قلعہ غضنفر گڑھ وقت کی گرد میں چھپا ایک تاریخی مقام ۔۔۔

بانی شجاع آباد نواب شجاع خان نے یہ دفاعی قلعہ اپنے بیٹے کے نام پر تعمیر کرایا


احمد رضوان April 08, 2018
بانی شجاع آباد نواب شجاع خان نے یہ دفاعی قلعہ اپنے بیٹے کے نام پر تعمیر کرایا۔ فوٹو: فائل

خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ سے علی پور کی طرف جائیں تو چند میل کے فاصلے پر ایک سٹاپ لوہار والا آتا ہے، لوہار والا سے بائیں طرف دریائے چناب کی طرف جاتے ہوئے کم و بیش ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ایک اونچا ٹیلہ دکھائی دیتا ہے، ارد گرد کی آبادی سے تقریباً 10 فٹ بلند یہ ٹیلہ قلعہ غضنفر گڑھ ہے جو وقت کی گرد میں چھپا ہوا ایک تاریخی مقام ہے اس قلعہ اور مابعد رہائشی مقام کی کہانی ملتان کے سابق حکمران سدوزئی خاندان سے جڑی ہوئی ہے، یہ قلعہ نواب شجاع خان بانی شجاع آباد کے منجھلے صاحبزادے نواب غضنفر خان کے نام پر تعمیر کیا گیا تھا۔

خطہ ملتان پر ماضی میں بہت سے نامور خاندانوں اور حکمرانوں نے حکومت کی۔ ان کے نام تو تاریخ کے صفحات پر محفوظ رہ گئے لیکن اس خطے میں آباد شہروں اور لوگوں کی زندگی سے محو ہوگئے، وقت کے اس تیز بہائو میں تاج و تخت کا نام و نشان بھی نہیں رہ سکا، ہاں شہروں کی تاریخ ان حکمرانوں کے نام ضرور محفوظ رکھتی ہے جو وقت سے مختلف انداز میں ہم کلام ہوتے ہیں جیسے ماضی میں خطہ ملتان پر حکومت کرنے والا سدوزئی خاندان، اس خاندان نے خطہ ملتان پر کم و بیش نصف صدی تک حکومت کی، گو ملتان پر حکومت کرنے والا اس خاندان کا پہلا فرد نواب زاہد خان تھا لیکن جس شخص نے یہاں سدوزئی خاندان کی حکومت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی وہ نواب شجاع خان تھا۔

نواب شجاع خان کا تعلق پٹھانوں کے معروف سدوزئی قبیلہ کی شاخ موریہ خیل معروف بہ خان خیل سے تھا۔ نواب شجاع خان اور احمد شاہ ابدالی تقریباً ہم عمر تھے، جب ملتان میں احمد شاہ ابدالی کی والدہ زرغونہ کا انتقال ہوا تو نواب زاہد خان کی اہلیہ جو رشتہ میں احمد شاہ ابدالی کی خالہ تھیں نے اسے اپنی تولیت میں لے لیا تھا، یوں احمد شاہ ابدالی اور نواب شجاع خان رضاعی بھائی بن گئے تھے، نواب شجاع خان کی خطہ ملتان کی تاریخ میں اہمیت تین حوالوں سے ہے ایک تو انہوں نے اس خطے میں سدوزئی خاندان کو حکومت کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کی، نواب شجاع خان کابل کے پٹھان حکمرانوں کی طرف سے تین بار ملتان کے گورنر بنائے گئے۔

ان کے بعد تقریباً 39 سالہ دور حکومت ان کے بیٹے نواب مظفر خان کا بھی رہا، تاریخ ملتان میں نواب شجاع خان کی اہمیت کا دوسرا حوالہ ان کی سکھوں کے خلاف مزاحمت ہے، انہوں نے کابل کے پٹھان حکمرانوں کے ساتھ مل کر بہت سال تک سکھوں کو ملتان کی حدود سے دور رکھا، خطہ ملتان کی تاریخ میں نواب شجاع خان کی اہمیت کا تیسرا حوالہ ان کے آباد کردہ وہ شہر ہیں جو انہوں نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے نام پر آباد کئے، ان کے آباد کردہ شہروں میں شجاع آباد، خان گڑھ، سکندر آباد، غضنفر گڑھ اور مظفر گڑھ شامل ہیں، یہ شہر اور قصبے آج بھی ان کے اور ان کے اہل خانہ کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں آج ہم آپ کو وقت کی گرد میں چھپے ایک تاریخی قلعہ غضنفر گڑھ کی کہانی سنا رہے ہیں۔

نواب شجاع خان جو نواب زاہد خان سدوزئی کے چھوٹے فرزند تھے نے آخری وقت میں اپنے والد نواب زاہد خان کی بہت زیادہ خدمت کی تھی، اس لئے وفات کے بعد ان کی ساری دولت نواب شجاع خان کے حصے میں آئی، ''تذکرۃ الملوک'' جو شہزادہ علی محمد خان سدوزئی کی فارسی تصنیف ہے سدوزئی خاندان کے مفصل حالات سامنے لاتی ہے، اس تاریخی کتاب کے مطابق ''نواب شجاع خان مواضعات اور زرعی زمینیں خریدنے کا مریض تھا اس نے باپ کی وفات کے بعد بہت سے مواضعات اور زرعی زمینیں خریدیں، اس طرح نواب شجاع خان صوبہ ملتان کی قابل کاشت اراضیات کے ایک چوتھائی حصے کا مالک بن بیٹھا مواضعات خریدنے کے ساتھ ساتھ اسے نئے قلعہ جات کی تعمیر سے بھی بہت زیادہ دلچسپی تھی''۔

کہا جاتا ہے کہ نواب شجاع خان جو صوبہ ملتان میں بہت بڑی زرعی اراضی کے مالک تھے، اپنی جاگیر سے بہت زیادہ آمدنی حاصل کرتے تھے، انہوں نے اس خطے میں زراعت کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا، انہوں نے اپنے علاقوں کی حفاظت کیلئے مناسب مقامات پر خان گڑھ، شجاع آباد، سکندر آباد، غضنفر گڑھ کے قلعے تعمیر کرائے، نواب شجاع خان کے تعمیر کردہ یہ تمام قلعے شہر نما قلعے تھے، تذکرۃ الملوک کے مطابق نواب شجاع خان نے 1748ء میں شجاع آباد شہر کی بنیاد رکھی، یہ شہر 1772ء تک تکمیل کے مراحل سے گزرتا رہا، 1772ء میں شجاع آباد کے گرد پختہ فصیل تعمیر کرائی گئی۔ شجاع آباد کے نواح میں انہوں نے اپنے بیٹے سکندر خان کے نام سکندر آباد قلعہ بنوایا، دریائے چناب کے کنارے نواب شجاع خان نے ایک قلعہ نما شہر خان گڑھ کے نام سے آباد کیا عوام کو رہائش کے لئے مکانات بلکہ گزر اوقات کیلئے اراضیات بھی دی گئیں۔

شجاع آباد اور خان گڑھ کے درمیان دریا سے گزرنے کیلئے گھاٹ بنوایا اور کشتیوں کا انتظام بھی کیا گیا جن کا کام مسافروں کو دریا سے مفت گزارنا تھا، نواب شجاع خان نے دریا کے دونوں طرف لنگر جاری کئے جہاں مسافروں کو دو وقت کا کھانا مفت ملتا تھا، مولانا نور احمد خان فریدی کی ''تاریخ ملتان'' کے مطابق کسی دور میں دریا کے دونوں طرف ''لنگراویں'' نام کی بستیاں بھی آباد تھیں۔

مولانا نور احمد فریدی کی ''تاریخ ملتان'' دیگر تاریخی کتابوں کے ساتھ ساتھ خان گڑھ کی صدری تاریخ کے مطابق قلعہ خان گڑھ نواب شجاع خان نے اپنی بیٹی خان بی بی کے نام پر آباد کیا تھا لیکن ''تذکرہ الملوک'' جو نواب مظفر خان کے ہم عصر شہزاد علی محمد خان کی فارسی تصنیف ہے میں ایک اور روایت سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ نواب شجاع خان نے خان گڑھ اپنی پھوپھی خدیجہ معروف بہ خان بی بی کے نام پر آباد کیا تھا ، تذکرۃ الملوک کے مطابق ''نواب شجاع خان کی پھوپھی جن کا نام خدیجہ تھا نواب عابد خان سدوزئی کی بیٹی تھیں یہ عبداللہ خان معروف بہ جیون خان کی زوجہ تھیں، جوانی میں بیوہ ہوگئی تو اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کے پاس رہنے لگیں، انہوں نے بڑی لمبی عمر پائی، یہ بہت عابدہ اور زاہدہ تھیں، پشتو اور فارسی میں شعر کہتی تھیں، خان گڑھ کا قلعہ انہی جان حور معروف بہ خان بی بی کے نام پر قائم ہوا''۔

تذکرۃ الملوک کے ساتھ ساتھ عمر کمال خان ایڈووکیٹ کی کتاب ''نواب مظفر خان اور ان کا عہد'' میں بھی قلعہ خان گڑھ کی تعمیر انہی خان بی بی سے منسوب کی گئی ہے۔ سدوزئی خاندان کا آباد کردہ ایک اور شہر مظفر گڑھ ہے جو نواب شجاع خان کے سب سے بڑے صاحبزادے نواب مظفر خان گورنر ملتان نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کرایا، کہا جاتا ہے اس کی بنیاد 1794ء میں رکھی گئی، یہاں بھی قلعہ نما شہر تعمیر کرایا گیا، قلعہ مظفر گڑھ کی تعمیر سے پہلے ملتان سے ڈیرہ غازیخان جانے والی سڑک پر ایک دکان اور چند مکانات تھے، اس وقت یہ علاقہ موسن ہٹی کہلاتا تھا۔

نواب شجاع خان کے آباد کردہ شہر شجاع آباد، خان گڑھ، سکندر آباد کسی نہ کسی حوالے سے آج بھی تذکروں میں رہتے ہیں لیکن ان کا تعمیر کردہ قلعہ غضنفر گڑھ وقت کی گرد میں چھپ گیا ہے، یہ چھوٹا تاریخی قلعہ نہ تو سدوزئی خاندان کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے نہ ہی اس قلعہ کا اس علاقے کی تاریخ میں کوئی کردار نظر آتا ہے، نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں اس شخص کے نام کا حوالہ ملتا ہے جس کے نام پر یہ قلعہ آباد کیا گیا ۔ ملتان کی تاریخ میں نواب شجاع خان اور ان کے صاحبزادے نواب مظفر خان کے بارے میں تو تفصیلی تذکرے ملتے ہیں لیکن نواب شجاع خان کے دیگر صاحبزادگان نواب سکندر خان، نواب غضنفر خان اور نواب سنجر خان کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔

تذکرۃ الملوک ہی ایک ایسی کتاب ہے جس میں نسبتاً اختصار کے ساتھ ان کے حالات درج کئے گئے ہیں، تذکرۃ الملوک کے مطابق ''نواب شجاع خان کا تیسرا صاحبزادہ غضنفر خان لائق اور عاقل تھا، جب جوان ہوا تو قلعہ غضنفر گڑھ اور دیگر مواضعات پر متصرف ہوا، باپ سے حاصل کردہ جائیداد سے 28 ہزار روپے سالانہ آمدنی وصول کرتا تھا، نواب شجاع خان کی وفات کے وقت اس کی عمر 20 سال تھی چونکہ جوان اور حسین تھا، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا، سو اپنی قیمتی عمر نشہ بازی اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں بسر کی، نشہ میں اس قدر غرق رہتا تھا کہ سال سال غسل نہ کرتا تھا جس جگہ بیٹھا ہوتا وہاں سے اٹھنے تک کی اس میں سکت نہیں ہوتی تھی، سکھوں کی فتح کے بعد وہ حافظ احمد خان سدوزئی کے پاس کچھی گیا اور گزر بسر کیلئے اپنا وظیفہ مقرر کرایا جب سکھوں نے کچھی فتح کرلیا تو سندھ کی طرف چلا گیا جب والیان سندھ نے اسے اس حال میں دیکھا تو کچھ خاطر مدارت کرکے رخصت کر دیا ، بڑی بے سرو سامانی کی حالت میں ملتان آیا پھر لاہور چلا گیا اور وہیں فوت ہوا، اس کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کی ماں باز خان سدوزئی کی بیٹی تھی جبکہ دوسری بیٹی کی ماں غلزئی افغان تھی، اس کی دونوں بیٹیوں کی شادی (ایک کے مرنے کے بعد) نواب سرفراز خان کے بیٹے فیروز الدین سے ہوئی۔''

نواب غضنفر خان کے نام پر تعمیر ہونے والا قلعہ غضنفر گڑھ مابعد رہائش مقام کم و بیش 40 بیگھہ زمین پر مشتمل تھا، یہ ایک ایسا دفاعی قلعہ تھا جو شجاع آباد اور خان گڑھ کے دفاع کیلئے تعمیر کیا گیا تھا اس قلعہ سے قلعہ خان گڑھ چند میل جبکہ اس قلعہ سے مشرقی سمت بہنے والے دریائے چناب کے پار شجاع آباد شہر واقع ہے، یہ قلعہ ارد گرد کی آبادی سے 10 فٹ بلند ہے، قدرے بلندی پر اس قلعہ کو اس لئے تعمیر کیا گیا کہ دریائی سمت اور علی پور سے آنے والی سڑک پر نظر رکھی جاسکے، مرکزی شاہراہ سے ہٹ کر درختوں اور کھیتوں کے درمیان موجود یہ قلعہ ایک طرح سے خفیہ قلعہ تھا جہاں سے جنگ کے وقت دشمن پر آسانی سے حملہ کیا جا سکتا تھا اور دشمن کو اس قلعہ کی موجودگی کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔

قلعہ غضنفر گڑھ کی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی دیوار کم و بیش 7 فٹ چوڑی تھی، اس کی فصیل پر چار بڑے برج تھے جہاں دشمن پر نظر رکھنے کیلئے باقاعدہ مسلح فوجی تعینات کئے جاتے تھے۔ مظفرگڑھ اور ملتان کی تاریخ قلعہ غضنفرگڑھ کی حقیقی تاریخ سامنے نہیں لائی نہ تو اس قلعہ پر ہونے والے کسی حملہ کا پتہ چلتا ہے نہ ہی یہاں کے دفاعی نطام اور فوجی طاقت کا کسی طور پر احاطہ ہوتا ہے' ہاں سکھوں نے اس قلعہ پر 1818ء اور اس سے پہلے بھی حملے کئے۔ اس وقت نواب غضنفر خاں ہی اس قلعہ پر متصرف تھا لیکن اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ اس قلعہ میں فوج کتنی تھی اور یہاں سے سکھوں کے خلاف کس سطح کی مزاحمت کی گئی۔ سکھوں نے 1818ء اور اس سے پہلے اپنے سات مشہور حملوں میں اس قلعہ کو بھی فتح کیا تھا۔ نواب مظفر خان کے عہد میں جو سکھوں کا آخری حملہ ہوا تھا اس میں بھی اس قلعہ پر حملہ کیا گیا تھا۔

سکھوں نے اس قلعہ کو فتح کرکے ان ہندوئوں کے حوالے کر دیا تھا جنہوں نے نواب مظفر خان کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دیا تھا ، دوسرے معنوں میں اس جنگ کے بعد اس قلعہ کی دفاعی حیثیت ختم ہو گئی تھی۔ قلعہ غضنفر گڑھ کی فصیل اور برج سکھوں کے خلاف جنگ میں شدید متاثر ہوئے تھے جب برٹش آرمی نے ملتان پر حملہ کیا تو شجاع آباد اور اس سے ملحقہ قلعہ خان گڑھ اور غضنفر گڑھ بھی شدید حملوں کی زد میں آئے تھے، باقی ماندہ فصیل اس جنگ میں ختم ہوئی۔ قلعہ غضنفرگڑھ کے 2 دروازے اور 4 برج تھے، اب ان میں سے ایک بھی باقی نہیں ہے۔ اس کا مرکزی دروازہ لوہار والا سے غضنفرگڑھ کی طرف آنے والی سڑک کے سامنے ہی واقع تھا۔

غضنفرگڑھ قلعہ کے اندر نواب غضنفر خان کے دور میں ایک مسجد بھی بنائی گئی تھی لیکن اس وقت اس مسجد کے آثار موجود نہیں ہیں، اس وقت جو مسجد ٹبہ غضنفرگڑھ پر موجود ہے وہ پرانی مسجد کی بنیادوں پر ہی تعمیر کی گئی ہے۔ 1818ء کے بعد جب یہ قلعہ نواب مظفر خان کے ساتھ جنگ میں ساتھ دینے والوں کے ہاتھ آ گیا تو یہ ہندوئوں کی آبادی پر مشتمل ایک ایسا منفرد مقام بن گیا جو اردگرد کی آبادی سے الگ تھلگ تھا اس قلعہ میں ایک سو کے قریب گھرانے آباد تھے جو بیشتر ہندو ہی تھے لیکن کچھ کا تعلق سکھ دھرم سے بھی تھا جب یہ قلعہ مکمل طور پر رہائشی مقام بن گیا تو اس میں ایک مندر، دھرم شالا اور گورد وارہ تعمیر کیا گیا، دریا کی سمت جہاں قلعہ غضنفرگڑھ کی حدود ختم ہو رہی ہیں ادھر ہندوئوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے مسوانہ بھی موجود تھا۔

قلعہ غضنفرگڑھ میں آباد سارے ہندو یا تو زمیندار تھے یا کاروباری، غضنفرگڑھ قیام پاکستان سے پہلے ایک کاروباری مرکز بھی تھا اس میں موجود ایک چھوٹا سا بازار ارد گرد کے علاقوں کے لوگوں کی تمام ضروریات زندگی پوری کرتا تھا یہاں سنار، بزاز، لوہار اور پرچون کی دکانیں تھیں جہاں تمام تاجر ہندو تھے اور اردگرد کے تمام دیہات کے لوگ یہیں خریداری کرتے تھے یہاں آباد ہندو جو زمیندارہ اور ساہوکارہ کرتے تھے خاصے متمول تھے، قیام پاکستان سے پہلے غضنفر گڑھ ہندو ثقافت کا گڑھ تھا اردگرد خوبصورت کھیتوں سے گھرا ہوا یہ قلعہ علاقہ بھر میں منفرد مقام تھا یہاں کے متمول ہندو اچھے خاصے اثر و رسوخ کے حامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد قلعہ غضنفر گڑھ ایک بستی میں تبدیل ہو گیا اب یہ ایک موضع کہلاتا ہے اور یہ موضع خان گڑھ کے قریب سے شروع ہو کر وسندے والی تک چلا جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے وقت غضنفر گڑھ سے ہندوئوں کی روانگی
تو سندھ کی طرف چلا گیا جب والیان سندھ نے اسے اس حال میں دیکھا تو کچھ خاطر مدارت کرکے رخصت کر دیا ، بڑی بے سرو سامانی کی حالت میں ملتان آیا پھر لاہور چلا گیا اور وہیں فوت ہوا، اس کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کی ماں باز خان سدوزئی کی بیٹی تھی جبکہ دوسری بیٹی کی ماں غلزئی افغان تھی، اس کی دونوں بیٹیوں کی شادی (ایک کے مرنے کے بعد) نواب سرفراز خان کے بیٹے فیروز الدین سے ہوئی۔''

