طرز زندگی تبدیل رمضان المبارک میں سحری پر جگانے کی روایت معدوم ہونے لگی

سارنگی، شہنائی اور دف بجاکر سحری جگانے کی روایت ختم ہوچکی،چندعلاقوں میں ڈھول بجاکرسحری جگانے کی روایت باقی ہے۔


Kashif Hussain May 19, 2018
بلندعمارتوں اورفلیٹ کلچرکے فروغ سے سحری جگانے والوںکی ضرورت نہیں رہی،شہری موبائل الارم استعمال کرتے ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس

جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور شہریوں کے بدلتے ہوئے طرز زندگی کی وجہ سے سحری میں جگانے کی روایت معدوم ہوگئی۔

کراچی کے شہری سحری میں اٹھنے کیلیے موبائل فون الارم اور ڈیجیٹل گھڑیاں استعمال کرتے ہیں گرمی، لوڈشیڈنگ کی وجہ اور مختصر راتوں کے باعث بیشتر شہریوں کو سحری تک جاگنے کی عادت ہوگئی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت رات گئے تک ریسٹورنٹس اور چائے خانوں پر ڈیرے ڈالے رکھتی ہے اس لیے سحری جگانے والوں کی صداؤں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔

کراچی میں سحری جگانے کی روایت کی دہائی قبل تک بڑی اہمیت تھی ثواب کی نیت سے سحری جگانے والے رضاکار مختلف علاقوں میں روزے داروں کو بیدار کرکے ثواب کماتے تھے بعض مزدور پیشہ افراد بھی اضافی آمدنی کے لیے یہ فریضہ انجام دیتے تھے تاہم وقت کے ساتھ اور بدلتے ہوئے رہن سہن کی وجہ سے اب یہ پیشہ اور روایت بھی معدوم ہورہی ہے۔

کراچی کے کچھ علاقوں میں ابھی ڈھول بجاکر سحری جگانے کی روایت موجود ہے کچھ علاقوں میں سحری جگانے والے باآواز بلند صدائیں دیتے نظر آتے ہیں لیکن ہر سال ان کی تعداد کم ہورہی ہے شادی بیاہ کی تقریبات میں ڈھول بجانے والے سحری کے وقت شہریوں کو بیدار کرکے اضافی روزگار کماتے ہیں بعض علاقوں میں پیشہ ور قوال بھی سرگرداں نظرآتے ہیں سحری جگانے والے طویل فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں کچھ علاقوں میں موٹرسائیکل اور سائیکلوں پر بھی لوگ سحری جگاتے نظر آتے ہیں۔

مہینہ بھر سحری جگانے والے رمضان کے آخری دنوں میں گھر گھر جاکر اپنا انعام طلب کرتے ہیں محلے دار اپنی خوشی سے رقوم، راشن، کپڑے اور عطیات دیتے ہیں جس سے سحری جگانے والوں کی عید بھی اچھی گزر جاتی ہے۔

ڈھول بجاکر سحری جگانے والوں کے مطابق اب زیادہ تر علاقوں میں سحری تک چہل پہل نظر آتی ہے اس لیے سحری جگانے کے لیے ایسے علاقوں کا رخ کرتے ہیں جہاں گلی محلے سنسان پڑے ہوںکراچی کے مختلف علاقوں میں سارنگی، شہنائی اور دف بجاکر سحری جگانے کی روایت بھی اب ختم ہوچکی ہے اس طرح کے فنکار بھی ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ کھلے گھروں کی جگہ بلند عمارتوں اور فلیٹ کلچر کے فروغ کی وجہ سے سحری جگانے والوں کی ضرورت نہیں رہی، زیادہ تر گھروںمیں الارم کا استعمال کیا جاتا ہے بعض خاندانوں میں عزیز و اقارب فون کرکے ایک دوسرے کو سحری میں اٹھانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔کچھ علاقوں میں چوکیداری پر مامور افراد ہی سحری جگانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے اولین مساہراتی (منادی کرنے والے) حضرت بلال حبشیؓ تھے

اسلامی دنیا میں سحری کے وقت روزے داروں کو بیدار کرنے کی روایت کئی صدیوں سے چلی آرہی ہے اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی (منادی کرنے والے) حضرت بلال حبشی تھے جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے حضور اکرمؐ نے حضرت بلال ؓ کی ذمے داری لگائی کہ وہ اہل ایمان کو سحری کیلیے بیدار کریں سحری میں جگانے کی روایت دنیا کے مختلف اسلامی ملکوں میں اب بھی برقرار ہے۔

برصغیر کی ریاستوں میں سحری و افطار کا اعلان توپ سے گولہ داغ کر کیا جاتا تھا

برصغیر پاک و ہند میں بھی نوابین کے دور سے مختلف ریاستوں میں سرکاری سطح پر سحری اور افطاری کا اعلان توپ سے گولے داغ کر کیا جاتا رہا یہ روایت بھارتی ریاست بھوپال میں اب بھی قائم ہے اور حیدرآباد دکن میں کچھ عرصہ قبل ہی متروک ہوچکی ہے بھوپال شہر سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع قلعہ کی فصیل پر بھاری بھرکم توپ سے گولے داغے جاتے رہے تاہم دھمک کی وجہ سے قلعہ کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے اب علامتی طور پر چھوٹی توپ کے گولے داغے جاتے ہیں۔



رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کی تہواری کمیٹی کے نوجوان اس ذمے داری کی ادائیگی شروع کردیتے ہیں بھوپال کے مسلمانوں کے مطابق یہ روایت 250سال پرانی ہے چھوٹی توپ کے گولے میں کم باردو بھرا جاتا ہے تاہم اس کے داغے جانے کی آواز قرب و جوار کے پچاس سے زائد گائوں دیہات تک سنی جاتی ہے سحری کے ساتھ افطار کے وقت بھی گولے داغے جاتے ہیں۔



پاکستان کے برعکس ترکی میں سحری پر ڈھول بجا کر روزے داروں کو جگانے کی روایت برقرار ہے

پاکستان کے برعکس ترکی میں سحری کے وقت ڈھول بجاکر روزے داروں کو جگانے کی روایت آب و تاب کے ساتھ برقرار ہے اور اسلامی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے رمضان کا چاند نظر آتے ہی ڈھول بجاکر بیدار کرنیوالے رضا کار روایتی لباس پہن کر مساجد کے احاطوں میں جمع ہوکر رمضان کی آمد کی خوشی میں ڈھول اور دف بجاتے ہیں ترکی میں ڈھول بجاکر سحری جگانے کی رایت خلافت عثمانیہ کے وقت سے قائم ہے ڈھول بجاکر جگانے والے عام دنوں میں شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے روزگار کماتے ہیں۔

ترکی میں حکومتی سطح پر قدیم روایات کی سرپرستی کی وجہ سے اب سحری میں ڈھول بجانے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے ڈھول بجاکر سحری میں بیدار کرنے والے ترک فنکار وں کو باضابطہ تنخواہ یا اجرت نہیں ملتی بلکہ لوگ خوش ہوکر انعام کے طور پر رقم دیتے ہیں جو بخشش کہلاتی ہے۔

مسلم ممالک میں مساہراتی کی ثقافتی روایات اب بھی جاری ہیں


سحری کے وقت روزے داروں کو نیند سے بیدار کرنے والوں کو اسلامی دنیا میں مساہراتی کہا جاتا ہے دنیا میں رمضان المبارک کے مہینے میں مساہراتی کرنے والوں کے حوالے سے بعض ثقافتی روایات اب بھی جاری ہیں ان قدیمی روایات میں ایک ڈھول بجاکر لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کی روایت بھی ہے، یہ روایت کم و بیش 400 سال پرانی ہے اور یہ سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ النصیر کے دور میں مصر سے شروع ہوئی۔

مصر کا حکمران عتبہ ابن اسحاق رمضان کے دوران قاہرہ کی سڑکوں کا دورہ کرنے والے پہلا شخص تھا جو لوگوں کو شاعرانہ انداز میں بولتے ہوئے جگاتا تھا وہ کہتا تھا ''تم لوگوں میں جو سو رہے ہیں وہ اٹھیں اور اللہ کی عبادت کریں'' سحری کے لیے جگانے والوں کو رمضان کے ڈھولیے بھی کہا جاتا ہے۔

رمضان المقدس کے مہینے میں سحری سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ قبل ڈھولیے گلی گلی ڈھول بجاتے ہوئے گھومتے ہیں۔ یوں سحری کے لیے جگانے کی روایت اب بھی قائم ہے کچھ عرصے قبل پہلے مساہراتی خاص طور پر بچوں میں بہت مشہور ہوتا تھا سحری میں ڈھول بجا کر روزے داروں کو اٹھانے کا رواج پاکستان ہی نہیں ترکی میں بھی موجود ہے۔

رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی ترکی کے ڈھولیے عثمانی لباس زیب تن کیے ہوئے استنبول میں بھائی چارگی کا ثبوت دے رہے ہیں ترکی میں مسلمانوں کو سحری کے وقت جگانے کے لیے 2 ہزار سے زائد ڈھولیے اپنے کردار ادا کر تے ہیں مصر میں رمضان المبارک کے دوران فانوس (لالٹین) اٹھا کر گلیوں کے چکر لگاتے ہیں ۔

یہ روایت ایک ہزار برس سے زائد پرانی ہے کہا جاتا ہے کہ 969 میں اہلِ مصرنے قاہرہ میں خلیفہ معز الدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا جس کے بعد سے رمضان المبارک کے دوران فانوس جلانے کی روایت کا آغاز ہوا ایک اور روایت کے مطابق فاطمی خلیفہ الحاکم بامراللہ کی یہ خواہش تھی کہ قاہرہ میں رمضان المبارک کے دوران افطاری کے بعد چراغاں کیا جائے، چنانچہ انھوں نے یہ حکم جاری کیا کہ تمام مساجد پر لالٹین روشن کی جائے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فاطمی خلیفہ جب رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے گئے تو بچوں نے قندیلیں اٹھا رکھی تھی اور وہ حمد و نعت پڑھ رہے تھے ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ خلیفہ الحاکم نے یہ شرط عائد کی کہ خواتین گھروں سے رات کے وقت اسی صورت میں نکل سکتی ہیں جب ان کے ساتھ بچہ ہو اور اس نے قندیلیں تھامی ہوئی تھیں۔

دبئی میں افطار کے وقت توپ کا گولہ داغنے کی روایت برقرار

دبئی میں افطار کے وقت توپ کے گولے داغے جانے کی روایت آج بھی قائم ہے اس سال دبئی کے 6 مقامات پر توپیں نصب کی گئی ہیں جو گولے داغ کر افطار کے وقت کا اعلان کریں گی گولے داغنے کی ذمے داری دبئی پولیس کے محکمہ کمیونٹی ہیپی نیس کو سونپی گئی ہے گولے داغنے کے لیے 1945کی برطانوی ساختہ توپیں استعمال کی جاتی ہیں جن میں 25 ملی میٹر کا بارود استعمال کیا جاتا ہے۔



گولے داغے جانے کی آواز10کلو میٹر کے فاصلے تک سنائی دیتی ہے توپیں ڈیرہ پرے گرائونڈ، زید بن محمد سینٹر، منیٰ السلام جمیرا، برج خلیفہ اور سٹی واک کے علاقوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ان توپوں کو دبئی کی سیاحت میں اہمیت حاصل ہے اور دبئی کا رخ کرنے والے سیاح رمضان کے دوران ان توپوں کے ساتھ تصاویر اتارنا پسند کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں