حضورﷺ بحیثیت معلم انقلاب

آپؐ ایک ایسے معلم تھے جس کے معلمانہ کردار نے دماغوں کے ساتھ دلوں کو بھی موہ لیا تھا۔


[email protected]

قرآن مجید کی بیسیوں آیات میں علم و تزکیے کی ضرورت اور فضیلت کے حوالے سے واضح اشارات اور احکامات موجود ہیں۔ یوں یہ صحیفۂ مقدسہ امت کی تشکیل کے نصاب کی بنیادی کتاب ہے۔

قرآن مجید جس شخصیت پر نازل کیا گیا، اس کی شخصی اور نبوی صفات پر غورکیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا انسان کامل ہے جو خلق عظیم کی صفات سے آراستہ ہے۔ اس کے طرز عمل کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا اور اس کے معیار پسند و ناپسند کو ضوابط شریعت قرار دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی خاموشی بھی ایک قانون اور تعلیم کا درجہ رکھتی ہے۔

آپؐ کی شخصیت مختلف اوصاف و کمالات کی جامع ہے مگر ان میں سب سے افضل و اکمل پہلو آپؐ کا معلم انسانیت ہونا ہے۔ نبوت کا سفر اپنے مقاصد اور غایات کے لحاظ سے تعلیم و تعلم کا سفر ہے۔

آپؐ کی درس گاہ میں علوم نبوت پڑھائے جاتے تھے۔ کائنات میں انسان سازی کا یہ سب سے بڑا نصاب تھا جس کی تیاری اور فراہمی خود انسانوں کے خالق نے کی تھی اور اس کی تدریس کے لیے اس کائنات کے سب سے افضل و اکمل انسان کا انتخاب کیا گیا۔

آپؐ ایک ایسے معلم تھے جس کے معلمانہ کردار نے دماغوں کے ساتھ دلوں کو بھی موہ لیا تھا۔ یہی باعث ہے کہ زندگی کے مختلف مواقعے پر انھوں نے اپنے اموال اور نفوس کو آپ کے اشارۂ ابرو پر قربان کردیا۔ کائنات نے ابھی تک کسی ایسے معلم کی صورت نہ دیکھی تھی کہ اس کے تلمیذ اور طلبہ اس پر اپنی جانوں تک کو نچھاور کرنے میں عزت و سعادت محسوس کرتے تھے۔

حضور ؐ کا طریقہ تعلیم عملی اور مشاہداتی تھا۔ فلسفیانہ کے بجائے حکیمانہ تھا۔ ظنی اور تخمینی کے بجائے یقینی اور اثباتی تھا۔ آپؐ کی گفتگو اور طریق تعلیم میں نہ تو کوئی ابہام تھا اور نہ پیچیدگی۔ ہر بات واضح، دو ٹوک، فیصلہ کن، دل میں اتر جانے والی، روح کو سرشار کرنے والی، اخلاق آموز اور حکمت آمیز، یوں آپؐ کے طریق تعلیم میں تربیت اور سیرت سازی کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ آپؐ نے انسانیت کو رب زدنی علما کی دعا سکھائی اور ایسے علم سے پناہ مانگنے کی تلقین کی جس میں نفع مندی نہ ہو۔

آپؐ ہمیشہ مخاطب کی ذہنی سطح، عمر اور نفسیات کے مطابق گفتگو فرماتے۔ لفظوں کو یوں ادا فرماتے کہ کوئی چاہے تو لفظ گن لے۔ نہ اس قدر اونچا بولتے کہ دوسرے کی سماعت پر گراں ہو اور نہ اس قدر پست آواز میں کہ دوسرا سن ہی نہ سکے۔ مجمع زیادہ ہوتا تو اپنی بات کو جگہ جگہ دہراتے تاکہ سب اس کو سن لیں اور مستفید ہوں۔

خطبہ حجۃ الوداع میں عرفات کے صحرائی اور میدانی کلاس روم میں ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب سننے والے تھے مگر سب کے سب آپؐ کے خطبے سے مستفید ہوئے۔ ایسا تعلیمی نصاب اور ایسا طریق تعلیم اور اسلوب تربیت تاریخ کا سب سے بڑا علمی، اخلاقی اور روحانی ورثہ ہے۔

آپؐ کی تعلیمی حکمت عملی کے نتیجے میں ایک طرف صفات المومنین کے حامل صحابہؓ کی جماعت تیار ہوئی تو دوسری طرف ایک مہذب معاشرہ تشکیل پانے لگا جس کے نتیجے میں ایک متمدن ریاست وجود میں آئی جو ایک اعلیٰ اور برتر تہذیب و تمدن کی نمایندہ تھی۔ مدینۃ النبی کے چار مربع کلومیٹر میں قائم ہونے والی یہ ریاست دیکھتے ہی دیکھتے پہلے قدم پر حجاز میں اپنے قدم مضبوط کرتی ہے پھر شمال کی طرف بڑھی تو قیصر روم کی سلطنت اس کے زیر نگیں تھی اور شمال مشرق کی طرف رخ کیا تو کسرائے ایران کی حکومت وسطوت کے برج گر گئے۔

