تنہائی کا آسیب
وہ دن بدن یاسیت اور نا امیدی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں، نہ کہیں آتی ہیں نہ جاتی ہیں۔
میں انھیں کئی عشروں سے جانتی ہوں، میری ہم جماعت اور دوست، نہایت زندہ دل، ہنس مکھ اور ہشاش بشاش، مہربان، مہمان نواز، خوش گفتار، ایک فرمانبردار بیٹے کی ماں، شوہر بھی انھی کی طرح دوسروں کے کام آنے والے، ملنسار اور خوش اخلاق، بیٹا پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگیا اور شادی کرکے بیرون ملک چلا گیا۔
شروع شروع میں ہفتہ دس دن میں والدین سے بات ہو جاتی تھی، پھر وقفہ بڑھتا گیا، لیکن ماں باپ نے یہ سوچ کر دل پر پتھر رکھ لیا تھا کہ بیٹا بہو خوش ہیں۔ انھوں نے پوتا اور پوتی کی بھی صرف تصویریں دیکھیں تھیں۔ بہر حال دونوں ایک دوسرے کے غمگسار تھے۔ بیٹے کی بچپن کی تصویروں سے دل بہلاتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ڈیڑھ سال پہلے ان کے شوہرکا انتقال ہو گیا اور وہ بالکل تنہا رہ گئیں۔ اتفاق سے وہ بھی والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ والدین کا انتقال ہو چکا تھا، کبھی کبھار میں ان سے ملنے چلی جاتی تھی۔ ان کی تنہائی دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔
وہ دن بدن یاسیت اور نا امیدی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں، نہ کہیں آتی ہیں نہ جاتی ہیں۔ بس بیٹے کے لیے تڑپتی رہتی ہیں، لیکن بیٹا انھیں بالکل بھول گیا ہے۔ ان کا فون بھی ریسیو نہیں کرتا۔ تمام عمر کی کمائی بیٹا ہی تھا جو پرایا ہوگیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہائی جیک ہوگیا۔ پھر بھی وہ ہر نماز کے بعد اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی عافیت کی دعا مانگتی ہیں۔ اسے یاد کرتی ہیں اور روتی ہیں۔ صحت بہت گر گئی ہے۔
شوہرکے انتقال کے بعد وہ ڈیپریشن کا اس شدت سے شکار ہوئیں کہ ہائی بلڈ پریشر اور شوگر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ شوہرکی پنشن آتی ہے مکان اپنا ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو وہ کس کے در پہ جا کر پڑتیں، بیٹے نے کبھی پلٹ کر نہ پوچھا لیکن انھوں نے اپنے سامنے بیٹے کی تصاویر لگا رکھی ہیں۔ درود شریف پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ دعائیں دیتی ہیں اور اﷲ سے دعا مانگتی ہیں کہ وہ انھیں ان کے بیٹے، بہو اور پوتا پوتی سے ملادے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اب انھیں دیکھ سکیںگی، جو بیٹا فون تک نہ کرتا ہو اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
ماں باپ کتنے ارمانوں سے اولاد کو پالتے ہیں۔ بیٹے کی تمنا کرتے ہیں، لیکن جب شادی کے بعد وہ یکدم بدل جائیں تو ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ ایک عجب المیہ ہے۔ کیا ہوا وہ ماحول جب رشتے دار ایک دوسرے کی خبر گیری کرتے تھے، دکھ سکھ میں ساتھ رہتے تھے، محلے دار اور ہمسائے بھی ایک دوسرے کے کام آتے تھے، لیکن اب ماحول بہت بدل گیا ہے، راحت اکیلی ہی اس دکھ کو نہیں سہہ رہی بلکہ اور نہ جانے کتنی مائیں اور کتنے باپ اپنے بیٹوں کو یاد کرتے کرتے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
آج کا انسان سخت ڈیپریشن کا شکار ہے، اداسی، مایوسی زندگی سے بیزاری، بھوک نہ لگنا، مضمحل رہنا اور موت کی تمنا رکھنا ہر اس شخص کا مسئلہ ہے جو تنہا ہیں اور اداس ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے وطن میں اولڈ پیپلز ہوم نہ ہونے کے برابر ہیں جو ہیں وہ ایسے ہیں جن میں ایک صحت مند انسان نہیں رہ سکتا کیونکہ ان اولڈ ہاؤسز میں ذہنی مریض بھی ساتھ رکھے جاتے ہیں۔
راحت نے بھی بڑی کوشش کی کہ کسی ہوسٹل میں انھیں ایک کمرہ مل جائے لیکن ہزار کوششوں کے باوجود انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔ بس اب تنہائی، اداسی اور مایوسی راحت کی ساتھی ہیں۔ نہ کوئی آتا ہے نہ جاتا ہے کیونکہ لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے کام کرنے کا رواج نہیں ہے۔ راحت کی زندگی غالبؔ کے اس شعر کی تفسیر بن چکی ہے:
کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا، شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
کسی بھی حکومت کو بزرگ معمر شہریوں کے لیے کوئی مرکز قائم کرنے کا خیال نہیں آیا، شاید اس لیے کہ حکمران بوڑھے تو ہوتے جا رہے ہیں لیکن کسی بیماری یا معذوری کی صورت میں وہ اپنے اپنے شاہان محلوں کو ہی اپنی آرام گاہ بنائیںگے اور نوکروں کی فوج ان کا ہر کام کرے گی۔ لندن میں ساقی فاروقی اور ان کی بیگم کنڈی جوکہ جرمن خاتون تھیں بیماری کے باعث ایک اولڈ پیپلز ہوم میں منتقل ہوگئے تھے جہاں بہت اچھی طرح ان کی دیکھ بھال ہوتی تھی۔
ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مغربی ممالک کے اولڈ ہاؤسز پہ طنز کرتا ہے، تمسخر اڑاتا ہے کہ وہ لوگ اپنے بوڑھے والدین یا دادا، دادی اور نانا، نانی کو بوڑھوں کے مرکز میں بھیج دیتے ہیں، لیکن خود آپ کے معاشرے میں تو بوڑھوں کو یہ سہولت بھی نہیں، ہمارے ہاں بوڑھا ہونا بہت ہولناک ہے اس سے بھی زیادہ مالی طور پر کمزور ہونا اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔
بڑھاپے میں بہو بیٹوں کی باتیں سنیں اور رو رو کر مرنے کی دعا مانگنے سے کہیں بہتر ہے کہ ایسے بوڑھوں کو جن کو ان کی اولاد اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہتی ان کے لیے اولڈ ہاؤسز بہت ضروری ہے۔ مکافات عمل سے لوگ اب نہیں ڈرتے، وہ زمین پر خدا بن بیٹھے ہیں۔ اولاد کو ماں باپ سے جدا کرکے گویا کوئی نیک کام کررہے ہیں؟ پتہ نہیں اقبالؔ نے کون سا خطرہ محسوس کرکے یہ شعر کہا تھا جو اب ضرب المثل بن چکا ہے کہ:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
جب سے ہماری زندگیوں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون آیا ہے، لوگوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں، عزیز و اقارب سے ملاقات یا تو کسی کی میت پہ ہوتی ہے یا کسی شادی بیاہ کے موقعے پر۔ ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد کا تعلق گھر والوں سے کم اور انٹرنیٹ سے زیادہ ہے۔ موبائل اپنے اندر ایک جہاں سمیٹے ہوئے ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی نظریں موبائل اسکرین پر رہتی ہیں۔ آج کی نسل صرف اپنے وجود میں گم ہے۔ نشے کا سہارا لیا جا رہاہے۔ نشہ آور ادویات بہت عام ہوگئی ہیں۔
اسکول جانے والے بچے سگریٹ کے کش لیتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اب آپ کسی کے بچے کو غلط بات پر ٹوک نہیں سکتے۔پہلے ماں باپ برا مانیںگے پھر قطع تعلق کرلیں گے۔ بڑوں کا ادب اب ایک گمشدہ باب ہے جسے زندگی کی کتاب سے نوچ کر پھینک دیا گیا ہے۔
وہ بھی کیا دن تھے جب لینڈ لائن ٹیلی فون بھی ہر ایک کے گھر نہیں تھا۔ چھٹی والے دن مہمانوں کی آمد متوقع ہوتی تھی، مہمان کو واقعی خدا کی رحمت سمجھا جاتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے تھے، ملتے جلتے تھے۔ بچوں کو بھی سماجی رابطوں سے واسطہ پڑتا تھا۔ کسی کی بیماری کی خبر سن کر رشتے دار، دوست احباب عیادت کو جاتے تھے۔ لیکن آج تنہائی کے آسیب نے سب کو پکڑ لیا ہے۔ ہماری تہذیب موت آپ مررہی ہے۔
ڈاک سے دو ادبی رسائل موصول ہوتے،پہلا ''اجمال'' جس کے مدیر ہیں فہیم اسلام انصاری اور دوسرا پرچہ ہے ''الحمرا'' جو لاہور سے شایع ہوتا ہے اور بڑی باقاعدگی سے ہر ماہ شایع ہوتا ہے اور بڑی باقاعدگی سے ہر ماہ شایع ہوتا ہے اس کے مدیر ہیں جناب شاہد علی خاں ''اجمال'' میں نظم و نثر پر مشتمل بہت اچھے مضامین اور افسانے موجود ہیں۔ شعری حصہ بھی بہت خوب ہے۔ پرچہ بہت محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ فہیم صاحب کی کاوش صاف نظر آتی ہے۔
''الحمرا'' اپنی ماہانہ اشاعت کے باعث ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ نثری اور شعری حصہ بہت خوب ہے۔ اس پرچے میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کسی معیاری ادبی پرچے کی پہچان ہوتا ہے۔ کبھی انور سدید ''الحمرا'' کا حصہ ہوا کرتے تھے، اﷲ ان کی مغفرت کرے بیماری اور جوڑوں کے درد کے باوجود ان کا قلم نہایت تیز رفتاری سے چلتا تھا اور ہر ادبی پرچے میں ان کے مضامین اور تبصرے شامل ہوتے تھے۔
ادبی پرچے نہایت نامساعد حالات سے دو چار ہیں، پھر بھی شاہد علی خاں اور فہیم اسلام انصاری مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے یہ بار گراں اپنی خوشی سے اٹھایا ہوا ہے جس سے ادبی ذوق رکھنے والے احباب کے ذوق کی تسکین ہوتی ہے۔