احوال واقعی

وفاق کا کوئی منصوبہ ایک مخصوص علاقے کے علاوہ کہیں مکمل نہیں ہوا۔



سینیٹ کے غیر متوقع نتائج پر جس طرح حکمراں جماعت اور اس کے ''حواریان'' چراغ پا ہوئے اور بلوچستان کے ایک مدبر سیاستدان کہلانے والے صاحب نے غضبناک گفتگو فرمائی اس نے سارے کھیل کا پردہ چاک کردیا ۔ شطرنج کے مہروں کا تلملانا ان کے خوابوں کی تعبیر کے برعکس تھا۔

جو لوگ سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے کے بارے میں جانتے ہیں ، بھی اپنے مفادات کی خاطر اسے سپورٹ کر رہے ہوں ان کے بارے میں قوم ہی سوچ لے تو ہم جانتے ہیں کہ ان کی حقیقت صرف اقتدار تھا اور ہے۔ ہاتھی مرا بھی سوا لاکھ کا ہے۔اپنوں کے تبصرے سونے پہ سہاگہ نہیں، جلتی پر تیل ہیں۔ آگ بھی اپنوں نے سلگائی ہے اور تیل بھی وہی چھڑک رہے ہیں۔

وزیر بھی مملکت کے بجائے سابق حکمران کے باجگزار ہیں، کیوں نہ ہوں ۔ پاکستان سے زیادہ تعلق ان کا شاید سابق حکمران خاندان سے ہے اور وہی ان کی بقا اور سلامتی کا ضامن ہے،وہ اپنا مستقبل بنا رہے ہیں، مگر سینیٹ نے شہ دے دی ہے شاید اگلی چال کوئی چل دی ہو کیونکہ ان کے پاس چالبازوں کی کمی نہیں ہے۔

اب پاکستان میں جھوٹ کی کوئی حد نہیں پہلے کچھ لحاظ ضرور تھا اب وہ بھی نہیں رہا ۔ عوام کو اداروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے پہلے ہی بے لگام ادارے حکومت کی سرپرستی میں عوام پر قہر ڈھا رہے ہیں ۔ سرفہرست برقیات کا محکمہ اور اس کے حواریان۔ ایک صحافی کے بقول ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی ہے، جب کہ عوام خصوصاً سندھ کے عوام اس عذاب میں مبتلا ہیں۔ بعض صحافی اور بھارت کے ایک سیالکوٹی صحافی ایک ہی ذہن رکھتے ہیں، صوبہ بھی ایک اور مخصوص ''ازم'' بھی ایک۔

ان کے بقول سابق حکمران ناگزیر ہے۔ بھوکے عوام اور بدحال کسان موٹر وے اور نیلے پیلے ٹرانسپورٹ کو چاٹ کر بھوک پیاس مٹائیں گے اپنے ملک کے لوگ جان سے جائیں کوئی حرج نہیں باہر کے لوگ دیکھ لیں کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ عدالت اگر ان علاقوں کے منصوبوں، رقوم اور خرچ کو چیک کرلے تو معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان کے عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

وفاق کا کوئی منصوبہ ایک مخصوص علاقے کے علاوہ کہیں مکمل نہیں ہوا۔ گزشتہ دس پندرہ سال سے یہ سارے منصوبے نامکمل ہیں کراچی سے چلنے والا نام نہاد موٹروے بھی پرانا سپرہائی وے ہی ہے۔ عام ٹریفک اور باربرداری کے ٹرکوں کے لیے علیحدہ روڈ نہیں بنائے گئے جو پڑوسی ملک ایران میں موجود ہیں اور یہ بھی حیدرآباد سے آگے جہاں ملنا ہے وہاں تک کب مکمل ہوگا پتا نہیں۔

سندھ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہونے کے باوجود جاگیرداروں کے قبضے میں ہونے کے سبب حقوق سے محروم ہے۔ اس کا حصہ اسے پورا نہیں دیا جاتا۔ اس کا پانی تک چوری ہو رہا ہے اور پورے پاکستان اور دوسرے ملکوں سے لوگ کراچی کا رخ کرتے رہے اورکر رہے ہیں اور کراچی کے رہنے والوں کی زندگی اجیرن ہے ان کے وسائل پر سندھی جاگیرداروں کا قبضہ ہے۔ ٹرانسپورٹ تک سندھ کے لوگوں کا نہیں ہے، اس پر مافیا قابض ہے ۔ اس میں جہاں حکومت کی خودغرضانہ عدم دلچسپی ہے وہیں سندھ کے عوام کی بھی عدم دلچسپی اور عدم اعتماد ہے، سندھ کے لسانی گروپ اب تک اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں اور سندھ کے مجموعی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ باقی علاقے سندھ کے وسائل میں حصہ دار بننے کو تیار ہیں۔ حقوق صرف اپنے لیے چاہتے ہیں۔

سندھ اسمبلی کی کارروائی ہماری بات کا ثبوت ہے جس میں سندھ کے مفادات سے زیادہ تم کون؟ میں کون؟ ہوتا رہتا ہے اسپیکر کم موجود رہتے ہیں تاکہ ڈپٹی مخالفوں کی ڈانٹ ڈپٹ کرسکیں۔ یوں کبھی سندھ اتحاد نظر نہیں آتا دوسرے ہر قسم کے دوسرے اتحادوں کے علاوہ۔

پاکستان میں حزب اختلاف کو دشمن تصور کیا جاتا ہے جس کی نمایاں مثال سندھ اسمبلی اور اس کے علاوہ قومی اسمبلی بھی ہے۔ شیخ رشید کی زبان بندی انھیں کورٹ تک لے گئی اگر ان کا مائیک بند نہ کیا جاتا تو وہ روزانہ چینلز کے مائیک سے قوم سے مخاطب نہ ہوتے بات اسمبلی سے باہر نہ جاتی۔ اب تقریباً ہر بات سپریم کورٹ میں ہے۔ اور حکومت کے وفادار صحافی بہت مہارت سے کورٹ کے فیصلوں کو خوبصورت لفظوں کے جال میں پروکر غلط قرار دینے میں مصروف ہیں۔

بچوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ کسی اینکر کا Concern نہیں ہے ایک دو کے علاوہ اور وہی غلط بیانی کے الزام میں سزا پا چکے ہوں گے یا پاسکتے ہیں، قانون اندھا ہے یہی لکھا ہے دانشوروں نے۔ قانون کو للکارنے والے بھی ہلکی پھلکی سزا سوچ رہے ہیں جو فوائد کے مقابلے میں کم ہوگی اور سیاسی سزا یافتہ کہلا کر ہاشمی یا باغی بن جائیں گے اپنی دو نمبری سیاست کے تحت۔

دو نمبری سیاست ہم بجا طور پر کہہ رہے ہیں کیونکہ یہ آپ کے مفادات کی سیاست ہے، سیاسی تجارت ہے عوام کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے۔ وہ گندگی اور کیچڑ کے ڈھیر تلے دبے رہیں گے جس کے اوپر آپ براجمان ہیں۔ وہ اور ان کے بچے محروم رہیں گے اور آپ کے بچے اور بچوں کے بچے ہمیشہ مسرور۔ خاندانی سیاسی تجارت کا ثمر اقتدار مال و دولت۔ ایمان بے چارہ کہیں منہ چھپائے پھرتا ہے۔

روزگار سیاسی لوگوں کے لیے، تجارت سیاسی لوگوں کے لیے، سیر و تفریح سیاسی لوگوں کے لیے، عیش و آرام سیاسی لوگوں کے لیے، وسائل سیاسی لوگوں کے لیے اور عوام کا ووٹ سیاسی لوگوں کے لیے۔ اس ملک میں اب تک بدقسمتی سے یہی کہانی ہے، جو بھٹو نے شروع کی ۔

یہ جمود توڑنا ضروری ہے، بڑے صوبے کو دو صوبوں میں ضرور تقسیم ہونا پڑے گا تاکہ حقوق کی مساویانہ تقسیم ہوسکے خود بڑے صوبے کا بڑا حصہ حقوق سے محروم ہے۔ حقوق صرف راناؤں اور شریفوں کے پاس ہیں۔ ہیڈ کوارٹر بھی اپنا محل جو بھارت کے ایک علاقے کے نام پر ہے اور یہاں اسی ذہن کے ساتھ درآمد کیا گیا ہے۔ عوام کی عزت و آبرو روزگار گھر کچھ محفوظ نہیں اور کہیں محفوظ نہیں۔

بڑے لوگوں نے غنڈے پال رکھے ہیں جو عوام کو سر اٹھانے پر سزا دیتے ہیں، عزت سے محرومی، جان مال سے محرومی۔ ان کے میڈیا پر بیان اور گفتگو ان کے ناجائز ضرور اور تکبر کو واضح کرتی ہے، مگر یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ جسم مٹی کا رزق ہے اور دنیا میں کتنا بھی غرور کرلے تہہ خاک ہی جائے گا۔ وہاں وہی ہوگا جو اعمال کے مطابق ہوگا، دولت سے اعمال بدلے نہیں جاتے اور وہ بھی عوام سے لوٹی ہوئی دولت۔ وہ قبر میں کیا شکل اختیار کرے گی سوچ کر رو ح کانپ جاتی ہے۔

جنازوں میں شرکت کرکے بھی انھیں خیال نہیں آتا کہ ایک روز یہ بھی دوسروں کے کاندھوں پر ہوں گے اور لوگوں کے لبوں پر ان کی بداعمالی کی داستانیں ہوں گی، غلط ووٹ ڈالنے والے بھی یاد رکھیں یہ امانت میں خیانت ہے اور اللہ نے جو ووٹ کا حق امانت دیا ہے وہ اس کا حساب لے گا اور امانت میں خیانت کی سخت سزا ہے۔ خدا ہمیں حق پر رکھے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں