ایک قومی زبان کا جواز

قومی زبان کو ختم کرنے کی سازش بھی، قائد کے فرمان سے روگردانی کھلم کھلا ثابت ہوگئی۔


نجمہ عالم May 11, 2018
[email protected]

گزشتہ دنوں دانستہ یا نادانستہ طور پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوگیا کہ ہمارے ''دانشوروں، ٹی وی چینلز کے بقراطوں ، افلاطونوں کو ایک جھنجھنا ہاتھ لگ گیا (یا یہ بھی انتخابات 2018 کی کوئی سیاسی چال تھی) جہاں پہلے ہی سے ہر طرح کے تعصبات مروج ہوں وہاں تو بھرپور سانس لینا بھی اسی عینک سے دیکھا جائے گا کہ فلاں نے فلاں کو دیکھ کر آہیں بھرنا شروع کردی تھیں اور اس کا مطلب یہ تھا۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ بات اتنی تھی کہ (دانستہ یا نادانستہ) سندھ یونیورسٹی کی دانشمند (عاقبت نااندیش) انتظامیہ نے کیمپس میں لگے سائن بورڈز کے بارے میں ایک نوٹس جاری کردیا وہ کیا چاہتے تھے، ہم کیا سمجھے یہ بات الگ ہے مگر ہمارے ذرایع ابلاغ (پرنٹ اور برقی) کو تو ہفتوں اپنا پیٹ بھرنے کا سامان مہیا ہو ہی گیا۔

جامعہ سندھ کا یہ نوٹیفکیشن قومی زبان اردو سے دشمنی قرار دیا گیا اور قومی زبان کو ختم کرنے کی سازش بھی، قائد کے فرمان سے روگردانی کھلم کھلا ثابت ہوگئی، مگر اس صورتحال نے ایک اور دیرینہ مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی۔

اردو پاکستان کی قومی زبان ہے پاکستان قیام کے وقت پانچ مگر اب چار صوبوں پر مشتمل ہے ۔ ہر صوبے کی اپنی نہ صرف زبان ہے بلکہ ان کے نام بھی انھی کے مطابق ہیں ، مگر چاروں صوبوں میں اگر کوئی مشترکہ زبان ہے تو وہ اردو ہی ہے یعنی ملک بھر میں رابطے کی زبان چاروں صوبوں کو جوڑے رکھنے والی زبان ۔ بانی پاکستان کو اگر ذرا سا بھی وقت اور مل جاتا تو سامراجی آقاؤں کے وفاداروں کو وہ گل کھلانے کا موقع نہ ملتا جن کے باعث وطن عزیز ستر برس بعد بھی ترقی پذیر ممالک کی صف میں شمار کیا جاتا ہے ، تاریخ آزادی و قیام پاکستان پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ قائد کی مخدوش صحت کا انداز کرتے ہوئے موقع پرستوں، ابن الوقتوں نے کیا کیا نہیں کیا۔

اپنے آج کے موضوع کی طرف آتے ہوئے میں یہ ضرور عرض کروں گی کہ بہت کم مدت کے باوجود قائد اعظم تقریباً ہر مسئلے کو حل کر گئے ہیں اگر ان کے فرمان کی ہماری نظر میں کوئی وقعت (معذرت کے ساتھ) ہو تو اس صورتحال کے مد نظر اردو سے کسی بھی طرح کا تعصب یا پرخاش رکھنا کسی بھی علاقے کو نہ زیب دیتا ہے اور نہ اس کے مفاد میں ہے۔ ہر علاقے اور زمانے میں کچھ کج فہم ہوتے ہیں، ان میں جاہل ہی نہیں بڑے پڑھے لکھے بلکہ دانشور بھی ہوتے ہیں جو ایسے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں کہ ہماری علاقائی زبان، رسم و رواج اور ثقافت کو کسی زبان سے خطرہ ہے حالانکہ ایسے دانشور نہ اکثریت میں ہوتے ہیں اور نہ اپنے علاقے کے لیے مخلص، مگر وہ ایسا کچھ نہ کریں تو انھیں کوئی دانشور کیسے سمجھے؟

اردو بولنے والوں کا یہ ''احساس تفاخر'' کہ ان کی زبان ہی قومی زبان سے بھی کسی جاہلانہ رویے سے کم نہیں، بے شک آپ اردو بولنے والے ہیں (مگر آپ کو کوئی علاقائی زبان نہیں آتی جب کہ تمام علاقوں کے افراد کو اچھی نہ سہی بری درست نہ سہی غلط ہی اردو بولنی آتی ہے) مگر یہ مت بھولیے کہ اردو کسی ایک علاقے، کسی ایک گروہ کی زبان نہیں اردو کی ترقی، بنانے، سنوارنے میں پورے برصغیر نے حصہ لیا ہے، اور یہ انداز فکر بھی غلط ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں بلکہ سکھوں نے بھی اس کی ترقی میں، اس کو ادبی اور تحقیقی زبان بنانے میں برابر کا حصہ ڈالا ہے۔ لہٰذا اردو کو کسی خاص علاقے یا مذہب سے وابستہ کرنا خود اردو کے حق میں نہیں ایسے ہی انداز فکر کے باعث علاقائی یا مذہبی تعصب اردو کے دامن گیر ہوا (ہندوستان میں اردو پر ہندی کو ترجیح دی گئی اور دیوناگری رسم الخط کو رواج دیا گیا) جب یہ بات طے ہے کہ اردو نہ علاقائی نہ مذہبی زبان ہے تو اس کو تعصب کی نظر کرنے کے بجائے سب کو کھلے دل سے اپنانے میں ہی سب کا مفاد ہے۔

جب پورا برصغیر اپنے آقاؤں کی زبان انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑ سکتا اور انگریزی کی روز افزوں ترقی و رواج سے کسی بھی علاقائی زبان کو کوئی خطرہ نہیں حالانکہ نہ صرف زبان بلکہ ہر علاقے کے رسم و رواج و ثقافت کو انگریزی سے جو براہ راست خطرہ ہے اس پر کسی کی نظر نہیں بلکہ صرف اردو دشمنی میں انگریزی کو اہمیت دی گئی ہے جب انگریزی پر کوئی اعتراض نہیں تو پھر اردو کے لیے آئے دن طرح طرح کے خدشات یا علاقائی زبانوں و ثقافت کے ختم ہونے کے شکوک کا کیوں اظہار کیا جاتا ہے؟ دیکھا جائے تو اردو نے علاقائی زبانوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ بھی مت بھولیے کہ خود اردو کے ذخیرۂ الفاظ اور قوت اظہار میں علاقائی زبانوں کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو بولنے والوں نے علاقائی زبانیں سیکھنے میں کتنی دلچسپی لی؟ اندرون سندھ، بلوچستان، کے پی کے میں اردو بولنے والے اپنے اپنے علاقے کی زبان سے کس حد تک واقف ہیں؟ ہاں پنجاب کے اردو داں عموماً روانی سے پنجابی بولتے ہیں۔

سندھ کے چھوٹے شہروں میں بسنے والے اردو دان بھی کسی حد تک سندھی بول اور سمجھ لیتے ہیں۔ مثلاً ہمارا بچپن خیرپور میں گزرا تو ہم نے بڑی حد تک سندھی شوق سے سیکھ لی۔ ادبی ذوق کے باعث سندھی ادب پڑھنے کے شوق میں جامعہ کراچی سے باقاعدہ سندھی زبان کا کورس نہ صرف کیا بلکہ اول درجے میں پاس کیا اور یوں براہ راست سندھی ادب سے استفادہ کیا، مگر بیشتر اردو بولنے والے (بطور خاص کراچی کے) آخر اپنے صوبے کی زبان سیکھنے کو کیوں ضروری خیال نہیں کرتے؟

جب کہ سندھ کے تقریباً سب پڑھے لکھے یا شہروں میں رکھنے والے اپنے مخصوص لہجے میں روانی سے بامحاورہ اردو بولتے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں آرٹس کونسل کی اردو کانفرنس میں وزیر ثقافت سید ناصر شاہ نے بے حد عمدہ اردو میں تقریر کی سوائے مخصوص سندھی لہجے کے، ان کے کسی ایک حرف پر بھی گرفت نہیں کی جاسکتی ، ان کے خیالات اور پراعتماد لہجے کے باعث سامعین نے بھرپور انداز میں تالیاں بجا کر انھیں سراہا، جب کہ اردو کے اچھے مقررین شاید (یقینا نہیں) اتنی اچھی سندھی نہ بول سکیں ۔

اگر ہم اردو بولنے والوں کو سندھ میں رہنا ہے تو خود کو اس صوبے کے باسیوں سے مل جل کر سندھی ثقافت کو قدر کی نگاہ سے دیکھ کر اس صوبے کو اپنا صوبہ تسلیم کرنا ہوگا۔ پرانے سندھی بھی سب نہیں تو بیشتر ایک صدی دو یا پانچ صدی قبل مہاجر تھے، کیونکہ تمام سید، قریشی، فاروقی، عثمانی، گردیزی، بخاری، لودھی وغیرہ وغیرہ کم و بیش عرصے قبل یہاں ہجرت کرکے آئے تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے رنگ میں رنگ گئے اور سندھی ہوئے، ذوالفقار مرزا، سید خورشید شاہ اور خود موجودہ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ دو چار صدی قبل عرب سے ہی ان کے آبا و اجداد ہجرت کرکے یہاں آئے ہوں گے۔ ستر برس کے دوران اردو بولنے والے بھی ایک ڈیڑھ صدی بعد سندھی ہی کہلائیں گے۔ البتہ اردو زبان بلا سرکاری سرپرستی کے پھلتی پھولتی رہے گی اسی لیے یہ قومی زبان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں