لال بتی اور حقیقی مسائل
ملک کی بڑی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں تن من اور دھن کی بازی لگاتی نظر آ رہی ہیں۔
پاکستان کے عوام و خواص ، سیاسی کارکنوں، سماجی دانشوروں ' پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے لے کر ہر جگہ ، بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت موضوع بحث ہے اور کیوں نہ ہو الیکشن 2018کی انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے ۔ ملک کی بڑی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں تن من اور دھن کی بازی لگاتی نظر آ رہی ہیں تو دیگر چھوٹی جماعتیں بھی اور بھاؤ بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔ پاکستان کا عام ووٹر مگران دنوں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے شدید متاثر نظر آتا ہے۔
صورتحال اور زیادہ تشویش ناک اس لیے ہوجاتی ہے کہ ملک کی کوئی سیاسی جماعت جوالیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہے وہ موسمیاتی تبدیلی اور ملک کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو کوئی مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی تو دوسری جانب عوام اور سول سوسائٹی کے کسی حصے کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ بھی سامنے نہیں آرہا کہ ہمیں ماحولیاتی تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ سیاسی و مذہبی اشرافیہ سے لے کر دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز نے عوام کو متعدد فرضی مسائل کی لال بتیوں کے پیچھے لگا رکھا ہے جس کے پیچھے وہ آج تک دوڑتے چلے جا رہے ہیں ۔ ایک بتی بجھتی ہے تو دوسری پھر تیسری ۔ لال بتیوں کا یہ ختم نہ ہونے والا گورکھ دھندہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے جاری ہے ۔
قیام پاکستان کے وقت عوام کو 5000کیوبک فٹ فی فرد پانی میسر تھا، یہ شرح گھٹتے گھٹتے 800 کیوبک فٹ تک پہنچ چکی ہے اور آج پوری قوم پانی کی بوند بوند کو ترس رہی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 8کروڑ 80 لاکھ افراد ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں پانی میں سنکھیا کی مقدارمتعین شدہ عالمی معیار سے 5 گنا زیادہ ہے۔ ابتدا میں پورے ملک کے ہر حصے میں درختوں اور جنگلات کی خاصی تعداد موجود تھی مگر اب جنگلات اورگھنے درختوں کا صفایا کر دیا گیا ہے اور یہ عمل آج بھی جاری ہے ۔
حکومتی ادارں کے اعداد وشمارکے مطابق ملک میں جنگلات کا رقبہ 5 فیصد ہے مگر اقوام متحدہ کا ادارہ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن و دیگر غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کی مکمل نفی کرتے ہوئے اسے محض3 فیصد قرار دیتے ہیں ۔ ان اداروں کے مطابق گزشتہ ایک دہائی سے جنگلات کی کٹائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
عالمی بینک کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے صرف2.1 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ واضح رہے عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ہم ہر سال پورے ملک میں کروڑوں بلکہ اربوں درخت لگانے کے اعلانات کرنے اور فوٹو سیشن کروانے کے فن میں مہارت حاصل کرچکے ہیں ۔ ملک کی لاکھوں ایکٹر اراضی بنجر ہوچکی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے قابل کاشت رقبے میں30 سے35 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 21 ملکوں میں شامل ہے جہاں لوگ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں جب کہ ملک کی 36 فیصد آبادی اس مسئلے سے دو چار ہے۔
ہم عوام اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کا خطہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے تاہم ، ملک کی اشرافیہ اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ نشانہ غریب عوام ہی ہیں سو یہ خون خاک نشیناں ہے ، اس لیے یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ ہم سب اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پچھلے کئی برسوں سے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔2015 میں آنے والی گرمی کی شدید لہر شاید ہم اب تک نہیں بھولے ہوں گے کیونکہ اس میںجاں بحق ہونے والے عوام ہی تھے ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ 30برسوں میںگرمی کی شدید لہر میں5 گنا اضافہ ہوا ہے جب کہ صدی کے اختتام تک پاکستان کا درجہ حرارت2 سے5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔ اسی رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے پانی کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کے مطابق عالمی زمینی درجہ حرارت میں2100 تک اوسطاً 01سے 3.5 ڈگری کا اضافہ ہوگا ، لیکن پاکستان اور سندھ ڈیلٹا کے درجہ حرارت میں4 سے6 ڈگری کا اضافہ ہوگا ۔ ایچ ایس بی سی کی تازہ ترین رپورٹ جس میں67 ملکوں کے درجہ حرارت اور موسمی حالات میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سمیت دیگر عوامل کا جائزہ لینے کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں ہندوستان کو پہلے اور پاکستان کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور ان کے بچاؤ کے لیے کی جانے والی صلاحیتوں میں پاکستان سب سے کم صلاحیت کا حامل ملک ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کے حالات کبھی اس نوعیت کے کاموں کے لیے سازگار نہیں ہوتے۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی بحران موجود رہتا ہے اورکبھی بحران پیدا ہونے میں تاخیر ہوجائے تو ہم کوئی بحران خود پیدا کرلیتے ہیں۔ شاید ہمیں پرسکون ماحول میں زندگی گزارنے کی عادت نہیں ہے۔ دنیا کو تو چھوڑیے، کبھی یہ سوچا ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک کس تیزی سے ہم سے آگے نکل چکے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ آئین اور قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں۔ سب اپنا اپنا کام کرتے ہیں اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرتے ہیں۔
اس کا تیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر شعبے اورادارے میں استحکام پیدا ہوتاہے اور وہ بہترین نتائج دیتا ہے جس سے ملک پائیدار انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ کاش وہ دن بھی آئے کہ جب ہم اس بات کو سامنے رکھیںکہ ہم پر انفردی یا ادارہ جاتی طور پر جو بنیادی ذمے داری عائد ہوتی ہے، ہم اس کو کس حد تک پوری کر رہے ہیں۔ یہ انداز فکراختیار کیے بغیر ترقی کے خواب تودیکھے جاسکتے ہیں لیکن انھیںشرمندہ تعبیر کرنا ممکن نہیں ہوگا، اس لیے پہلا کام تویہ کیاجائے کہ ذہن سے یہ خام خیالی نکال دی جائے کہ ہم سب سے بہتر ہیں اور ہر مسئلے کا حل صرف ہمارے پاس ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم اپنے شعبے میںکتنا بہتر ہیںاور ہماری پیشہ ورانہ کارکردگی قابل رشک ہے کہ نہیں؟
ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے سے گرمی کی شدید لہر، خشک سالی، سطح سمندر میں اضافہ، غذائی عدم تحفظ، زرعی پیداوار اور پانی کے وسائل میںکمی، گلیشئر کا پگھلنا، اور سیلاب جیسے سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں جن میں سے بیشتر کا شکار عوام گزشتہ کئی برسوںسے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان واقعات کے نتیجے میں ملک کی معیشت پر جو بدترین اثرات مرتب ہورہے ہیں اس کا نشانہ بھی عوام ہی ہیں۔
ایک ایسا ملک جو چاروں طرف سے موسیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے وہاں عوام اور اشرافیہ کے تمام حصوں کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے مسائل کسی بھی درجہ کی ترجیح میں شامل نہیں ہیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ ملک میں موسمیاتی تبدیلی کی مرکزی اورصوبائی وزارتیں موجود نہیں۔ کروڑوں اربوں کی فنڈنگ لے کر کام کرنے والی ماحولیاتی تنظیموں کی کوئی کمی نہیںہے، لاکھوںروپے ماہانہ کی تنخواہیںلے کرماحولیات پر کام کرنے والے بھی بے شمار مل جائیںگے جن کی پرمغز تقریریں سننے کے بعد ایسا لگتا ہے پاکستان کی ماحولیات میں بہت بہتری آچکی ہے بس تھوڑی فنڈنگ اور مل جائے تو بقیہ مسائل بھی حل کیے جاسکتے ہیں۔
حقیقت مگر اس کے بالکل برعکس نظرآئی ہے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ عوام کی تکالیف میں روز برروز اضافہ ہی ہوتا چلاجا رہا ہے۔وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے فرد اورقوم دونوں حوالوں سے ہم وقت کی قدرنہ کرنے کی روش رکھتے ہیں۔ اگر ہم نے بحیثیت قوم فرضی مسائل کی لال بتیوں کے پیچھے بھاگنے کا سلسلہ ترک نہ کیا اورحقیقی مسائل کی جانب توجہ نہ دی تو سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