خلافت راشدہ کے اختتام تک اس تہذیب کا علم کئی ملکوں پر لہرا رہا تھا۔ پہلی مرتبہ عقیدہ توحید کو ایک عالمی فوقیت حاصل ہوئی اور یہ سب کچھ حضور ختمی مرتبتﷺ کی معلمانہ حکمت عملی کے باعث منظر عام پر آیا ۔ آپؐ کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کے باعث ان سب کو عدل و مساوات، اخوت و محبت، ایثار و ہمدردی اور امانت و دیانت جیسی صالح اقدار و روایات کو سیکھنے اورجاننے کا موقع ملا، انسانیت کفرستان کے تاریک اورگھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر توحید کی روشنی میں سانس لینے لگی اور یہ عالمی انقلاب سرا سر آپؐ کی معلمانہ حکمت عملی کا مرہون منت تھا۔

یہ اسی علمی تحریک کا فیضان تھا کہ جاہلیت کے ماحول سے نکل کر نور حق کی روشنی میں آنے والے حضرات شرف صحابیت سے متصف ہوئے اور انھوں نے زندگی کے ہر ہر میدان میں عظیم کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔

ان صالح افراد نے ایک متمدن معاشرے کی تشکیل کی اور پھر ان کی پاکیزہ سرگرمیوں سے اسلامی ریاست کے خدوخال واضح ہوئے۔ ریاستی امور، معاشی وسائل، عدالتی فیصلے، حرب وضرب کی معرکہ آرائیاں، تجارت وزراعت، علوم و فنون، بین الاقوامی مسائل اورخارجہ امور، بین المذہبی مکالمات کا نشوونما الغرض فرد اور معاشرے اور ریاست کی تمام سرگرمیاں اور وظائف ایک زبردست تعلیمی حکمت عملی کے نتیجے میں وجود میں آئے۔

اس نوزائیدہ اسلامی ریاست میں تعلیم ایک سامان تجارت نہ تھی بلکہ تعلیم عامہ کی تمام تر سرگرمیوں کے مصارف ریاست برداشت کرتی تھی ۔ تعلیم بالکل مفت تھی۔ آپؐ کے فرمان طلب العلم فریضۃ علی کلی مسلم کے مطابق تعلیم لازمی بھی تھی اور جبری بھی۔ آپؐ کے تلامذہ کی عمروں کا لحاظ کیا جائے تو بیشتر تعلیمی حلقے تعلیم بالغاں پر مشتمل تھے۔

اس اولین اسلامی ریاست میں بچوں اور خواتین کی تعلیم کے خصوصی حلقے تھے۔ عورتوں کی تعلیم خود عورتوں کے ذریعے سے، تاریخ انسانیت میں تعلیم نسواں کے اس اسلوب کا آغاز آپؐ ہی کے دور رحمت میں ہوا ۔ اس اولین اسلامی ریاست نے تعلیم کو عوام کی مرضی پر نہیں چھوڑا بلکہ عوام کو ریاست کی تعلیمی پالیسی کے تابع کیا۔

صحت مند افراد کی تعلیم کے علاوہ معذوروں کی بھی تعلیم کا پورا نظام قائم تھا۔ آپؐ کی قائم کردہ اسلامی ریاست کے سو فیصد لوگ ایک تعلیم یافتہ معاشرے کے مفید شہری تھے اور آپ اس تعلیمی تحریک کے سربراہ تھے۔ اس فلاحی ریاست کی اساس حصول تعلیم پر مبنی تھی۔

جدید علوم و فنون میں ہم دوسروں کے دست نگر اور محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اختراعات میں ہمارا کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ ہم ہر نوع کے معدنی اور زرعی وسائل رکھنے کے باوجود اقتصادی اور معاشی میدان میں احساس تفاخر سے محروم ہیں۔ ہم کبھی سیاسی اور کبھی معاشی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہماری اخلاقی اور انسانی پہچان بھی ہدف تنقید بنی ہوئی ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہر فرزند توحید بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ مگر اس بحران سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟

اس مشکل اور پیچیدہ سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ امت مسلمہ حضور ﷺ کی معلمانہ حکمت عملی کا ادراک کرے اور اس کی روشنی میں اپنے تصور علم کو درست کرے۔ آپؐ کی عطا کردہ تعلیمات کی روشنی میں مطلوبہ افراد تیار کیے جائیں جن کے اخلاق بہتر اور اطوار اعلیٰ اقدار کے حامل ہوں۔

مسلمان ایک ہزار سال تک دنیا میں ایک سپر پاور کی حیثیت سے حکمران رہے۔ آپؐ کی بخشی ہوئی تعلیمی حکمت عملی کے نتیجے میں دنیا نے ایک صالح تہذیب کا چہرہ دیکھا۔ انسانی حقوق کا ایک اعلیٰ و ارفع تصور، یوں صدیوں تک یورپ کی درسگاہیں مسلمانوں کے علوم و فنون سے خوشہ چینی کرتی رہیں۔

اتباع رسالت کا تقاضا ہے کہ ہم آج پھر سے اپنے بچوں، خاندانوں، معاشرے اور ریاست کی تعمیر و تشکیل اسی تعلیمی حکمت عملی پر استوار کریں جسے قرآن مجید نے اصولی طور پر پیش کیا اور اس کی تفصیلات کو نبیﷺ نے تفصیل سے واضح کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں