کاغذات نامزدگی… فکری آزادی کے منافی
اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ ہارنے والا امیدوار یہ چیلنج کرے کہ جیتنے والا، نامزدگی فارم میں درج ڈیکلریشن کے۔۔۔
عام انتخابات 2013ء کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا عمل 31 مارچ کو مکمل ہو گیا۔ اس بات کے ٹھوس امکانات موجود ہیں کہ اگر نامزدگی فارم میں طے شدہ طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا گیا تو بہت سے سابق ارکان پارلیمان، انتخابی عمل سے باہر ہو جائیں گے۔ اور جو ہو بھی رہے ہیں، اس صورت حال سے ان متعدد کم جانے پہچانے امیدواروں کو موقع مل سکتا ہے، جنھیں سیاسی جماعتیں اپنے اصل امیدوار کی نا اہلی سے پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے احتیاط کے طور پرکھڑا کرتی ہیں۔
ایک اور بات اس سے بھی اہم ہے۔ مجھے اُس ''ڈیکلریشن اور حلف نامے'' پر اعتراض ہے، جو امیدوار کو نامزدگی فارم کے ساتھ جمع کرانا ہے۔ انتخاب میں حصہ لینے والے بہت سے امیدواروں کو، جنھیں اس پر دستخط کرنا ہیں، فکری لحاظ سے بد دیانت ہونا پڑے گا۔ اور میرا خیال ہے کہ عزت مآب چیف الیکشن کمیشن اور حد سے زیادہ فعال عدلیہ سمیت، ہم سب اس سے واقف ہیں۔ مگر وہ کہیں گے کہ ان شقوں کی بنیاد آئین پاکستان ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن جب کو ئی رکن پارلیمان ایک بار اس 'حلف نامے' پر دستخط کر دے گا، تو پھر وہ آئین کے متنازع آرٹیکلز کو حذف کرنے کی تجویز پیش کر تے ہوئے نام نہاد 'اسلامی نظریہ پاکستان' کے حصار سے باہر نہیں نکل سکتا۔
آئیے ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر آویزاں نامزدگی فارمز کی ان دو شقوں کا تجزیہ کریں:
شق (I) میں درج ہے: 'میں نے مذکورہ بالا نامزدگی پر رضامندی ظاہر کی ہے اور یہ کہ میں آئین کے آرٹیکل62 میں درج شرائط پر پورا اترتا ہوں اور قومی اسمبلی/ صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے منتخب ہونے کے لیے مجھ پر آئین کے آرٹیکل 63 یا فی الوقت نافذ کسی دوسرے قانون کے تحت نا اہلی کی کسی دفعہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اب اس حلف نامے کو ذیلی شق62 (d) کی روشنی میں پڑھیے ''وہ نیک کردار کا حامل ہے اور عام طور پر اس کی شہرت ایک ایسے انسان جیسی نہیں ہے، جو اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتا ہو'' (یہ توجہ طلب ہے) اس حلقے سے کوئی بھی اٹھ کر اس وجہ سے امیدوار کو چیلنج کر سکتا ہے کہ وہ پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتا اور روزے نہیں رکھتا، اور اس بنیاد پر اس کے خلاف پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔
اس پر فیصلے کا اختیار عدلیہ کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور اسے یہ فتویٰ دینا ہو گا کہ کون بہتر مسلمان ہے اور کون ایسا نہیں ہے۔ ایک ذیلی شق(e) بھی ہے جس میں کہا گیا ہے ''وہ اسلامی تعلیمات کا کافی علم رکھتا ہے (توجہ طلب نکتہ) اور اسلام کے مقرر کردہ لازمی فرائض پر عمل کرتا ہے اور کبیرہ گناہوں سے دور رہتا ہے۔ ''اسلام کے بارے میں 'کافی علم' کی قانون میں کہاں تشریح کی گئی ہے؟ تو کیا پھر عدالت یا الیکشن کمیشن اسلامیات کا امتحان لے گا؟ ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر شیخ الاسلام طاہر القادری اس بنیاد پر کسی امیدوار کی اہلیت کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کیا ہو گا؟
آرٹیکل62 کی ذیلی شق(g) میں کہا گیا ہے کہ ''اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی یک جہتی کے خلاف کام نہیں کیا یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت نہیں کی' (توجہ طلب ہے)۔ آئین میں 'نظریہ پاکستان' کی کوئی تشریح موجود نہیں ہے۔ اسلام پسندوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس دعوے کے لیے وہ قرارداد مقاصد کی آڑ لیتے ہیں، جسے آئین کا ایک لازمی حصہ بنا دیا گیا تھا۔ جب 8 ویں یا 18 ویں ترمیم منظور کی گئی تو حوصلہ سے عاری ارکان پارلیمان اسے ختم کرا نے کی ہمت نہ کر سکے۔
ایسے لوگوں اور سرکردہ سیاسی جماعتوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان، اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا جسے 'اسلامی نظریہ' کہا جاتا ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے متوسط اور با اثر طبقات کے معاشی اور سیاسی حقوق کی حفاظت کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اب امیدواروں کو اس امتیازی حلف کی تائید کے لیے کہنا درحقیقت انھیں فکری بد دیانتی پر مجبور کرنا ہے اور فکری بد دیانتی، مالی بد دیانتی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
یہ شق پارلیمان کے امیدواروں کو پابند کر دیتی ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد اپنے 'حلف' کی پاسداری کریں۔ چنانچہ یہ 'حلف' انھیں یہ تجویز کرنے کے حق سے بھی محروم کرتا ہے کہ ان کی پارٹی ریاست اور مذہب کی علیحدگی پر یقین رکھتی ہے۔
جہاں تک اسلامی شعائر پر عمل کرنے کا تعلق ہے تو جو مسلمان تقسیم سے پہلے اور بعد میں ہندوستان میں آباد رہے ہیں، وہ نہ تو پاکستان میں رہنے والوں سے کم تر تھے اور نہ اب کم تر ہیں۔ تحریک پاکستان کے سامنے اصل مسئلہ، ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کا نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تمام اہم دستاویزات اور کیبنٹ مشن پلان کو قبول کر لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناح صاحب ہندوستان کی مسلم اکثریتی ریاستوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری اور ایسی ریاستوں میں مسلمانوں کے لیے ملازمتوں اور پارلیمان میں زیادہ کوٹہ چاہتے تھے، جہاں وہ اقلیت میں تھے۔ اسلام اور اس کی مذہبی رسومات پر عمل کو نہ تو اُس وقت کوئی خطرہ تھا اور نہ آج ہے۔ یہ مذہب مسلم اور غیر مسلم ممالک میں1400 سال سے قائم و دائم چلا آ رہا ہے۔ اسے ریاستی سر پرستی کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح سے، شق2 (i) احمدی برادری کے خلاف ہے۔ امیدوار کامیاب ہو جانے کی صورت میں آئین کی بعض اُن شقوں کو ختم کرنے کے لیے بل پیش نہیں کر سکتے جو بھٹو نے شامل کی تھیں اور پھر جنرل ضیاء نے انھیں توسیع دی تھی، حالانکہ بہت سے لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان شقوں کو ختم کرنے سے گھبراتے ہیں۔ جسٹس منیر کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ1950ء کی دہائی کے اوائل میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ملا، لیکن اس ملک کا جو تھوڑا بہت سیکولر ڈھانچہ بچا ہوا تھا، جنرل ضیاء نے اسے بھی تباہ کر دیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج نامزدگی کے فارم میں ایسی شقیں شامل کر دی گئی ہیں جو امیدواروں کو منافقت سے کام لینے پر مجبور کرتی ہیں تاہم، کسی کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے،
اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ ہارنے والا امیدوار یہ چیلنج کرے کہ جیتنے والا، نامزدگی فارم میں درج ڈیکلریشن کے مطابق اہل نہیں ہے۔ اس لیے، الیکشن کے بعد مقدمے بازی کے ایک طویل سلسلے کے لیے تیار رہیے اور توقع ہے کہ مہم پسند قادری جیسے لوگ سب سے اگلے مورچے میں ہوں گے۔
نامزدگی فارم میں ایسی شقیں شامل کرنے پر میڈیا کی اہم شخصیات نے تنقید کی ہے، جو امیدوار سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنی آمدنی، اخراجات اور ٹیکسوں کی ادائیگی جیسی معلومات فراہم کرے۔ اس فارم کا مقصد ایسے ٹیکس نادہندگان ارکان پارلیمنٹ کو پکڑنا ہے جو بیان کردہ مالی وسائل سے زیادہ پُر آسائش زندگی گزارتے ہیں۔ کامیابی کے آرزو مند ان امیدواروں کو لازماً ایسے چالاک ٹیکس مشیروں کی مدد کی ضرورت پڑے گی جو ان کے ذاتی مالیاتی گوشواروں کو متوازن کریں۔
حال ہی میں تحلیل ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے متعدد ایسے ارکان ہیں، جنھیں ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرانے کا ذمے دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ان ارکان کا کہنا ہے کہ تنخواہ دیتے وقت ان کا ٹیکس منہا کر لیا جاتا ہے اور متعلقہ اسمبلی اسے آگے جمع کراتی ہے۔ یہ بات درست بھی ہے اور غلط بھی ہے۔ قانون کی رو سے اگر کسی شخص کی سالانہ آمدنی400,000 سے زیادہ ہے، اور ان کی آمدنی یقینا اس حد سے متجاوز تھی، تو اس شخص کو ٹیکس گوشوارہ داخل کرنا ہو تا ہے۔
یہ ارکان پارلیمان اس بنیاد پر اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتے کہ انھیں قانون کا علم نہیں تھا۔ قانون کی نظر میں، قانون سے لا علمی کسی کا دفاع نہیں کرتی۔ مگر جیسا کہ ترقی پذیر دنیا میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ایک خاص قسم کے احساس برتری میں مبتلا ہوتے ہیں، انھوں نے اس قانونی ضرورت کا بھی اتنی ہی آسانی کے ساتھ مذاق اڑایا، جتنی آسانی کے ساتھ وہ ٹریفک قوانین کو پامال کرتے ہیں۔ لیکن جہاں میڈیا کے متعدد مغل شہزادوں سمیت کاروباری افراد بھی ٹیکس چوری کرتے ہوں، صرف سیاست دانوں کو ہدف تنقید بنانا معاشرے کے وسیع تر تناظر سے مطابقت نہیں رکھتا۔