روشن خیال اور اعتدال پسند معاشرہ
اسلام میں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں یکساں محترم اور معزز ہیں بشرطیکہ وہ واقعی عبادت گاہ ہوں،
گزشتہ دو دہائیوں میں خاص کر 9/11 کے واقعے کے بعد مسلمانوں کے حوالے سے عالمی سطح پر بہت سی اصطلاحات متعارف کرائی گئیں جن میں پرویز مشرف حکومت کے دور میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی نام نہاد اصطلاحات بھی شامل ہیں۔ بنیاد پرست، دہشت گرد جیسی اصطلاحات کا لیبل مسلمان برادری پر لگاکر انھیں انسانیت دشمنی قرار دینے کی کوشش کی گئی اور یہ پروپیگنڈا اس قدر کیا گیا کہ بہت سے مسلمانوں نے اس کے توڑ کے لیے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا لیبل اپنانا شروع کردیا۔
اسلام مخالف قوتوں نے بھی ان اصطلاحات کا استعمال اپنے مخصوص مفادات کے تناظر میں کیا۔ یوں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی اصطلاحات مسلم امہ کی ایک وسیع تعداد کی نظر میں مشکوک ہوگئیں۔ اسلامی تعلیمات کی نظر میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کیا ہے؟ اس بارے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی کتاب صاحب قرآن میں ایک علمی مقالہ ''روشن خیالی اور اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل و ضرورت'' نظر سے گزرا۔ یہ مقالہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی تازہ ترین کتاب صاحب قرآن میں موجود ہے۔
روشن خیالی اور اعتدال پسند معاشرے کی تشکیل و ضرورت کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے بہت مفصل انداز میں اسلامی تاریخ، قرآن و حدیث کے حوالوں سے بات کی ہے جس سے موجودہ عہد میں روشن خیالی اور اعتدال پسند معاشرے کا اسلام میں مقام نہایت واضح ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کم و بیش 12پہلوئوں سے بات کی ہے اور دلیل کے لیے قرآن و حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ مثلاً ''اسلام انسانوں کے مابین پیدائشی امتیازات و فضائل کو تسلیم نہیں کرتا'' اس کے لیے سورہ الحجرات کی آیت نمبر 13کا ترجمہ و تفسیر بیان کی اور اس ضمن میں پیر محمد کرم شاہ الازہری کی تفسیر ضیاء القرآن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ بھارت میں آج بھی ذات پات کا نظام موجود ہے، امریکا میں بے شمار ایسے ہوٹل ہیں جن کے دروازوں پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کہ ''ریڈ انڈین (وہاں کے اصل باشندے) اور کتے داخل نہیں ہوسکتے۔ یہاں ڈاکٹر شکیل صاحب نے بیہقی کی ایک روایت کے حوالے سے حجۃ الوداع کے خطبہ کو بیان کیا جس میں کہا گیا کہ
''اے لوگو! تمہارا رب ایک ہی ہے پس کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔''
آگے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام نے معاشرہ کی تشکیل بھی اصولی مساوات پر کی ہے اور تمام مرد و عورت کو یکساں حقوق فراہم کیے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے دنیا کے تمام مذاہب بے خبر معلوم ہوتے ہیں یہاں تک کہ تہذیب جدید کے علمبرداروں کے ہاں بھی یہ اصول اپنے حقیقی رنگ میں نظر نہیں آتا۔ اسلام میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اوران کے حقوق کے تعلق سے جس قدر ارشادات پائے جاتے ہیں اس کا دسواں حصہ بھی کسی مذہب میں نہیں پایا جاتا بلکہ دیگر مذاہب کی مقدس کتابوں میں عورتوں کی کمتری، کہتری اور حقیر ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں حوالے کے طور پر ڈاکٹر صاحب نے یہود کی معتبر و مستند ''جیوش انسائیکلو پیڈیا'' کا حوالہ بھی دیا ہے اور Lecky کی کتاب History of European Morals کا حوالہ بھی دیا ہے۔
مزید بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قرآن نے مرد و زن کی مساوات حقوق کے ضمن میں اس اصول کو بیان کرکے خاندان میں قوامیت اور فضیلت کا مقام مرد کو دے دیا ہے تاکہ گھر کا نظم و نسق بہتر انداز میں چلایا جاسکے بصورت دیگر نظم و نسق برباد ہوسکتا ہے۔ عورت کو ماں بننے کی صورت میں اپنے بچوں پر وہ مقام و درجہ حاصل ہوجاتا ہے جو کسی مرد کو حاصل نہیں ہوتا اور وہ اس کے قدموں میں جنت کا ہونا ہے۔ یوں دونوں اوصاف کو اپنی اپنی جگہ اک گونہ، فضیلت میں مساوات کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ اتنی خوبصورت اور توازن بدوش تعلیم دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ جن قوموں نے بالخصوص مغربی اقوام نے اس توازن بدوش اصول فضیلت کو نظر انداز کرکے مرد و زن میں مطلق برابری کا نعرہ لگایا تھا، آج وہ اپنے خاندانی نظام کی بربادی کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں اور دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں۔
دین میں کوئی زبردستی نہیں اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے سورہ البقرہ آیت 256 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام کسی کو بالجبر داخل مذہب نہیں کرتا اور نہ ہی اسلام کسی کو بالجبر اسلام میں رکھنا چاہتا ہے۔ اسلام نے ''لااکرہ فی الدین'' کا نعرہ لگا کر جس روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال بھی دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملے گی، گویا قرآن نے انسان کے ذہن و فکر پر کوئی پہرہ نہیں بٹھایا بلکہ اسے ارادہ کا اختیار دے کر حریت فکر و عمل میں عطا کی ہے۔ قرآن کو اپنی ہدایت کی قطعیت، واضحیت اور نتیجہ خیزی پر کس قدر اعتماد ہے؟ یہ دعویٰ وہی کرسکتا ہے جس کے پاس ہر اعتبار سے ہر پہلو سے کامل ہدایات نامہ موجود ہو اور یہ کہ جس نے انسانوں کو عقل و ادراک میں بالغ تسلیم کرکے اسے تکریم انسانیت بخشی ہو۔
اسلام کسی مذہب و نسل اور تعلق و وصل کے بغیر عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔ ''اور کسی قوم کی دشمنی تم کو اس پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو یہ تقویٰ کے قریب ہے'' (المائدہ 80) اس آیت کے حوالے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بہت اہم بات کی ہے جو آج ہم سب کی توجہ کی طالب ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دراصل کسی قوم کی دشمنی بالعموم عدل و انصاف کی راہ سے ہٹ جانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
مسلمانوں کے تمام مذاہب و مسالک اور ان کی مختلف جماعتیں اس جملے سے سبق لیں کہ جس میں دشمن اسلام قوم یعنی کفار تک سے عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے چہ جائیکہ وہ اپنے کلمہ گو بھائیوں کے ساتھ کوئی ظلم و زیادتی کریں اور طرفہ ستم یہ کہ اسے عین عدل بھی سمجھیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والوں کے پاس دوستوں اور دشمنوں ہر دوکے لیے یکساں بات اور ایک ہی ترازو ہو مگر افسوس کہ ہمارے پاس مختلف جماعتیں خواہ وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی جس بنیاد پر قائم کی جاتی ہیں وہ اپنے کارکنوں میں ایسی عصبیت پیدا کردیتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہر حال میں اپنی جماعت کے افراد کو سپورٹ (Support) کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ مبنی برصائب و صحیح ہوں یا غلط اور یہ قرآن مجید کے صریح خلاف ہے۔ عدل سے متعلق ایک اور آیت دیکھیے۔
ترجمہ: ''انصاف پر قائم ہونے والے اﷲ کے لیے گواہی دینے والے ہو۔ گو (یہ گواہی تمہاری اپنی ذات یا ماں باپ اور قریبوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو''
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بڑی عمدہ بات لکھی ہے کہ اتنی واضح اور کھلی ہوئی ہدایت کے بعد بھی اگر لوگ، پارٹی ورکر، پیربھائی، ہم مسلک، ہم زبان اور ہم علاقہ ہونے کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حمایت چاہیں اور حمایت کریں ہر چند کہ وہ غلط بھی ہوں تو بتائیے کہ معاشرے میں عدل و انصاف کیسے قائم ہوگا؟ مطلوبہ معاشرے کی تشکیل میں یہ عنصر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ دیگر مذاہب کے ساتھ سلوک کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب نے خوب لکھا ہے اور قرآنی حوالوں کو بھی ساتھ ساتھ پیش کیا ہے اور احادیث کو بھی۔ لکھتے ہیں کہ مسند احمد بن حنبل، بخاری، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص کسی کافر معاہدے کو مار دے وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا۔
اسلام میں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں یکساں محترم اور معزز ہیں بشرطیکہ وہ واقعی عبادت گاہ ہوں، مسجد ضرار کی طرح فتنہ پروری کی آماج گاہ نہ ہوں۔ اپنے مقالے کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ صحابہ کے زمانے کی جنگوں میں بھی معبدوں کے تقدس کو مدنظر رکھا جاتا تھا کہ کسی راہب کی خانقاہ اور عبادت گاہ کو نقصان نہ پہنچے۔ بلکہ بعض معاہدات کی رو سے کلیسائوں کی حفاظت اور ان کی تعمیراتی دیکھ بھال کا انتظام بھی اسلامی حکومت کے ذمے تھا۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ یہ امر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب) میں جنگ کو حرام قرار دیتا ہے۔ یہ وصف و خصوصیت صرف اسلام کو ہی حاصل ہے باقی مذاہب اس اصول کی مثال اپنے ہاں پیش نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ دکھی انسانیت کی خدمت اور انسانوں سے پیار کے دعویداروں کے ہاں بھی یہ اصول امن پسندی نہیں ملے گا۔ یہ سب وہ امور ہیں جن سے اسلام کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی نمایاں ہے۔