کرائے کا مجمع…

عوام کو ووٹ کی طرف پھر لانا ہے تو ان کا اعتماد بحال کرو، اس میں الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت کو کردار ادا کرنا ہوگا۔


لیاقت راجپر April 07, 2013

اس مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جس بھی سیاسی پارٹی کے جلسے اور جلوس دیکھو ہزاروں اور لاکھوں میں لوگ شرکت کرتے ملتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ زور دار نعرے بھی مارتے ہیں جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے۔ ان جلسے اور جلوسوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ پارٹی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرے گی اور اقتدار اب اس پارٹی کو ملے گا۔

گزشتہ ایک سال سے ہر طرف جلسے ہی جلسے نظر آتے رہے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک مقابلہ رہا ہے۔ ہر پارٹی ایک دوسرے سے زیادہ تعداد دکھانے میں مصروف رہی ہے۔ اس میں خاص طور پر نئی پارٹیوں نے بہت کچھ کیا ہے جب کہ پرانی بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنی ساکھ اور دبدبا قائم رکھنے کے لیے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اب اس بات کا پتہ چلا ہے کہ بے روزگار نوجوان غریب گھر کے سارے کے سارے افراد بمعہ عورتوں اور بچوں نے اپنے معاشی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان جلسے اور جلوسوں میں شرکت کی ہے۔ اس سلسلے میں ملک کے اندر کچھ افراد نے ایجنسیاں بنا ڈالی ہیں۔ جس میں وہ لوگوں کو بوقت ضرورت فون کرکے بلواتے ہیں، یا پھر ان سے رابطے کے لیے ان کے کوآرڈینیٹر اس کام کو سرانجام دیتے ہیں، ایک پرائیویٹ اردو چینلز نے اس کا انکشاف کیا تھا۔

نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انھیں نوکری ملتی نہیں، گھر والے طعنہ دیتے ہیں پھر ہم گھر سے دور پارکوں میں یا سنسان جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں اور اسی مایوسی میں سگریٹ پینے کے عادی ہوجاتے ہیں یا پھر کرمنل لوگوں کی باتوں میں آکر جرائم کی طرف چلے جاتے ہیں جس میں نہ صرف ان کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے بلکہ والدین کے لیے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ خاندان کی بدنامی ہوتی ہے لہٰذا اس سے بہتر یہ ہے کہ جلسے اور جلوسوں میں شرکت کرنے سے تین سو سے پانچ سو تک ملتے ہیں اور ہمارا گزارا ہوجاتا ہے اور ہماری ضرورتیں پوری ہوجاتی ہیں، اس میں ہماری تفریح بھی ہوجاتی ہے اور ہم انجوائے کرتے ہیں، اگر اپنے شہر سے باہر جاتے ہیں تو اس کی رقم زیادہ ہوتی ہے۔

اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور روزگار بھی پورا نہیں ملتا ہے اور پیٹ تو کھانا مانگتا ہے اور خاص طور پر چھوٹے بچے تو یہ نہیں جانتے ہیں کہ پیسے اور وسائل ہیں کہ نہیں اس لیے جب بھی کوئی ہم سے رابطہ کرتا ہے تو ہم پورے گھر کے لوگ الگ الگ پیسے لے کر جلسے اور جلوس میں نعرے مارتے ہیں اور شریک ہوتے ہیں۔ اس میں کھانا بھی ملتا ہے، بس میں لے آتے ہیں اور چھوڑتے ہیں، کئی مرتبہ یہ بھی ہوا ہے کہ جلسہ ختم ہونے پر گاڑیوں کا ملنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے مگر بعد میں ہماری شکایت پر دوبارہ ایسا نہیں ہوا۔ ہر بندے کے چار سو کے حساب سے اچھے خاصے پیسے بن جاتے ہیں۔

اب جلسے جلوس میں عام آدمی آنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ ایک تو لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے، دوسرا یہ کہ سیاسی لیڈر اقتدار میں آنے کے بعد عوام سے کیے ہوئے وعدے بھول جاتے ہیں جس سے وہ مایوس ہوچکے ہیں۔ اب جلسے اور جلوس کرائے کے لوگوں کے علاوہ صرف ان کے اپنے قریبی کارکن یا پھر سرداروں اور وڈیروں کے اپنے لوگ شرکت کرتے ہیں جنھیں گائوں سے صبح کو ہی لاکر بسوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور تو اور جو پارٹیاں طاقت رکھتی ہیں وہ زبردستی علاقے کے لوگوں کو بٹھاکر جلسے گاہ میں لاتے ہیں۔

یہ بھی دیکھاگیا ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کے لوگ دوسری سیاسی پارٹی کے جلسے میں بھی شرکت کرتے ہیں تاکہ انھیں کھانا مل جائے پیسے مل جائیں، اس سلسلے میں مجھے لاڑکانہ میں 1970 والے الیکشن کے کچھ لمحات یاد آئے جس میں وہاں پر محمد ایوب کھوڑو اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مقابلہ ہورہا تھا۔ اس میں بھٹو کے حامی لوگ کھوڑو کے جلسے میں جاکر کھانا کھا آتے تھے۔ پولنگ اسٹیشن پر آنے کے لیے کھوڑو کی طرف سے لائے ہوئے تانگے پر بیٹھ کر آتے تھے۔ پرچیاں بھی کھوڑو کے کیمپ سے بنواتے تھے مگر اندر ووٹ بھٹو کو دے آتے۔

اس مرتبہ اندرون سندھ میں صورت حال کافی بدل گئی ہے، اب لوگ ووٹ دینے کے لیے ایک نہیں دس مرتبہ سوچیں گے اس لیے کہ گزشتہ حکومت کی پانچ سال کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ اس لیے اب خاندان، قبائل اور ذات والے بھی ووٹ کے لیے پیسہ مانگیں گے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ الیکشن کے بعد امیدوار ان کو پہچاننے سے انکار کردے گا اور پھر کبھی پانچ سال میں نظر بھی نہیں آئے گا۔ لوگ سوچتے ہیں جب امیدوار خود کروڑوں روپے کماتے ہیں پھر کیوں نہ اس سے وہ اپنا حصہ ووٹ کی صورت میں پہلے ہی لے لیں۔

یہ دیکھاگیا کہ علاقے کے لیے ملے ہوئے فنڈز ہڑپ لیے گئے مگر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا بلکہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے اپنے لیے سب مراعاتیں بھی لے لیں مگر عوام کے لیے کچھ بھی نہیں رکھا۔ اب سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ وہ عوام کو مزید بے وقوف نہیں بناسکتیں اس لیے وہ اب دوسرے راستے اختیار کریں گے جس سے وہ کامیاب ہوسکیں کیوں کہ لوگ، خاص طور پر پڑھے لکھے لوگ ووٹ کاسٹ کرنے سے دور رہیں گے جس کی وجہ ایک تو سیاسی لیڈروں سے مایوسی اور دوسرا یہ کہ پولنگ کے دن امن و امان کی کیا صورت حال رہے گی ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔

اگر عوام کو ووٹ کی طرف پھر لانا ہے تو ان کا اعتماد بحال کرو، اس میں الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ لوگوں کو یقین ہوجائے کہ ان کا ووٹ ضایع نہیں جائے گا اور آنے والی پارٹی اور حکومت اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر عوام اور ملک کے لیے کام کریں گے، آنے والی حکومت کو اگر جمہوریت کو بچانا ہے تو سچائی سے کام کریں اور لوگوں کی کھانے پینے والی اشیاء کی قیمتوں میں کمی لائیں۔ بجلی، گیس اور پینے کا پانی، روزگار، امن و امان کی طرف دھیان دیں۔ ورنہ ہم لوگ معاشی بدحالی میں مزید گھر جائیں گے اور پھر باہر نکلنے کے راستے بند ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں