ایک سفارت کار کی نظر سے

ہمارے ’’برادر ‘‘مسلمان ممالک کی حکومتیں ، عوام اور میڈیا تو اس ’’کُھلے تضاد‘‘ کا نوٹس نہیں لیتے


Amjad Islam Amjad April 11, 2013
[email protected]

برادرم جاوید حفیظ سے میری پہلی ملاقات چند برس قبل مسقط میں ہوئی جہاں وہ بطور سفیر پاکستان اپنے فرائض ادا کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک کامیاب پیشہ ور سفارت کار تو ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا مطالعہ وسیع ،اندازِ فکر مثبت اور دل عام پاکستانی کے مسائل کے ساتھ ساتھ دھڑکتا ہے۔ سفارتکاری سے قبل کچھ عرصہ تدریس کے شعبے سے بھی متعلق رہے ہیں اور یوں بات سامعین تک پہنچانے کا گُر بھی جانتے ہیں گزشتہ کچھ عرصے سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک انگریزی اخبارمیں باقاعدگی سے کالم بھی لکھ رہے ہیں اور سفارتکاری کے طویل تجربے کے باعث کچھ ممالک اور کچھ عالمی مسائل پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں ۔

اس حوالے سے اُن کی جو چند تحریریں میری نظر سے گزری ہیں ان سے نہ صرف میری معلومات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کئی ایسے حقائق بھی سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں ہمارے یہاں عام طور سے حقیقت سے زیادہ ''گمان ''سے کام لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے حکمران جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو اُن کے ایک ہاتھ میں کشکول تو ہوتا ہے مگر باقی کی ہر چیز ، لباس کی تراش خراش، ذاتی بنائو سنگھار ، گاڑیاں، ہوائی جہاز، سیون اسٹار ہوٹل ، طمطراق اور ہمنوائوں کے قافلے کچھ اور ہی کہہ رہے ہوتے ہیں ۔

ہمارے ''برادر ''مسلمان ممالک کی حکومتیں ، عوام اور میڈیا تو اس ''کُھلے تضاد'' کا نوٹس نہیں لیتے مگر یورپ اور امریکا کے میڈیا میں اس طرح کے ''مظاہرے'' کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے سرکاری خرچ پر باجماعت عمرے کی جو روش چل نکلی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب سعودی عرب والے طوہاً و کرہاً ان آئے دن کے مہمانوں کا استقبال تو کرتے ہیں مگر ان کے پروٹو کول میں بعض اوقات ایسی سرد مہری اور نا پسند یدگی کا مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جسے کسی بھی غیرت مند اور با عزت شخص یا قوم کے لیے باقاعدہ شرمندگی کا منظر نامہ قرار دیاجاسکتا ہے۔

جاوید حفیظ صاحب کی چند ماہ قبل کی ایک تحریر اس وقت میرے سامنے ہے جس میں اس خاص موضوع کے حوالے سے ہمارے مختلف حاکموں کے طرزِ عمل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ معاصر دنیا کے کچھ ملکوں اور ان کے سربراہان کے طرز عمل کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جو چشم کشا بھی ہے اورعبرت انگیز بھی۔ میں کسی مزید تبصرے کے بغیر اس تحریر کے کچھ حصے نقل کر رہا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آیندہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے سیاستدان اگر اس اختیاری، عبادت کو فرض سمجھتے ہیں تو بے شک عمرے کی سعادت حاصل کریں مگر عوام اور سرکا ر کے خرچ پر نہیں بلکہ اس کے لیے اپنی ذاتی جیب اور حلال کمائی کو کام میں لائیں۔

نیا فرانسیسی صدر ہالینڈ ایک باعمل سوشلسٹ ہے۔ حال ہی میں اُس نے برسلز تک کا سفر عام مسافروں کے ساتھ بذریعہ ٹرین کیا ہے وہ اور اس کا وزیر اعظم مارک آئی رائٹ جہاں تک ممکن ہو اپنی ذات کے حوالے سے ریل کے سفر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ، ہوائی سفر کے لیے بھی وہ سرکاری طیاروں کے بجائے عام کمرشل پروازوں کی اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں ۔ صدر نے اپنی کار کا سائز بھی پہلے کی نسبت کم کرا دیا ہے اور اُس کے پاس صرف دو ڈرائیور ہیں جنھیں یہ حکم ہے کہ وہ ہرٹریفک اشارے کی پابندی کریں۔

صدر اور وزیر اعظم دونوں میںسے کسی نے ابھی تک سرکاری خرچ پر پاپائے روم یعنی ویٹی کن سے منظوری اور دعا پر مبنی سفر نہیں کیا جب کہ ہمارے نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے (یہ چند ماہ قبل کی لکھی ہوئی تحریر ہے) اپنے سابقہ ساتھیوں کی طرح سب سے پہلے عمرے کا سفر ہی کیا ہے۔ سعودی عرب میں کچھ عرصہ بطور سفیر گزارنے کی وجہ سے میں سیاسی اعتبار سے تو راجہ صاحب کے اس اقدام کی تحسین کرتا ہوں کہ انھوں نے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا کہ دونوں ملکوں کے قدیم اور گہرے باہمی تعلقات اسی عمل کے متقاضی تھے لیکن جس طرح وہ ایک خصوصی طیارے میں بے شمار ساتھیوں کو بھر کر لے گئے اُس سے مجھے کچھ تشویش ہوئی ۔

ایک طرف معاشی اعتبار سے ملک پستی کی گہرائیوں کو چُھو رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے حاکم ایک ایسی شان و شوکت کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو شائد صرف اُن ملکوں کے سربراہان کو زیب دیتی ہے جو قرض دینے والوں میں سے ہوں ، ہماری طرح مانگنے والے نہ ہوں۔ صدر ضیاء الحق کی چھوڑی ہوئی روایات میں سے کلاشنکوف، ہیروئن اور طالبان کے ساتھ ساتھ اب ان ''سرکاری عمروں'' کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ وہ یہ کام کثرت سے کرتے تھے اور اُن کی دیکھا دیکھی اب ہر صاحبِ اقتدار کرسی پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے یہی کام کرتا ہے۔

اس فہرست میں صرف غلام اسحٰق خان کو استثنیٰ حاصل ہے کہ 1990ء میں جب وہ بحیثیت صدر پاکستان سرکاری دورے پر جدّہ پہنچے اور شاہ فہد نے خود اُن کا استقبال کیا تو عمرے کا پرو ٹوکول انتہائی سادہ رکھا گیا اور اُس کے بعد جب بھی ایسا موقع آیا تو صدر اسحٰق خان نے یہ کہہ کر سرکاری خرچ پر عمرہ ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ عبادت مسلمانوں کے لیے ''فرض'' نہیں ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے پروٹوکول کی وجہ سے دیگر زائرین کو تکلیف میں مبتلا کیا جائے۔پاکستان کے سیاسی سربراہان تقریباً سب کے سب نمود ونمائش اور طاقت کے اظہار کے خواہاں رہے ہیں ۔

نیا وزیراعظم ہائوس کسی مغل بادشاہ کے محل کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے اور کئی حکمرانوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے اس پر تنقید کرنے کے باوجود اقتدار میں آنے کے بعد اس کے اخراجات کو گھٹانے کے بجائے ان میں مزید اضافے کی پالیسی ہی روا رکھی ہے۔ ملتان کے شہزادے سابق وزیر اعظم نے اپنی نا اہلی کے ہنگام میں اسے آئی ٹی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرکے آنے والوں کے لیے تو مشکلات ضرور پیدا کی ہیں لیکن کوئی ان سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ آخر یہ خیال ان کے ذہن میں اقتدار کے پچاس مہینوں کے دوران کیوں نہیں آیا۔

دس برس قبل جب میں ایتھنز (یونان) میں سفیر تھا تو وہاں کا صدر میری رہائش گاہ سے دو گلیوں کے فاصلے پر ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتا تھا۔ ہمارے مشترکہ راستے پر ایک ٹریفک سگنل پڑتا تھا۔ اتوار کو اسے زرد لائٹ پر کردیا جاتا تھا تاکہ لوگ کم ٹریفک کے باعث طویل اشاروں سے بچ جائیں ۔ ایسی ہی ایک شام میں، میں نے دیکھا کہ یونانی صدر اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے سامنے کی طرف سے آرہے ہیں ۔ ٹریفک اصول کے مطابق پہلے گزرنے کا حق اُن کا تھا لیکن انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے گزرنے کا راستہ دیا میں ان کی اس انسانی عظمت اور کردار کی خوب صورتی پر دنگ رہ گیا ۔ کیا ہماری مملکت اسلامیہ میں بھی کبھی ایسا کوئی منظر دیکھنے میں آسکتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں