انتظار کرنے لگا کہ پلاسٹک کی تھیلی میں دودھ ڈالا جانا تھا، اور ربڑ بینڈ سے تھیلی کا منہ باندھا جانا تھا۔ لمحے بھر کو پھر ماضی نے آگھیرا کہ دودھ کے لیے برتن گھر سے لے جایا جاتا تھا۔ خیر میں انتظار میں تھا کہ محمد خاں آگئے۔ محمد خاں بڑے ادب نواز اور صاحب مطالعہ شخص ہیں۔ کہنے لگے ''یہ صبح کی ہوا میں بلا کی تازگی اور طاقت ہے، صبح سویرے جتنی تازہ ہوا اپنے اندر بھر سکو بھر لو اور سارا دن تر و تازہ رہو''۔ ساتھ محمد خاں صاحب نے غالب کا ایک شعر بھی اپنی بات کی تائید میں سنادیا:

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر

بادہ نوشی ہے، بادہ پیمائی

میں نے عرض کیا ''غالب بھی کیا شاعر ہیں، اپنے چھوٹے سے دیوان میں دنیا جہان کے موضوعات کو سمو دیا ہے۔ کوئی ذکر ہو، غالب کا شعر اسی مناسبت سے موجود''۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ محمد خاں اپنے لڑکپن میں جا پہنچے اور سنانے لگے ''تب ہم چنیسر ہالٹ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی کے قریب رہتے تھے۔ یہ پچاس کی دہائی کا درمیانی زمانہ تھا۔ میں اسکول میں پڑھتا تھا اور درجہ ششم (آٹھویں جماعت) تھا۔ ہم تین چار ہم جماعت دوست روزانہ صبح سیر کو نکلا کرتے تھے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ بہت کم آباد تھا، دور دور تک خالی زمین تھی یا اکا دکا مکان، ہم لڑکے حسب معمول صبح کی سیر کو نکلے تھے کہ ہم نے ریت بجری پر ایک شخص کو بیٹھے دیکھا۔ ٹرک کا ڈرائیور یا کلینر، مزدور کوئی بھی نہیں تھا بس وہ بوڑھا سا شخص ریت پر بیٹھا ہوا تھا۔ سفید کرتا اور سفید پاجامہ پہنے وہ شخص اس سنسان علاقے میں صبح سویرے اپنے پہناوے سے بھی اور چہرے مہرے سے بھی بڑا معتبر معتبر سا لگ رہا تھا۔ خیر ہم لڑکے اس شخص کے قریب گئے اور پوچھا ''آپ اتنی صبح اس ریت پر بیٹھے ہیں'' ہماری بات کے جواب میں اس شخص نے کہا ''ہم شبیر حسن خاں جوش ہیں'' یہ سن کر میرا حال کیا تھا، بس کچھ مت پوچھو، ہمارے گھر میں شعر و سخن کی فضا موجود تھی۔ میرے بڑے بھائی کی صبح ناشتے کے ساتھ اقبال کی شاعری سے ہوتی تھی۔ وہ ٹہل ٹہل کر اقبال کے شعر پڑھا کرتے تھے۔ گھر میں جگر، بہزاد، فیض کا ذکر رہتا تھا۔ جوش صاحب کی تصویریں بھی میں نے دیکھ رکھی تھیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ بہت بڑے شاعر ہیں۔

جوش صاحب اس زمانے میں پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں رہا کرتے تھے۔ محمد خاں نے جوش کا یہ فقرہ بھی دہرایا، جو انھوں نے ان لڑکوں سے کہا تھا، جوش کا فقرہ تھا ''ہم صبح خیز ہیں۔''

جوش صاحب کا صبح کے حوالے سے بہت مشہور واقعہ ہے کہ جب انھوں نے اپنے بچپنے میں پہلی بار شعور کی آنکھ سے صبح کا منظر دیکھا تھا، جوش کہتے ہیں ''ابھی سورج نہیں نکلا تھا، افق پر لالی موجود تھی، ننھے ننھے پرندے چہچہا رہے تھے، پو پھٹ رہی تھی، کچھ پرندے فضا میں اڑ رہے تھے، ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، سبزہ گل کی مہک سے ماحول معطر تھا۔ اس پورے منظر کا ننھے بچے شبیر حسن پر ایک سحر طاری ہوا کہ کبھی وہ درخت پر چڑھ جاتے، کبھی درخت سے کود کر نیچے آجاتے۔ ادھر دوڑتے، ادھر دوڑتے، دیوانوں کی طرح چھلانگیں مارتے۔ جوش نے یہ بات درست کہی کہ ''وہ صبح خیز ہیں''۔

جوش صاحب کی صبح خیزی آخری دم تک قائم رہی۔ جوش نے صبح کو وہ مقام عطا کردیا کہ اس مقام کے بعد کچھ کہنے سننے کو باقی نہیں بچتا۔ جوش صبح کے منظر کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

بات شروع ہوئی تھی، صبح اٹھ کر کھلی فضا میں نکلنا اور تازہ و پاکیزہ ہوا کے جام پہ جام اپنے اندر انڈیلنا، یہ عادت، یہ کام صحت و تندرستی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ صبح اٹھنے والے چاک و چوبند ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ کاہل ہوتے ہیں۔

کراچی کے پارک اور باغ صبح کے وقت آباد نظر آتے ہیں، چاق و چوبند ستر 80 سال کے بزرگوں کو میں نے ہنستے مسکراتے چہکتے ہوئے واک کرتے دیکھا ہے، یہی حال لاہور کے پارک اور باغوں کا ہے۔ معروف ادیب انتظار حسین، گائیک امانت علی خان، مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر یونس جاوید، یہ لوگ لارنس گارڈن اور ماڈل ٹاؤن کے پارکوں کے مستقل واک کرنے والے تھے۔ انھی میں مختار مسعود (آواز دوست والے) بھی آخری ایام تک شامل رہے۔ میرے اپنے گھر میں حبیب جالب کو میں نے دیکھا، وہ صبح کی سیر کے بہت پابند تھے، راستے سے نیم کی ٹہنی مسواک بناکر دانت صاف کرتے اور واک بھی جاری رہتی۔ آخر میں جوش صاحب کی ایک رباعی پیش کروں گا، دیکھیے شاعر کا مقام و مرتبہ کیا ہوتا ہے۔

جب زیست پہ ہوتے ہیں ترانے ممنوع

تب کارِ سرود موت کرتی ہے شروع

ہر شاہ و گدا قبر میں ہوتا ہے غروب

شاعر افقِ لحد سے ہوتا ہے طلوع

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں