چیف جسٹس صاحب فٹ پاتھ اسکول کا یہ پہلو بھی دیکھ لیجیے

فٹ پاتھ اسکول کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دےرہے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بچوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست نہیں؟


یوسف ابوالخیر February 28, 2018
فٹ پاتھ اسکول معاملے پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا تھا اور تعاون کے لیے پانچ لاکھ روپے تک کی پیشکش کی تھی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

تسلیم کہ قوم کی تعمیر و ترقی نونہالانِ وطن کی تعلیم وتربیت سے مشروط ہے، مگر تعلیم کو تجارت بنانا اور ذاتی مفادات سے نتھی کرنا نہ صرف مستقبل کے معماروں کے مستقبل سے گھناؤنا مذاق ہے بلکہ، خاکم بدہن، قوموں کی زبوں حالی کا بھی ضامن ہے۔

حالیہ دنوں میں ایک ایشو خبروں میں ''اِن'' رہا ہے جو کراچی کے علاقے کلفٹن میں فلائی اوور کے نیچے قائم ''فٹ پاتھ اسکول '' سے متعلق ہے۔ انفاس زیدی نامی ایک خاتون اس اسکول کی بانی و منتظمہ ہیں جو فٹ پاتھ اسکول کا مقصد یہ بتاتی ہیں کہ کسی طرح اسٹریٹ چائلڈز کو زیورِ علم سے آراستہ کیا جائے، کہ سڑکوں پر پھرتے، بھیک مانگتے یہ بچے ہی ہمارا کل اور مستقبل ہیں۔ ان کے اس مقصد اور عملی کوشش کی کوئی بھی علم دوست کیسے مخالفت کرسکتا تھا؟



لیکن برا ہو سندھ حکومت کا جسے یہ تعلیمی سرگرمی ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ پہنچ گئی فٹ پاتھ پر سے اسکول کو ختم کروانے۔ معاملہ میڈیا پر اچھلا، اسکول کی بانی خاتون نے دُہائیاں دیں جنہیں چینلوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یہ جاننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ کیا واقعی وہاں تعلیمی سرگرمی ہی ہورہی ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ بچوں کو پڑھایا کیا جارہا ہے، سلیبس کیاہے؟ کتابیں کس پبلشر کی ہیں؟ ان کے سہ ماہی ، ششماہی امتحانات بھی ہورہے ہیں یا صرف سالانہ؟ امتحانات ہو بھی رہے ہیں یا بس کلاسیں ہی چل رہی ہیں؟ جو ٹیچرز پڑھارہی ہیں، ان کی اپنی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ اسکول کی بنیاد ڈالنے والی میڈم کی کیا کوالیفکیشن ہے؟ کہاں سے، کس شعبے میں ڈگری لی ہے؟ تعلیم و تدریس کے شعبے سے ان کی کوئی وابستگی رہی بھی ہے کہ نہیں؟

انچارج کے مطابق اسکول میں ہزاروں بچے رجسٹرڈ ہیں، سینکڑوں کی روزانہ حاضری ہوتی ہے جنہیں روزانہ دن کا کھانا کھلایا جاتا ہے، ساتھ ہی ہر بچے کو روز کے پچاس روپے بھی دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز کو تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں۔ دو سے زائد سیکیوریٹی گارڈز ہیں، ایک گاڑی ہے جس کا تنخواہ دار ڈرائیور بھی ہے ، غیر تدریسی عملہ ہے، ان سب کے پیسے، دیگر اخراجات جو ہزاروں روپے روزانہ کے ہیں۔ چلیے، مان لیا، لیکن یہ ساری رقم کہاں سے آرہی ہے؟ اور جو پیسہ آرہا ہے اور خرچ کیا جارہا ہے، اس کا کوئی حساب کتاب بھی ہے کہ نہیں؟ اسی طرح کے کئی سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کے بجائے میڈیا حسبِ روایت خم ٹھونک کے میدان میں آگیا اور لگا فٹ پاتھ اسکول کی میڈم کی مظلومیت بیچنے۔ بس پھر کیا تھا، جنابِ چیف جسٹس نے عوام کے دیگر بنیادی حقوق کی حفاظت کی طرح اس معاملے پر بھی فوری از خود نوٹس لیا اور سندھ حکومت کو وارننگ دی کہ جب تک اس فٹ پاتھی اسکول کو عمارت میسر نہیں آجاتی، خبردار جو انہیں یہاں سے ہلایا جلایا جائے۔ چیف صاحب نے ایک اچھے گارجین اور مربّی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ تک پیشکش کردی کہ اگر ضرورت ہو تو سپریم کورٹ رجسٹرار سے 5 لاکھ روپے تک لے لیے جائیں۔



خیر! پہلے ہم بھی ایک عام، معاملات سے لاعلم شہری کی طرح یہی سمجھتے رہے کہ خاتون ایک اچھا کام کررہی ہیں اور فٹ پاتھ اسکول کو سپورٹ کیا جانا چاہیے۔ لیکن پھر ہماری صحافتی رگ پھڑک اٹھی اور ہم نے اپنے تئیں کسی نہ کسی حد تک معاملے کی چھان پھٹک کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ اے آر وائی کے ایک سینئر رپورٹر سے انفاس زیدی کا نمبر لے کر انہیں کال کی تو پتا چلا کہ سندھ حکومت کے ہرکاروں کے ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے ان کی طبعیت بگڑ گئی اور وہ فی الحال اسپتال میں داخل ہیں۔ میں نے انہیں جلد اور مکمل صحت یابی کی دعا دی، اور اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے وہاں موجود انچارج کا بتایا اور تاکید کی کہ ڈیڑھ بجے سے پہلے اسکول پہنچ جائیں۔ ہم نے نجی ہوٹل سے امت کے رپورٹر عظمت رحمانی کو لیا اور پہنچ گئے فٹ پاتھ اسکول۔

وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ انفاس زیدی نے ہماری آمد سے متعلق پہلے ہی وہاں آگاہ کردیا تھا۔ ہم جب وہاں پہنچے تو اسی وقت گاڑی سے بریانی کی گرما گرم دیگیں اتاری جارہی تھیں۔ ہم نے اپنے طور پر جب انچارج، ٹیچرز اور بچوں سے باتیں کیں تو اندازہ ہوا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا میڈیا پر دکھایا جارہا تھا۔ خاصا ''جھول'' موجود ہے۔ ہمارے پوچھنے پر عظمیٰ نامی انچارج نے بتایا کہ اسکول میں دو ہزار بچے رجسٹرڈ ہیں جن میں سے تقریباً 6 سو بچے روزانہ آتے ہیں۔ بچوں کو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے بجائے ایک پرائیوٹ پبلشر کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو تمام بچوں کے پاس نہیں تھیں۔ میں نے عظمیٰ سے پوچھا کہ 6 سو بچوں کو پڑھانے کےلیے کتنی ٹیچرز ہوتی ہیں؟ جواب ملا کہ 15 سے اٹھارہ ہوتی ہیں۔ اس پر میں نے استفسار کیا کہ یہاں تو صرف تین چار استانیاں ہی نظر آرہی ہیں، تو بتایا گیا کہ بقیہ ٹیچرز ٹریننگ پر گئی ہوئی ہیں۔ پوچھا گیا کہ ٹریننگ کے لیے کہاں گئی ہیں تو انچارج نے جھینپتے ہوئے بتایا کہ پتا نہیں کہاں گئی ہیں۔ یہی سوال ساتھی رپورٹر نے تھوڑے وقفے سے ایک اور ٹیچر سے پوچھا تو اس کا جواب انچارج کے جواب کے برعکس تھا: اس کے مطابق ٹیچرز ٹریننگ پر نہیں بلکہ چھٹیوں پر ہیں۔



ہم نے اسکول کی بانی انفاس زیدی کے تعلیمی و تدریسی پس منظر سے متعلق جاننا چاہا تو عظمیٰ نے بتایا کہ میڈم نے آئی آر (انٹرنیشنل ریلیشنز) میں داخلہ لیا تھا مگر پہلے سال میں ہی انہیں اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑ گئی۔ ایک اور خاتون ٹیچر جو بچوں کو پڑھا رہی تھیں، ان سے جب ہم نے ان کی کوالیفکیشن کی بابت پوچھا تو انہوں نے شرماتے ہوئے بتایا کہ گریجویشن کیا ہے۔ ہم نے پوچھا کب اور کہاں سے کیا تو جواب ملا ''یہ یاد نہیں۔''

عظمیٰ نے ایک کلاس کے بارے میں بتایا کہ یہ سینئر کلاس، پانچویں جماعت کے بچے ہیں جنہیں انگلش بھی آتی ہے۔ میں نے ایک بچے سے انگریزی میں جاننا چاہا کہ how many provinces in Pakistan تو پانچویں جماعت کے اس بچے نے جواب دیا Karachi۔ پھر ہم نے اسی کلاس کے بچے سے اردو میں پوچھا کہ ہم کس شہر میں ہیں؟ اس نے جواب دیا سندھ۔

ہم ذرا اور آگے بڑھے تو ایک ٹیچر بچوں کو ایک حمد پڑھا رہی تھیں جو میں نے بھی بچپن میں اپنے اسکول میں پڑھی تھی۔ میں نے ٹیچر سے نام پوچھا، انہوں نے نام بتایا تو میں ذرا چونکا، خاتون میری کنفیوژن بھانپ گئیں اور ترنت بتایا کہ میں ہندو ہوں۔ میں نے کہا ویری گڈ! ہم سب کو مل جل کر ہی اس ملک کی خدمت کرنی چاہیے۔ میں نے ان سے مزید پوچھا کہ آپ پڑھا کیا رہی ہیں، تو انہوں نے جو جواب دیا اس پر میں مزید چونک گیا، کیونکہ ٹیچر ہندو ہونے کے باوجود بچوں کو اسلامیات پڑھا رہی تھیں۔ میرے لیے یہ بڑا دلچسپ اور انوکھا تجربہ تھا۔ خیر میں نے ان سے جاننا چاہا کہ آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے بتایا بی اے۔ میں نے برجستہ پوچھا کس میں؟ تو ٹیچر نے جو جواب دیا وہ یقیناً آپ سب کےلیے بھی چونکا دینے والا اور دلچسپ ہوگا۔ بی بی نے بی اے کیا اور وہ بھی سائنس میں۔ ہے ناں دلچسپ بات!



ہم نے پوچھا کہ آپ کا روزانہ کی بنیاد پر اتنا خرچہ ہے، کون کونسے ادارے آپ سے مالی تعاون کرتے ہیں؟ انچارج نے بتایا کہ تعاون کوئی نہیں کرتا، سب صرف دعوے اور وعدے کرتے ہیں۔ ہم نے حیرانی سے پوچھا کہ پھر یہ کاروبارِ زندگی کیسے رواں دواں ہے؟ بتایا گیا کہ سب کچھ میڈم اپنے پاس سے کرتی ہیں۔ پوچھا گیا کہ اپنے پاس سے کیسے کرتی ہیں، ان کا کیا کاروبار ہے، آمدنی کے کیا ذرائع ہیں؟ بتایا گیا کہ ابھی تو صرف اسکول چلا رہی ہیں، پہلے ان کا کنسٹرکشن کا کاروبار تھا۔ اب اسکول کے علاوہ کوئی اور مصروفیت نہیں۔ یعنی سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ اخراجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں، مگر جواب ندارد۔

میری معلومات کے مطابق سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن سمیت کئی این جی اوز نے انہیں باقاعدہ عمارت میں منتقل کرنے اور فی بچہ سات سو روپے ماہانہ تک دینے کی پیشکش بھی کی تھی جسے ان کی جانب سے یکسر ٹھکرا دیا گیا۔ یعنی فٹ پاتھ اسکول والے، فٹ پاتھ پر ہی رہنے پر بضد ہیں۔ اس ضد کے پیچھے کیا منطق ہوسکتی ہے؟ میں اتنا ذہین نہیں کہ اسے سمجھ سکوں۔

اس حوالے سے ہم نے بعض این جی اوز میں سرگرم خواتین سے بھی بات کرنا چاہی جو تعلیم کے شعبے ہی میں خدمات انجام دے رہی ہیں، تو بیٹھک اسکول نیٹ ورک کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن رضوانہ قطب کا کہنا تھا کہ بچوں کو پڑھائی کےلیے فٹ پاتھ پر بٹھانا انتہائی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ وہاں پر شور شرابے میں بچوں کےلیے کچھ پڑھنا، سمجھنا اور یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے؛ ان کی توجہ بھٹکتی رہتی ہے جسے یکسو کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب انہیں مختلف اداروں کی جانب سے باقاعدہ اسکول میں منتقل ہونے کی پیشکش کی گئی ہے تو پھر کوئی جواز نہیں کہ یہ تب بھی فٹ پاتھ پر بیٹھے رہیں۔

تقویمِ پاکستان ویلفئیر کی عظمیٰ آرزو نے، جو کراچی اور اندرونِ سندھ کی پسماندہ بستیوں میں علم کے چراغ روشن کرنے کے مشن پر گامزن ہیں، کہا کہ اسکول کلاس رومز سے بنتا ہے اور کلاس کا بنیادی اصول ہی کسی بھی قسم کی مداخلت اور خلل سے پاک ہونا ہے جو کھلی سڑک پر کسی طور بھی ممکن نہیں۔ عظمیٰ آرزو نے بتایا کہ اگر یہ لوگ واقعی تعلیم کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں فٹ پاتھ کی ضد چھوڑ کر باقاعدہ اسکول میں منتقل ہوجانا چاہیے۔

بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم انتہائی جذباتی واقع ہوئے ہیں، کسی بھی معاملے کی پوری طرح چھان پھٹک کیے بغیر ہی فوری طور پر اچھی یا بری رائے قائم کرلیتے ہیں اور پھر جی جان سے اس کے دفاع میں جُت جاتے ہیں۔ اب لازمی سی بات ہے کہ جناب چیف جسٹس بھی چونکہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں وہ بھی جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوگئے۔ کوئی ان کی نیت پر شک نہیں کرسکتا۔ انہوں نے جو بھی قدم اٹھایا، مجھے یقین ہے کہ اس کے پیچھے نیک جذبہ ہی رہا ہوگا۔ لیکن میری عاجزانہ رائے میں چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب کا تقاضا ہے کہ کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے اور کم از کم بنیادی تفتیش و تحقیق کے بعد ہی کوئی فیصلہ دیا جانا چاہیے تھا۔

فٹ پاتھ اسکول کے ذریعے دنیا کو کیا یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے صفِ اول کے ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک شہر، کراچی میں بچوں کی تعلیم کا کوئی مناسب بندوبست ہی نہیں؟ ملک کو 70 فیصد آمدن دینے والے شہر میں بچے چلتی سڑک کے بیچوں بیچ فٹ پاتھ پر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ فٹ پاتھ اسکول کو اٹھا کر سمندر برد کردیا جائے۔ لیکن ضابطے کی ضروری کارروائی تو کم از کم عمل میں لائی جانی چاہیے ناں! پتا تو چلے کہ آیا واقعی یہاں تعلیمی سرگرمی ہی چل رہی ہے یا اس کی آڑ میں کچھ اور ہورہا ہے؟

مکرر عرض ہے کہ قوم کی تعمیر و ترقی نونہالانِ قوم کی تعلیم وتربیت ہی سے مشروط ہے لیکن تعلیم کو تجارت بنا کر ذاتی مفادات کے حصول سے وابستہ کردینا نہ صرف مستقبل کے معماروں کے مستقبل سے کھلواڑ ہے بلکہ قوموں کی زبوں حالی کا بھی ضامن ہے۔ میرے منہ میں خاک، ایک بار پھر!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