لاہور NA130 پرانے سیاسی حریف گھرکی اور ڈیال خاندان ایک ہوگئے

گھرکی اور بٹ خاندانوں میں دشمنی چلی آرہی ہے، یہاں 2 اراکین صوبائی اسمبلی قتل ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے یہ لاہور کا خونی۔۔۔


آصف فراز April 23, 2013
گھرکی اور بٹ خاندانوں میں دشمنی چلی آرہی ہے، یہاں 2 اراکین صوبائی اسمبلی قتل ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے یہ لاہور کا خونی حلقہ بھی کہلاتا ہے۔ فوٹو : فائل

بھارت کی سرحدوں سے جڑا این اے 130 لاہور کا سب سے بڑا حلقہ ہے۔ دیہی حلقوں سے مماثلت رکھنے والے اس حلقہ میں پارٹیوں کو جیتنے کی اہلیت رکھنے والے امیدواروں کو ٹکٹ دینا پڑتا ہے۔

اس حلقے میں زیادہ تر ووٹ ذات برادری اور تعلقات کی بنا پر دیئے جاتے ہیں۔ پارٹیوں کے ٹکٹ کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ این اے 130 میں دو صوبائی حلقے پی پی 157 اور پی پی 158 شامل ہیں۔ اس حلقے میں مناواں، جلوپنڈ، جلوموڑ، باٹاپور، اتوکے اعوان، ڈیال پنڈ، واہگہ ، منہالہ، ہڈیارہ، پڈانہ، تاج باغ، اڈا چھبیل، لکھوڈیر، بھسین، برکی، گلدشت ٹاؤن، جوڑے پل، الفیصل ٹاؤن جیسے بڑے علاقے اور آبادیاں شامل ہیں۔ اس حلقے کی بڑی برادریوں میں آرائیں، راجپوت کے علاوہ اعوان، کشمیری، میو، ڈوگراور کمبوہ شامل ہیں۔

اس حلقے کی سیاست کئی دہائیوں سے دو خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس باربھی توقع تویہی تھی کہ یہی دونوں خاندان روایتی سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے لیکن مسلم لیگ نون نے اس حلقے میں سہیل شوکت بٹ کو پارٹی ٹکٹ دے کر دو روایتی حریفوں کو ایک کردیا ہے۔سہیل شوکت بٹ پی پی 158 سے ایم پی اے کے ٹکٹ کے خواہشمند تھے لیکن مسلم لیگ ن نے انہیں ایم این اے کا ٹکٹ دے کر خود انہیں بھی حیران کر دیا ہے۔

سہیل شوکت بٹ کو ٹکٹ جاری ہونے سے حلقے میں ایک بار پھر1997ء والی صورتحال پیداہوگئی ہے جب مسلم لیگ نون نے چوہدری اعجازڈیال کے ماموں اورسسر چوہدری عاشق ڈیال کے بجائے چوہدری شوکت ڈوگراکو ٹکٹ جاری کر دیا تھا، چوہدری عاشق ڈیال نے پارٹی کا فیصلہ قبول کرنے کی بجائے آزادامیدوارکے طورپرالیکشن لڑنے کا اعلان کیا اورمسلم لیگ نو ن اورپیپلزپارٹی کے امیدوارکو شکست دے دی تاہم اس بار چوہدری اعجازڈیال نے آزادحیثیت سے میدان میں آنے کے بجائے پیپلزپارٹی کا دامن پکڑ لیا ہے۔

چوہدری اعجاز ڈیال خود توایم این اے کے الیکشن سے دستبردارہوگئے لیکن گھرکی خاندان سے ہاتھ ملا کرانھوں نے چوہدری عاشق ڈیال مرحوم کے صاحبزادے نوید عاشق ڈیال کیلئے پی پی 158 سے ایم پی اے کا ٹکٹ حاصل کر لیا ہے جو پہلے بھی ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ یوں کئی عشروں سے ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والے خاندان اب کشمیری برادری کے خلاف ایک ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چوہدری اعجازڈیال کو مسلم لیگ نون کا ٹکٹ نہ ملنے کی ایک وجہ ان کی گھرکی خاندان سے خفیہ ملاقاتیں اوربات چیت بھی تھی۔

پیپلزپارٹی کی طرف سے چوہدری اعجازڈیال کو این اے 129 سے ایم این اے کا ٹکٹ دینے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن اس وقت چوہدری اعجازڈیال کو قوی امید تھی کہ انہیں مسلم لیگ نون کا ٹکٹ مل جائے گا لیکن جب لیگی قیادت نے انہیں جواب دیا توپھرچوہدری اعجازڈیال نے بلاکسی توقف کے گھرکی خاندان سے رابطہ کیا اوران سے اپنے ماموں زاد اورسالے نویدعاشق کیلئے ٹکٹ مانگ لیا۔ گھرکی خاندان نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے فوراًٹکٹ دے دیا۔اس صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان چوہدری شوکت ڈوگرا مرحوم کے خاندان کو پہنچا ہے۔

چوہدری شوکت کے صاحبزادے زین شوکت بھی پی پی 158اوراین اے 130سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدوارتھے۔ پچھلے الیکشن میں ان کی عزیزہ سعدیہ شبیرنے ثمینہ گھرکی کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور بہت تھوڑے ووٹوں سے ہاری تھیں۔ زین شوکت کئی ماہ سے ٹکٹ ملنے کے حوالے سے پرامیدتھے لیکن مسلم لیگ نون نے انہیں بھی نظرانداز کر دیا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اب ڈیال خاندان کی طرح زین شوکت بھی پیپلزپارٹی کی حمایت کریں گے لیکن دوسری طرف مسلم لیگ نون کے امیدوارسہیل شوکت بٹ پرامیدہیں کہ وہ چوہدری زین شوکت کو منالیں گے اوردونوں مل کرالیکشن لڑیں گے۔

1

ایک حوالے سے دیکھا جائے تواس وقت چوہدری شوکت ڈوگرا کا خاندان الیکشن میں کسی امیدوار کی کامیابی یا ناکامی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کوئی خطرہ نہیں، تحریک انصاف کی طرف سے ماضی میں مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ پرایم پی اے بننے والے چوہدری طالب سندھو ایم این اے کے امیدوارہیں گوکہ وہ علاقے میں اچھی شہرت رکھتے ہیں اور ان کی برادری کا ووٹ بھی کافی ہے لیکن وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کوئی بڑااَپ سیٹ کرسکیں ہاں اگران کی برادری سے تعلق رکھنے والے چوہدری زین شوکت ان کی حمایت کریں تویہ مضبوط پوزیشن میں آسکتے ہیں۔

تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلی کے لئے پی پی 157 میں حامدسرور اور پی پی158 میں طاہرمجیدمیوکو ٹکٹ دیئے ہیں۔ دونوں امیدوارسابق یوسی ناظم رہ چکے ہیں۔این ا ے130میں جماعت اسلامی کے امیدوارچوہدری منظورگجرہیں جوطویل عرصے سے جماعت اسلامی سے منسلک ہیں اورسابق ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کسی حدتک مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک متاثرکر سکتے ہیں اورکافی زور شورسے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اس بارصوبائی اسمبلی میں اپنے امیدوارپھرتبدیل کرلئے ہیں ۔

پی پی ایک 157 میں پارٹی کے مقامی صدراورسابق ناظم عابدمناواں کے بجائے بابرسہیل بٹ کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو پیپلزیوتھ کے مرکزی رہنما بھی رہے ہیں اورانہیں عابد مناواں کی نسبت مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا ہے جبکہ پی پی 158 میں نویدعاشق ڈیال کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے پینل میں قومی اسمبلی کی نشست پراب سہیل شوکت جبکہ پی پی 157 سے مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے رانا تجمل حسین کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے حالانکہ انہیں اپنے ہی پارٹی کارکنوں کی مخالفت کا سامنا ہے جبکہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے ایڈوائزر وحیدگل نے بھی ان کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے لیکن مسلم لیگ نون نے ایک بارپھرانہیں ہی پارٹی ٹکٹ جاری کردیا ہے جبکہ پی پی 158 سے ماضی میں پیپلزپارٹی کا حصہ رہنے والے ملک غلام حبیب اعوان کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔

اس حلقہ میں 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ملک معراج خالد نے 33903 ووٹ حاصل کرکے مسلم لیگ کے صفدر ڈیال کو شکست دی تھی۔ 1990ء میں صفدر ڈیال کے بھائی عاشق ڈیال نے 46842 ووٹ حاصل کئے اور ملک معراج خالد 34289 ووٹ لے کرہارگئے۔ 1993ء میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم خود میدان میں اترے اور عاشق ڈیال کی شکست کا باعث بن گئے۔

عاشق ڈیال نے 38361 ووٹ حاصل کئے اور قاضی حسین احمد نے 11107 ووٹ لئے۔ اس طرح دائیں بازو کے دونوں امیدواروں نے پیپلز پارٹی کے خالد جاوید گھرکی کے 38433 ووٹوں کے مقابلے میں 8626 ووٹ زیادہ حاصل کئے مگر عاشق ڈیال صرف 72 ووٹوں سے الیکشن ہار گئے۔ 1997ء کے انتخابات میں نگران وزیراعظم ملک معراج خالد کے اصرار پر مسلم لیگ (ن) نے عاشق ڈیال کے بجائے ٹکٹ سابق چیئرمین ضلع کونسل چودھری شوکت علی کو دیا جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار خالد جاوید گھرکی ہی رہے۔

عاشق ڈیال آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر امیدواروں کو ہرا دیا۔ 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اس سیٹ پر پیپلز پارٹی کی حمایت کر دی۔ خالد جاوید گھرکی بی اے کی ڈگری کی پابندی کی وجہ سے الیکشن نہ لڑے اور انہوں نے اپنی اہلیہ ثمینہ خالد گھرکی کو میدان میں اتارا۔ عاشق ڈیال واہگہ ٹاؤن کے ناظم بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے بھانجے اور داماد اعجاز احمد ڈیال کو (ق) لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اتارا۔ ثمینہ گھرکی نے 46095 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔

مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی نشست پی پی پی کو دے کر صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے اور پی پی 157 پر مسلم لیگ (ن) کے رانا تجمل حسین ڈیال اور پی پی 158 پر مسلم لیگ کے طالب سندھو کامیاب ہوئے۔ 2008ء کے انتخابات میں ثمینہ خالد گھرکی نے دوبارہ الیکشن لڑا۔ ان کے مقابلے پر سابق چیئرمین ضلع کونسل چودھری شوکت علی کی بھانجی سعدیہ شبیر کو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ ملا۔ عاشق ڈیال کو (ق) لیگ کے ٹکٹ پر لڑنا پڑا اور حسب توقع وہ تیسرے نمبر پر آئے۔

ثمینہ خالد گھرکی نے 44692 ووٹ حاصل کئے۔ سعدیہ شبیر نے 41042 اور عاشق ڈیال نے 12613 ووٹ لئے۔ 2013ء کے انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دو مرتبہ کامیاب ہونے والی ثمینہ خالد گھرکی کامیابیوں کی ''ہیٹ ٹرک'' کرنا چاہتی ہیں۔

یہ لاہورکا شاید واحدحلقہ ہوگا جس میں دو درجن سے زائد امیدوارقومی اورصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر میدان عمل میں ہیں۔کوئی کامیابی کے لئے میدان میں ہے تو کوئی کسی کو شکست دلوانے کیلئے الیکشن میں کھڑاہوا ہے۔ ماضی میں اس حلقے میں امیدواروں کے درمیان لڑائی جھگڑے ہوتے رہے ہیں اورکئی افرادخاندانی دشمنیوں کی بھینٹ بھی چڑھ چکے ہیں لیکن اس باریہاں حالات پہلے کی نسبت زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ اس بارجب مسلم لیگ نون اورپیپلزپارٹی کے امیدوارنہ صرف سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں بلکہ دونوں خاندانوں میں دشمنی بھی چلی آرہی ہے۔

سہیل شوکت بٹ کے خاندان پر ثمینہ خالدگھرکی کے عزیز چوہدری مشتاق کے قتل کا الزام ہے جبکہ سہیل شوکت بٹ کی پیپلزپارٹی کے صوبائی حلقہ 157سے امیدواربابرسہیل بٹ سے بھی دیرینہ دشمنی چلی آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ امیدوار اب جب اپنی الیکشن مہم پرنکلتے ہیں تودرجنوں گن مین بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے کہ الیکشن سے پہلے یہاں کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش نہ آجائے کیونکہ ماضی میں یہاں دو اراکین صوبائی اسمبلی قتل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے یہ لاہورکا خونی حلقہ بھی کہلاتا ہے۔

انتخابات میں حصہ لینے والے تینوں بڑی جماعتوں کے امیدواربھرپورطریقے سے انتخابی مہم اور مختلف برادریوں اورخاندانوں کے جوڑ توڑمیں مصروف ہیں۔ پیپلزپارٹی کی ثمینہ خالدگھرکی کو یہ کریڈٹ ضرورجاتا ہے کہ انہوں نے اس حلقے کے عوام کو سوئی گیس کی سہولت دی اوریہاں سب سے بڑا غیرسرکاری ہسپتال بھی گھرکی خاندان کی عوامی خدمت کا منہ بولتاثبوت ہے تاہم حلقے کے عوام کو شکوے شکایتیں ان سے بھی ہیں کہ پانچ سال تک یہ حلقے کے عوام کے پاس آنے کی بجائے اسلام آباد اور یا پھر ڈیفنس میں اپنے گھرتک ہی محدودرہیں۔

سہیل شوکت بٹ نے ماضی میں ایم پی اے کا الیکشن لڑالیکن ہارگئے تھے لیکن اس باروہ اپنی کامیابی کیلئے پوری طرح سے پرامید ہیں۔ مسلم لیگ نون کے سہیل شوکت بٹ کہتے ہیں ڈیال اورگھرکی خاندان مل کربھی اب اس حلقے میں انہیں شکست نہیں دے سکتے۔

یہ دونوں خاندان کئی دہائیوں سے حلقے کے عوام پر راج کررہے ہیں لیکن آج تک عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکے۔ عوام پیپلزپارٹی کی کارکردگی سے بھی آگاہ ہیں اورڈیال خاندان کی کارکردگی کو بھی جانتے ہیں جو کبھی کسی پارٹی میں رہے توکبھی کسی پارٹی کاحصہ بنے رہے ہیں۔ تحریک انصاف اورجماعت اسلامی کے امیدواربھی اپنی انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔

اس حلقے کے مسائل کی بات کی جائے تو سب سے بڑامسئلہ پینے کا آلودہ پانی،ناکارہ سیوریج سسٹم ہے۔ یہاں لڑکوں اورلڑکیوں کے لئے کوئی سرکاری ڈگری کالج نہیں ہے۔ تاہم ہائی سکولوں کو ہائیرسکینڈری کا درجہ ضروردیا گیا ہے۔ یہاں کوئی بڑاسرکاری ہسپتال بھی نہیں ہے۔ ایک ہی پرائیویٹ گھرکی ہسپتال ہے جو ماضی میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کی ایک وجہ بنا تھا۔ طالبات کے لئے ڈگری کالج اورہسپتال کے منصوبے کاغذوں کی حد تک نظرآتے ہیں۔دیہی علاقوں میں کئی ایسے ہیں جہاں سوئی گیس کی سہولت میسرنہیں ہے جبکہ سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں۔

دیہی علاقوں میں ٹرانسپورٹ کا بڑا ذریعہ چنگ چی رکشے ہیں۔ شہری آبادیوں میں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، تجاوزات، آلودگی اورناکارہ سیوریج سسٹم بڑے مسائل ہیں۔ امیدوارایک بارپھرنئے نعروں اور دعوؤں کے ساتھ میدان میں ہیں اورعوام کوان کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے سنہرے خواب دکھائے جارہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں