بندوق کی زبان
اسی میلے میں ایک واقعہ یوں ہوا، کہ مجھے ایک نوجوان لوک فنکار نے پہچان کر آواز دی۔
ISLAMABAD:
17 فروری 2018 کی رات کا پہلا پہر تھا، میں لاہور کی مضافاتی بستی کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن پر اترا تھا۔ مدینۃ الاولیا، ملتان شریف سے ملتان ایکسپریس شام 4 بجے چلی تھی، جس نے رات 9 بجے لاہور پہنچا دیا۔ ہمیشہ کی طرح میرا قیام ''حبیب جالب ہاؤس'' میں تھا۔ 4 مرلے (80 گز) پر بنا زمینی منزل بمع پہلی منزل پر مشتمل یہ ہاؤس، جالب صاحب کے بڑے لڑکے ناصر عباس جالب کا ہے جسے اس نے بیس پچیس سال میں تعمیر کیا ہے۔
ناصر عباس جالب بینک میں گریڈ II آفیسر ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ناصر بہت سادہ مزاج ہے اور اپنے عظیم والد کے لیے دردمند دل رکھتا ہے، یوں اپنے والد کی یاد میں تقریبات کرتا رہتا ہے۔ جب یہ چھوٹا سا گھر بن گیا تو میں نے داخلی دروازے کے ساتھ والی دیوار پر ''حبیب جالب ہاؤس'' کی تختی لگوا دی۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ مکان شہر کی ایک لوئر مڈل کلاس آبادی احمد ہاؤسنگ اسکیم نزد ٹھوکر نیاز بیگ میں واقع ہے۔ بڑے بڑے ''ہاؤسوں'' کے مقابلے میں ایک بڑے انسان کا ہاؤس۔
لاہور کا موسم بہت خوشگوار تھا اور شہر پر بھی خوشگوار پروگرام چھائے ہوئے تھے۔ لاہور پہنچتے ہی عظیم انسان عاصمہ جہانگیر کے گھر حاضر ہوا۔ اور تعزیتی رجسٹر میں دو تین سطریں لکھیں، گھر پر کوئی موجود نہیں تھا۔ سو میں نے گھر کے ملازم کے ساتھ چند لمحے عاصمہ کی یاد میں گزارے۔ ایک غریب ملازم کے ساتھ بیٹھا، فرض ادا کیا اور آگیا۔
شام ہونے کو تھی، عاصمہ کے گھر کے قریب ہی قذافی اسٹیڈیم ہے جس کی نکڑ پر ''بلاگ'' کے نام سے ایک ادبی ثقافتی ادارہ ہے۔ صغریٰ صدف صاحبہ اس ادارے کی نگران ہیں۔ یہاں چار روزہ پنجابی ثقافتی میلہ سجا ہوا تھا۔ میں اس میلے میں پہنچا تو یہ میلے کا دوسرا دن تھا۔ اسٹیج پر پنجابی گیت گائے جا رہے ۔ مقامی فنکار پروگرام میں شریک تھے۔ ایک طرف پنجاب رنگ کا سماں کچھ یوں تھا کہ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ان پر مرد، عورتیں پنجابی لباس پہنے بیٹھے تھے، سامنے حقے رکھے ہوئے تھے، ذرا ہٹ کے سرائیکی کے رنگ جمے ہوئے تھے، رنگین لباس اور روایتی زیورات پہنے عورتیں، مرد بیٹھے تھے۔
اب شام مکمل ڈھل چکی تھی ۔ معروف غزل گائیک غلام علی پنڈال میں داخل ہو رہے تھے، کچھ دیر بعد استاد حامد علی خاں بھی آگئے۔ پھر اعلان ہوا کہ اداکار شان آچکے ہیں۔ ریاض شاہد اور نیلو بیگم کا ذکر بھی اسٹیج پر ہو رہا تھا۔ جالب کا ذکر بھی تھا ''رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے''۔
لوگوں کے بے پناہ اصرار پر اداکار شان اسٹیج پر آئے۔ صغریٰ صدف نے شان سے گفتگو کی، ان نے بڑے نپے تلے جملوں میں ہر سوال کا جواب دیا۔ بس ایک بات اپنے کالم میں شامل کروں گا۔ شان نے کہا ''گھر سے نکلتے ہوئے اپنے والد ریاض شاہد کی سوچ کو وہیں چھوڑ دیتا ہوں'' اس ایک فقرے میں ہی بہت کچھ اظہار ہے کہ آج 70 سال کے بعد بھی ہم آزاد نہیں ہیں۔
اسی میلے میں ایک واقعہ یوں ہوا، کہ مجھے ایک نوجوان لوک فنکار نے پہچان کر آواز دی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا اور پہلی ہی نظر میں اسے جان لیا۔ یہ معروف لوک فنکار عاشق جٹ کا بیٹا فضل جٹ تھا۔ اس بچے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حبیب جالب کی تجہیز و تکفین میں یہ بچہ آگے آگے تھا۔ فضل جٹ نے بڑا پیار دیا۔ اللہ اس کو خوش رکھے۔ اسی میلے میں ایک پنجابی تنظیم کے دو منتظمین سے ملاقات ہوئی وہ ہر سال پنجابی زبان و ثقافت کا دن مناتے ہیں۔ اگلے روز ان کی ریلی تھی جس کا آغاز لاہور پریس کلب سے ہوا اور اختتام پنجاب اسمبلی پر۔ ڈھول کی تھاپ پر عورتیں، مرد، لڑکے پنجاب کے روایتی رقص اور گیت گاتے ہوئے پریس کلب سے اسمبلی بلڈنگ تک نظر آئے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پنجابی زبان کو نصاب میں شامل کیا جائے۔
ایسا ہی اظہار ہر سال ہمارے صوبہ سندھ میں کیا جاتا ہے۔ جہاں سندھی ٹوپی اور اجرک کا صدیوں پرانا ساتھ منایا جاتا ہے۔ محبتوں کا یہی سلسلہ بلوچستان میں بھی قائم ہے، بلوچی پگڑی اور لباس میں ملبوس بلوچ نوجوان اپنے روایتی رقص پیش کرتے ہیں اپنی زبان و ثقافت کا یہی جذبہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی ہے۔ غرض یہ کہ پاکستان میں بولی جانے والی ساری زبانوں کے لوگ اپنی اپنی زبانوں کو پرائمری اسکول کے نصاب میں شامل کرنے کے مطالبے کر رہے ہیں، اپنی ثقافت کا احترام چاہتے ہیں۔
قیام لاہور کے دوران ہی ہفتہ 23 فروری 2018 کی شام 7 بجے پاک ٹی ہاؤس میں انجمن ترقی پسند مصنفین (جاوید آفتاب گروپ) کا ہفتہ وار اجلاس ہوا۔ اجلاس کے مذاکرے کا عنوان ''پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں'' تھا۔ اس مذاکرے میں بلوچستان، گلگت، بلتستان، سرائیکی، پختونخوا، سندھی، اردو اور پنجابی زبان کے نمایندے موجود تھے۔ بلوچ اور گلگت بلتستان کی زبان شینا کے نوجوان خصوصی توجہ کے حامل تھے۔ سندھ کی شاعرہ روبینہ نے بھی گفتگو کی۔ اس اہم مذاکرے کی صدارت ڈاکٹر سعید بھٹہ نے کی۔ جب کہ مجھے مہمان خصوص بنادیا گیا تھا۔
ایک اور مقرر جناب صغیر احمد صغیر نے سرائیکی کے حوالے سے بہت ہی اہم گفتگو کی جس میں تاریخی حوالوں سے زبان و ثقافت پر بھرپور اظہار کیا گیا تھا۔ میں نے اپنی گفتگو میں کہا ''کراچی آرٹس کونسل میں استاد دامن کے انتقال پر ایک مذاکرہ ہوا تھا جس کی صدارت سبط حسن صاحب نے فرمائی تھی، انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا تھا کہ ''افریقہ کے دور افتادہ جنگلوں میں رہنے والی سیاہ فام ماں اپنے بچوں کو جس زبان میں لوری دیتی ہے وہ پیار کی زبان بن جاتی ہے اور لوری ہر زبان میں دی جاتی ہے لہٰذا سب زبانیں پیار کی زبانیں بن جاتی ہیں۔''
میں نے حبیب جالب کے چار مصرعے بھی سامعین کو سنائے:
سہمی ہوئی ہے لب پہ مرے دل کی داستاں
زنداں کا ہو رہا ہے وطن پر مجھے گماں
ہر اک زباں عظیم ہے اے نقطہ دان ملک
کوئی اگر بری ہے تو بندوق کی زباں