نواب غضنفر خان کے نام پر تعمیر ہونے والا قلعہ غضنفر گڑھ مابعد رہائش مقام کم و بیش 40 بیگھہ زمین پر مشتمل تھا، یہ ایک ایسا دفاعی قلعہ تھا جو شجاع آباد اور خان گڑھ کے دفاع کیلئے تعمیر کیا گیا تھا اس قلعہ سے قلعہ خان گڑھ چند میل جبکہ اس قلعہ سے مشرقی سمت بہنے والے دریائے چناب کے پار شجاع آباد شہر واقع ہے، یہ قلعہ ارد گرد کی آبادی سے 10 فٹ بلند ہے، قدرے بلندی پر اس قلعہ کو اس لئے تعمیر کیا گیا کہ دریائی سمت اور علی پور سے آنے والی سڑک پر نظر رکھی جاسکے، مرکزی شاہراہ سے ہٹ کر درختوں اور کھیتوں کے درمیان موجود یہ قلعہ ایک طرح سے خفیہ قلعہ تھا جہاں سے جنگ کے وقت دشمن پر آسانی سے حملہ کیا جا سکتا تھا اور دشمن کو اس قلعہ کی موجودگی کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔

قلعہ غضنفر گڑھ کی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی دیوار کم و بیش 7 فٹ چوڑی تھی، اس کی فصیل پر چار بڑے برج تھے جہاں دشمن پر نظر رکھنے کیلئے باقاعدہ مسلح فوجی تعینات کئے جاتے تھے۔ مظفرگڑھ اور ملتان کی تاریخ قلعہ غضنفرگڑھ کی حقیقی تاریخ سامنے نہیں لائی نہ تو اس قلعہ پر ہونے والے کسی حملہ کا پتہ چلتا ہے نہ ہی یہاں کے دفاعی نطام اور فوجی طاقت کا کسی طور پر احاطہ ہوتا ہے' ہاں سکھوں نے اس قلعہ پر 1818ء اور اس سے پہلے بھی حملے کئے۔ اس وقت نواب غضنفر خاں ہی اس قلعہ پر متصرف تھا لیکن اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ اس قلعہ میں فوج کتنی تھی اور یہاں سے سکھوں کے خلاف کس سطح کی مزاحمت کی گئی۔ سکھوں نے 1818ء اور اس سے پہلے اپنے سات مشہور حملوں میں اس قلعہ کو بھی فتح کیا تھا۔ نواب مظفر خان کے عہد میں جو سکھوں کا آخری حملہ ہوا تھا اس میں بھی اس قلعہ پر حملہ کیا گیا تھا۔

سکھوں نے اس قلعہ کو فتح کرکے ان ہندوئوں کے حوالے کر دیا تھا جنہوں نے نواب مظفر خان کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دیا تھا ، دوسرے معنوں میں اس جنگ کے بعد اس قلعہ کی دفاعی حیثیت ختم ہو گئی تھی۔ قلعہ غضنفر گڑھ کی فصیل اور برج سکھوں کے خلاف جنگ میں شدید متاثر ہوئے تھے جب برٹش آرمی نے ملتان پر حملہ کیا تو شجاع آباد اور اس سے ملحقہ قلعہ خان گڑھ اور غضنفر گڑھ بھی شدید حملوں کی زد میں آئے تھے، باقی ماندہ فصیل اس جنگ میں ختم ہوئی۔ قلعہ غضنفرگڑھ کے 2 دروازے اور 4 برج تھے، اب ان میں سے ایک بھی باقی نہیں ہے۔ اس کا مرکزی دروازہ لوہار والا سے غضنفرگڑھ کی طرف آنے والی سڑک کے سامنے ہی واقع تھا ۔

غضنفرگڑھ قلعہ کے اندر نواب غضنفر خان کے دور میں ایک مسجد بھی بنائی گئی تھی لیکن اس وقت اس مسجد کے آثار موجود نہیں ہیں، اس وقت جو مسجد ٹبہ غضنفرگڑھ پر موجود ہے وہ پرانی مسجد کی بنیادوں پر ہی تعمیر کی گئی ہے۔ 1818ء کے بعد جب یہ قلعہ نواب مظفر خان کے ساتھ جنگ میں ساتھ دینے والوں کے ہاتھ آ گیا تو یہ ہندوئوں کی آبادی پر مشتمل ایک ایسا منفرد مقام بن گیا جو اردگرد کی آبادی سے الگ تھلگ تھا اس قلعہ میں ایک سو کے قریب گھرانے آباد تھے جو بیشتر ہندو ہی تھے لیکن کچھ کا تعلق سکھ دھرم سے بھی تھا جب یہ قلعہ مکمل طور پر رہائشی مقام بن گیا تو اس میں ایک مندر، دھرم شالا اور گورد وارہ تعمیر کیا گیا، دریا کی سمت جہاں قلعہ غضنفرگڑھ کی حدود ختم ہو رہی ہیں ادھر ہندوئوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے مسوانہ بھی موجود تھا ۔

قلعہ غضنفرگڑھ میں آباد سارے ہندو یا تو زمیندار تھے یا کاروباری، غضنفرگڑھ قیام پاکستان سے پہلے ایک کاروباری مرکز بھی تھا اس میں موجود ایک چھوٹا سا بازار ارد گرد کے علاقوں کے لوگوں کی تمام ضروریات زندگی پوری کرتا تھا یہاں سنار، بزاز، لوہار اور پرچون کی دکانیں تھیں جہاں تمام تاجر ہندو تھے اور اردگرد کے تمام دیہات کے لوگ یہیں خریداری کرتے تھے یہاں آباد ہندو جو زمیندارہ اور ساہوکارہ کرتے تھے خاصے متمول تھے، قیام پاکستان سے پہلے غضنفر گڑھ ہندو ثقافت کا گڑھ تھا اردگرد خوبصورت کھیتوں سے گھرا ہوا یہ قلعہ علاقہ بھر میں منفرد مقام تھا یہاں کے متمول ہندو اچھے خاصے اثر و رسوخ کے حامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد قلعہ غضنفر گڑھ ایک بستی میں تبدیل ہو گیا اب یہ ایک موضع کہلاتا ہے اور یہ موضع خان گڑھ کے قریب سے شروع ہو کر وسندے والی تک چلا جاتا ہے۔

مول نہ و سرم ... میں غضنفر گڑھ کو آج تک نہیں بھولا!!!
غضنفر گڑھ سے ہجرت کرنے والے ہندو بیرسٹر جگدیش بترا کی اپنے شہر سے جڑی یادیں

پروفیسر ڈاکٹر جے سی بترا 1938ء میں ضلع مظفر گڑھ کے علاقے قلعہ غضنفر گڑھ میں پیدا ہوئے، 1947ء میں انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان ہجرت کی لیکن ان کا دل کہیں غضنفر گڑھ کی ڈھنڈ میں ہی پڑا رہ گیا ۔ ہندوستان جا کر ڈاکٹر جگدیش چندر بترا نے نامساعد حالات کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کی بیرسٹر بنے اور قانون کے مضمون میں ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی، آج کل ڈاکٹر بترا سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکیل ہیں۔ سرائیکی زبان اور اپنے شہر سے محبت ان کے خون میں شامل ہے، اسی زبان کی محبت انہیں کئی بار پاکستان کھینچ لائی۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی یہ سرائیکی زبان کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں نہ صرف خود سرائیکی کے کہانی کار اور شاعر ہیں، سرائیکی دنیا کے نام سے ایک میگزین بھی شائع کرتے ہیں۔

ڈاکٹر جے سی بترا کی قائم کردہ تنظیم سرائیکی انٹرنیشنل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سرائیکیوں کو ایک لڑی میں پروتی ہے، ہندوستان میں لوگ انہیں سرائیکی زبان کے محسن کے طور پر جانتے ہیں، جے سی بترا ملتان اور دیگر شہروں کے سرائیکی شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں، اپنے انہی دوستوں کے نام انہوں نے رومن سرائیکی میں لکھی ایک تحریر ''مول نہ وسرم'' بھیجی جسے ہم ترجمہ کر کے ایکسپریس کے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ اس تحریر میں ان کے علاقے غضنفر گڑھ کی تاریخ، تہذیب اور اس سے ان کی بے پایاں محبت دکھائی دیتی ہے، آئیے دیکھتے ہیں ڈاکٹر جے سی بترا قلعہ غضنفر گڑھ کو کس محبت سے یاد کرتے ہیں۔

میں اکتوبر 1938ء میں سائیں دلیپ چندر بترا اور سیئن گنیش بائی کے گھر غضنفر گڑھ ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہوا، میرا نام جگدیش چندر رکھا گیا ۔ اس روز پورے ہندوستان میں دسہرا منایا جا رہا تھا، میری دو بڑی بہنیں سیتا بائی اور کنتی بائی بھی اپنے لالہ سائیں کے ساتھ دسہرا منانے کے لیے خان گڑھ گئی ہوئی تھیں۔ میری پیدائش پر خان گڑھ کے نواب زادہ نصراللہ خان اور چودھری سادھو رام گت نے لالہ دلیپ چندر کو لاکھ مبارکیں دیں، سارے غضنفر گڑھ کے لوگوں ہندو و مسلمانوں نے مل کر خوشیاں منائیں، مولوی ظہور الدین اعوان' کلو خان پٹھان' جال والے کے پیر سید شاہ اور ڈھیڈے لال کے پیر سائیں نے بھی دعائیں دیں، اس خوشی میں غضنفر گڑھ کی ڈھنڈ پر جوت جلائے گئے، مندر' گوردوارہ اور مسجد پر بھی چراغاں کیا گیا، لڈو اور مٹھائی تقسیم کی، دوسرے دن ڈھول تاشے بجائے گئے، جھومر ڈالی گئی' ہیجڑے بھی تانگے پر بیٹھ کر پہنچ گئے۔

دادا جی نارائن مل نے سب کو اپنی حیثیت کے مطابق خوش کیا، جب میں سوا مہینے کا ہوا تو اتر رامے سے ماموں گنیش داس اور نندلال ورمانی اونٹ کچاوا لے کر آگئے، مجھے میری والدہ اور بہنوں کو اپنے گھر لے گئے' حضرت سخی سرور کے مزار پر لے جاکر میری جھنڈ اتروائی، مزار پر چادر چڑھائی، پھر اچ شریف لے گئے، پنجند وساخی کے میلے میں مجھے پانی میں ڈبکی لگوائی۔ میں غضنفر گڑھ میں اپنی گایوں' گھوڑوں اور بھینسوں پر بیٹھ کر بڑا ہوا، غضنفر کی ڈھنڈ پر روز اپنے یار دوستوں کے ساتھ ایک مقدس تیرتھ ہوتی تھی' مجھے کانے اور سریں کی کشتی پر بیٹھ کر پانی کی سیر اور تیراکی کرنے کا شوق چڑھ گیا تھا' پبن کے پھول' پبن کی ٹکیاں اور بھی میرے لئے کائنات کی سب سے خوبصورت چیزیں تھیں۔

میں جب پانچ سال کا تھا تو مجھے گورنمنٹ پرائمری سکول غضنفر گڑھ میں داخل کرایا گیا' یہ غالباً 1943ء کی بات ہے' مولوی ظہور الدین نے مجھ پہلا لفظ الف پڑھایا اور لکھنا بھی سکھایا' مجھ میں لکھنے پڑھنے اور شعر و شاعری کا شوق بھی مولوی ظہور الدین اور پنڈت رام کشن کھب نے پیدا کیا۔ ہمارے سکول میں کل 22 طالب علم تھے جن میں 12 مسلمان اور 10 ہندو تھے۔ اردو میں مولوی ظہور الدین اعوان ماہر تھے اور سب کے ساتھ پیار سے پیش آتے تھے، مجھ سے تو بہت پیار کرتے تھے کیونکہ وہ میرے والد صاحب کے کلاس فیلو اور پکے دوست تھے، ان کے دو بیٹے رشید اور منیر اعوان بھی میرے ساتھ پڑھتے تھے۔ صادق خان پٹھان مجھ سے خاصا بڑا تھا لیکن ہر جماعت دو سال میں مشکل سے پاس کرتا تھا، جے دیو' لدھا رام' چنی لال' ہری داس' اومی' گیان چند' ستیش اور منوہر بھی میرے سکول میں ہی پڑھتے تھے۔

غضنفر گڑھ ایک قلعہ تھا' نواب مظفر خان جو ملتان کے نواب تھے کے نام پر مظفر گڑھ شہر بسایا گیا' نواب مظفر خان کے چھوٹے بھائی نواب غضنفر علی خان کے نام پر غضنفر گڑھ اور ان کی بہن خان بی بی کے نام پر خان گڑھ آباد ہوا۔ 1818ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان پر حملہ کرکے صوبہ ملتان کو پنجاب کا حصہ بنا لیا تھا' ہمارے بزرگوں کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی فوج میں شامل کیا تھا، یوں اس جنگ میں ساتھ دینے کی وجہ سے غضنفر گڑھ ہمیں حصہ میں ملا تھا۔ 1848ء تک دیوان ساون مل اور اس کے بیٹے دیوان مولراج ملتان کے خود مختار حکمران رہے، ہمارے بزرگ بھی ان کے ساتھ حکومت میں شامل تھے۔ مولراج کو انگریزوں نے نواب بہاولپور کی مدد سے جنگ میں شکست دی اور لاہور کے قلعہ میں مولراج کو عمر قید اور کالے پانی کی سزا سنائی، مولراج بنارس میں دم توڑ گیا اور ہم لوگ انگریزوں کے غلام بن گئے، غلامی کی یہ زنجیریں 1947ء میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں توڑی گئیں لیکن پاکستان بننے کی وجہ سے ہمیں 1948ء میں نواب لیاقت علی خان کے کنج پورہ ضلع کرنال میں مہاجر بن کر پناہ لینا پڑی۔

غضنفر گڑھ مجھے آج تک نہیں بھولا نہ ہی میں اپنی میٹھی بولی کو بھول سکا جسے اب سرائیکی کہا جاتا ہے۔ غضنفر گڑھ کے چار اطراف کھجور، آم اور اناروں کے باغ تھے، بہتے کنویں، نہریں، راوی، چناب اور سندھ کی لہریں، بھینس کی دم پکڑ کر دریا تیر کر پار کرنا، ڈیرہ غازی خان کے قریب دریائے سندھ بڑے بیڑے پر پار کرنا، ملتان کی سیر، پرہلاد مندر، نرسنگھ اوتار مندر، زکریا کا مقبرہ، سورج کنڈ اور باغ لانگے خان لائبریری، ابھی تک آنکھوں کے سامنے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے بزرگ دکاندار اور زمیندار تھے بہت سادگی، محبت اور پیار سے خوش خوش رہ رہے تھے۔ اماں سیئن بھگوان کرشن کی بھگت لیکن والد صاحب روز گرو گرنتھ کا پاٹھ کرنے والے تھے۔ ماں گھر میں پیاز، لہسن' انڈہ، گوشت اور مچھلی استعمال نہ کرنے دیتی تھی، شراب بھی گھر میں رکھنا گناہ تھا، لالہ دلیپ چند کو کشتی کا شوق تھا ۔

سفید پوش اور ملنسار تھے، کلاہ پٹکا ان کے لباس کا حصہ تھا، انگریز ڈپٹی کمشنر کو انہوں نے غضنفر گڑھ کی ڈھنڈ پر مرغابی کا شکار کرایا، میرے لئے پینٹ، کوٹ، ہیٹ اور بوٹ جرابیں لے کر آئے تھے، ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر وکیل بنے یہ ان کی خواہش تھی اور رب نے ان کی یہ خواہش پوری بھی کی۔ 1946-47ء کے زمانے میں حالات خراب ہوگئے تھے، غضنفر گڑھ کے کھتری سنار نیبھا رام اور کوڑا رام ملہوترا کی زمین پٹھا کلو خان میں نوابزادہ نصر اللہ خان کے ساتھ لگتی تھی، نہری زمین تھی نیبھا رام خوبصورت اور طاقت ور جوان تھا، مسلمانوں سے اس کی دوستی بھی تھی، کلو خان اسے بالکل اچھا نہ لگتا تھا، کلو خان نے ایک دن غصے میں نیبھا رام کا ناک کاٹ دیا جس پر اسے جیل ہو گئی، کلو خان جیل سے رہا ہوکر آیا تو اسی دن نیبھا رام بھی لاہور سے ناک کی پلاسٹک سرجری کرا کر آیا، بازار میں نیبھا رام نے کلو خان پر تیزاب کی بوتل انڈیل دی، میرے والد دلیپ چند پہلوان تو تھے ہی کلو خان کو اٹھاکر ڈھنڈ میں اتر گئے جس سے اس کی جان بچ گئی، کلو خان لالہ دلیپ چند کا احسان مند اور دوست بن گیا اور یہ دوستی تا زندگی قائم رہی، تقسیم کے بعد بھی خط و کتابت کا رشتہ برقرار رہا، اب تک یہ رشتہ قائم ہے میرے دورہ پاکستان کے دوران سعید الرحمن خان، جہانگیر خان، لیاقت خان پٹھان والا سے مجھے ملنے کیلئے لاہور، ملتان، فیصل آباد، بہاولپور اور خان پور آتے رہے۔

غضنفر گڑھ کے چار طرف قلعہ کی کچی مٹی کی دیوار تھی، قلعے کے اندر صرف ہندو آبادی تھی، سارے مکانات چھوٹی پکی اینٹ کے بنے ہوئے تھے، 1948-49ء میں انگریزوں کے ساتھ لڑائی میں دیوار گرادی گئی، بہت سے ہندو بھی اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے یا مار دئیے گئے تھے۔ مسلمان قلعہ سے باہر آباد تھے۔ زیادہ تر مسلمان غریب تھے، موچی، درزی، لوہار، درکھان، مستری، تانگے والے بھی اکثر مسلمان ہوتے تھے، ہندو اپنی کوئی خوشی مناتے تو ڈھول اور بین بجانے بھی مسلمان ہی آتے تھے۔ شادی کے مواقع پر سہرے، ڈوہڑے، کافیاں،گانے اور جھومر ڈالنے کیلئے بھی مسلمان ہوتے تھے۔

میرا دادا نارائن مل لمبی سفید داڑھی، سفید چولا، سفید پٹکا اور لنگ والی دھوتی پہنتا تھا، وہ سارے غضنفر گڑھ کا دادا تھا ، ہندو مسلمان اور بستی کے سارے لوگ اسے دادا سائیں کہتے تھے، اپنی غمی اور خوشی میں اسے بزرگ سمجھ کر بلاتے تھے۔ اسے سب لوگوں کے ریت رواج کا پتہ تھا، ان پڑھ ہونے کے باوجود بہت سمجھ دار اور طاقت ور انسان تھا، سارے غضنفر گڑھ کا تو وہ کوتوال تھا۔ ایک بار چوروں نے نقب لگائی تو تین چوروں کو دادا سائیں نے فوراً پکڑ لیا ایک چور بھاگ گیا ۔ ایک بار ہماری بھینس چوروں نے رات کو کھول لی، دادا سائیں اس کے پیر کے نشان سے کھوج لگا کر دریا سندھ کے پار سے بھینس لے آئے لیکن چور کو معاف کردیا، چور ایک غریب مسلمان تھا جو سزا یافتہ بھی تھا، چوری اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کے گھر میں بچے

بھوکے تھے، دادا جی نے چور کو ایک بوری گندم بھی دی ۔ غضنفر گڑھ میں ہولی کا تہوار دھوم دھام سے منایا جاتا تھا، رنگ لگانے کے ساتھ رنگیلی محفلیں بھی جمتی تھیں ، قوال، گلوکار اور طوائفیں بھی بلائی جاتی تھیں، ایک بار نوابزادہ نصر اللہ خان بھی شامل ہوئے، ایک بڑی چارپائی پر رنگ دار چادر اور بڑا سرہانہ رکھ کر نیچے کھیس بچھایا گیا، سب ہندوئوں اور مسلمانوں نے نوابزادہ صاحب کو بڑی تہذیب کے ساتھ اس چارپائی پر بیٹھنے کی درخواست کی، نوابزادہ صاحب چارپائی پر بیٹھتے ہی زمین پر آرہے، سب نے کہا ''ہولی ہے بھئی ہولی ہے'' اور تالیاں بجائیں۔ نوابزادہ صاحب نے بھی اس مذاق کا برا نہ منایا ، چارپائی بغیر بان کی تھی، نوابزادہ نے سب گانے والوں کو انعام دیا اور رنگ بھی لگوایا ، اس دور میں ٹاکی سینما صرف مظفر گڑھ میں تھا ، گرامو ریکارڈ ایچ ایم وی کے ہوتے تھے، سریندر کور ان دنوں ''چن کتھاں گزاری ہئی رات وے'' لاہور ریڈیو سٹیشن سے اپنی سریلی آواز میں گاکر سارے وسیب میں معروف ہوگئی تھی، رام لیلا ہم ان دنوں روہیلانوالی یا آلودے والی جاکر دیکھتے تھے۔

1946ء میں پورنماشی کو چیتر کا مہینہ تھا، دادا نارائن مل نے اپنے بیٹے دیو رام کو 200 گز دور سے آواز ماری، ہم سب کی نیند اکھڑ گئی، ہم نے سمجھا پھر کسی چور نے ہمارے گھر کو نقب لگائی ہے جاکر دیکھا تو وہ بڑا شانت تھا لیکن بڑے بڑے سانس لے رہا تھا، ہمیں تسلی دینے لگ پڑا اور کہا اب میں دنیا سے جا رہا ہوں میرے لئے تم رونا پیٹنا مت کرنا ، صبح ڈھول تاشوں کے ساتھ میری ارتھی اٹھانا میری ارتھی کو سجاکر اس پر پھول اور پیسے نچھاور کرنا:

رام رام ست ہے
ست گراں کی لت ہے

گاتے ہوئے ڈھول بجاکر میری رخصتی کرنا، پانچ کلو لڈو بانٹنا، میرے پھل، سواہ میں سے چن کر ڈولی میں بند کرکے ڈنگروں والے بھانے میں ٹانگ دینا، تیرہویں کو بھنڈارا کرنا، پنڈتوں کو روٹی کھلانا، غریبوں کو 101 روپے دان کرنا۔ کوئی فقیر، غریب آئے تو خالی نہ بھیجنا' گوردوارے' مسجد اور مندر میں 21,21 روپے دان کرنا اور یہ سارا خرچہ میری چارپائی کے نیچے دبائے گئے چاندی کے بڑے روپوں سے کرنا، چالیس دن بعد میری استھیا ہر دوار جا کر گنگا مائی کے سپرد کرنا اور دیس راج پانڈے کو بھی 21 روپے دینا' اگر کچھ بچ جائے تو میرے پوترے یعنی مجھے دینا اور میری زمین بھی اس کے یعنی میرے نام کرنا ۔ میں نے یہ سب کچھ اپنی وصیت میں لکھوا دیا ہے جو حکیم رام نارائن بترا کے پاس ہے۔ دادا جی کی ہر بات پتھر پرلکیر اور اپنا دھرم سمجھ کر نبھائی گئی۔ دادا جی کی ارتھی کے ساتھ ھندو' مسلمان' سکھ' عیسائی ہر چھوٹا بڑا ساتھ گیا۔ غضنفر گڑھ کی رونق دادا جی کے گزرجانے سے ماند پڑ گئی، ایسے لگتا تھا جیسے کوئی ڈائن پھیرا ڈال گئی ہو، سنسان اور مونجھا' ساری بستی یتیم ہو گئی۔

1947ء کی آزادی 10 لاکھ بے قصور لوگوں کے قتل کی کہانی ہے جو بہت درد ناک اور انسان کو حیوان اور شیطان کے روپ میں دیکھنے کی کہانی بھی ہے۔ فرشتوں جیسے انسان مولوی ظہور الدین نے میرے والد دلیپ چند کو مشورہ دیا اپنی جائیداد کو چھوڑو' اپنا دھرم اور زندگی بچانے کے لئے غضنفر گڑھ کے لوگوں کو صاف بتا دو کہ ھندوستان چلے جائیں کیونکہ مہاجر جن کے ہاتھ میں حکومت آ گئی ہے ھندو کو پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے۔ یوں قتل عام' اللہ اکبر کے نعرے' لوٹ مار' اغواء' چوری' ڈاکے شروع ہو گئے اور پوری ھندو قوم نشانہ بن گئی۔ ڈھیڈے لال میں میری خالہ کی جوان لڑکی اغواء کر لی گئی، میرا خالو تھانے رپورٹ کرنے گیا تو قتل کر دیا گیا ۔ ہمارے ماموں کو قتل کرکے دریائے سندھ میں بہا دیا گیا' ہم اپنے گھر کھلے چھوڑ کر جانوروں کو پٹھان والا کے کلو خان اور بطخوں کو جال والے کے پیر سید شاہ کو دے کر خان گڑھ آ گئے' اکتوبر 1947ء میں مظفرگڑھ سے گاڑی پکڑ کر نومبر میں جالندھر پہنچے' پھر کور کشیتر مہاجر کیمپ میں پناہ لی' میری چھوٹی بوا اور چھوٹے بھائی نے راستے میں ہی دم توڑ دیا' روٹی کے لالے پڑ گئے۔ دسمبر میں پتہ چلا کہ نواب لیاقت علی خان کنج پورہ کرنال کا قلعہ خالی کرکے کراچی پاکستان کے وزیراعظم بن گئے ہیں' ہم پانی جھاگ کر کرنال سے پیدل کنج پورہ میں مسلمانوں کے خالی مکانات میں پناہ گزین ہوئے۔

غضنفر گڑھ کی ڈھنڈ ہماری زندگی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی' جیسے ہمارے جسم میں 80 فیصد پانی ہے، اسی طرح ہمارے دریا، نہریں' کنویں' ٹوبے اور ڈھنڈ بھی سرائیکی ثقافت کا حصہ ہیں، ہم بے چاری کونجیں روتی اور کرلاتی رہ گئیں:

درد جدائی کیویں ہوندن کیویں دل تڑپیندن
ہوں کولوں ونج پچھو یارو جیھڑی وچھڑی کونج قطاروں

ہماری گاڑی مظفرگڑھ سے چلی تو ایک ہفتے کے لئے اٹاری پر کھڑی ہو گئی، نہ روٹی نہ پانی، ریل کے ڈبوں میں بچوں کی چیخیں کربلا کی طرح پانی بھی نہ بھرنے دیتے تھے' ہمارے سانس خشک ہو رہے تھے' ہمیں کہا گیا کہ ہمیں اس وقت صحیح سلامت بارڈر پاس کرنے کی اجازت ملے گی جب ہندوستان سے مہاجر صحیح سلامت آئیں گے، سکھوں نے امرتسر میں مسلمانوں کی گاڑی روک رکھی تھی' دونوں طرف کے لوگ موت کے منہ میں تھے، ہماری خوش قسمتی جاگی اور گاڑی 24 گھنٹے بعد اٹاری سے امرتسر پہنچ گئی لیکن کسی کو بھی کورکشیتر سے پہلے نیچے اترنے کی اجازت نہ تھی۔ کورکشیتر میں کینٹ صاف ستھرا لگا' رات ہم نے ایک اسلامیہ کالج میں گزاری، صبح اُٹھ کر ٹیوب ویل پر اشنان کیا پھر حکم ہو گیا کہ مظفرگڑھ کے مہاجر انبالہ سے آگے کورکشیتر' کرنال' روہتک' گڑگائوں یا حصار جائیں ہم پہلے کورکشیتر پھر پیدل کنج پورہ ضلع کرنال پہنچ گئے۔

اب کنج پورہ میں کونجوں کا ڈیرہ تھا' جمنا ندی کے کنارے پر ایک نہر جو دریا کی ڈھر نکال کر کنج پورہ کو ایک جزیرہ نما بناتی تھی پھر جمنا ندی میں جا گرتی تھی، یہاں کے یوسف زئی روہیلہ افغانوں نے ہمایوں کی شکست میں شیرشاہ سوری کا ساتھ دیا تھا، شیر شاہ سوری نے کرنال سے انبالہ اور سہارن پور تک کا علاقہ یوسفزیوں کو انعام میں دیا تھا بعد میں کنج پورہ ایک خودمختار ریاست بن گئی تھی، ابراہیم علی خان نے کنج پورہ میں ایک قلعہ چھوٹی پکی اینٹ کا بنوایا۔ 1832ء میں ریاست ختم ہو گئی اور اسے پنجاب میں شامل کر لیا گیا۔ 1900ء میں نواب ابراہیم علی خان نے ابراہیم منزل بنوائی، 1947ء میں نواب لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے، یوں کنج پورہ کی 52 مسلمان بستیوں کی آبادیوں نے بھی پاکستان کا رُخ کیا ۔ ان کے مکانات اور جائیدادیں' مظفرگڑھ، خان گڑھ، وسندے والی، روہیلانوالی، آلودے والی اورعلی پور سے اجڑ کر آنے والے ھندئووں کو الاٹ کر دی گئیں۔ کنج پورہ کی نہر غضنفر کی ڈھنڈ کی طرح پبن کی ٹکیوں' پھولوں اور پتوں سے بھری ہوئی تھی۔ مرغا بیاں' کونجیں' مور' تیتر' بٹیر' جھنجھن' آم' امرود' جامن' بیر' کھجوریں ،گندم، چنا اور گنے کے کھیت لہرا رہے تھے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہم پردیسی پاکستانی مہاجر' شرنارتھی بن گئے تھے۔

16 جنوری 1948ء کو میں نے ڈی جی مڈل سکول کنج پورہ میں چوتھی جماعت میں داخلہ لیا، ابتداء میں ہم نے بڑی مشکل زندگی گزاری، ہمارے والد صاحب نے ایک دکان جو کسی مسلمان پنساری کی تھی اپنے عزیزوں سے قرض لے کر اپنے نام کرائی' والد صاحب صرف کپڑے بزازی کا کام جانتے تھے، کپڑا اب راشن پر ملتا تھا، انہوں نے سرکاری پرمٹ لے کر کپڑے کی راشن والی دکان کھول لی، ادھار دے نہیں سکتے تھے، دکان گھاٹے میں چلی گئی، پھر انہوں نے ایک پرانا سائیکل خریدا اور بستیوں سے دودھ خرید کر حلوائیوں اور گھروں میں بیچنے لگے۔ میں سکول سے پڑھ کر آتا تو ایک لکڑی کی ٹال پر لکڑی کی چھال اتار کر اپنا خرچ چلاتا یا گوہے اور جنگل سے لکڑیاں چن کر بازار بیچتا' میری والدہ چرغہ کاتتی تھیں اور چکی پیس کر اپنا خرچ چلاتی تھیں، بڑی بہن نے کھڈی چلائی تو ان حالات میں 1952ء میں آٹھویں بورڈ کا امتحان پاس کرکے کرنال میں سناتن دھرم ہائی سکول ملتان' جو ملتان سے کرنال منتقل ہو کر ایک دھرم شالا میں شروع ہوا تھا میں میٹرک میں داخلہ لے لیا ، سناتن دھرم ہائی سکول ملتان کرنال رائے بھگوان سنگھ ببلہ نے شجاع آباد' مظفرگڑھ اور ملتان سے مہاجر ہو کر آنے والے ھندوئوں کے بچوں کے لئے شروع کیا تھا۔ نویں جماعت میں پڑھنے کے لئے میں نے دودھ بیچنے کے علاوہ فیس بھی معاف کرائی اور کتابوں کے لئے بھی مدد لی۔ کنج پورہ سے روز سائیکل پر کرنال آنا مشکل ہوتا تھا یوں میرے بہن اور بہنوئی نے کرنال اپنے گھرمیں رہنے کی اجازت دے دی۔ 1954ء میں، میں نے بہت اچھے نمبروں کے ساتھ شملہ پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کیا، پھر میں نے انٹرمیڈیٹ میں نان میڈیکل مضامین کے ساتھ داخلہ لیا۔ کالج میں پہلی دفعہ شلوار قمیض کے علاوہ پینٹ شرٹ پہننی شروع کی۔ گھر میں والدین کے ساتھ ملتانی بولتے تھے لیکن سکول کالج میں ہندی انگریزی یا پنجابی بولتا تھا' سب کچھ اوپرا اوپرا سا محسوس ہوتا تھا ، مجھے اب اپنا وسیب چھوڑے سات سال ہو گئے تھے' لیکن ہم بن واسی شرنارتھی، پاکستانی اور مہاجر کہے جاتے تھے لوکل لوگ ہمیں ھندو تو سمجھتے ہی نہ تھے اور ہم سے رشتے ناتے بھی نہ کرتے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں