افغانستان میں امن پاکستان کےلیے کیوں ضروری ہے

افغانستان کا خیال پاکستان کو ایسے رکھنا ہے کہ جیسے یہ پاکستان کا صوبہ ہو


حسیب اصغر February 27, 2018
افغانستان ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت، کھیل اور دنیا کے تمام شعبوں میں بہت پیچھے ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اسلامی جمہوریہ افغانستان کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ افغانستان کی 99 فیصد آبادی مسلم ہے۔ باقی ایک فیصد سکھ اور ہندوؤں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ یہ ملک ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، برطانویوں، روسیوں اور اب امریکا کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضے کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ افغانستان پچھلے 35 سال سے مسلسل جنگ کی حالت میں ہے جس نے اسے تباہ کردیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔

آج افغانستان امریکی قبضے میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ یہ ملک جنگی لحاظ سے اور جنوبی ایشیا میں اپنا دباؤ رکھنے کےلیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلے پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ اسی وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کےلیے امن نصیب نہیں ہوسکا۔

روس نے افغانستان پر قبضے کےلیے بےتحاشہ نقصان اٹھایا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا، روس کی ناکامی میں امریکا کا کردار کلیدی تھا جس نے پاکستان کے استعمال سے روس کی عظیم ریاست کا کچومر نکال دیا۔ روس جیسی عظیم ریاست کو تباہ کرنے کے بعد امریکا نے سمجھا کہ وہ اس دنیا کا مائی باپ ہے اور جو وہ چاہے گا وہی ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو ہوا بھی ایسا ہی کہ امریکا نے جہاں چاہا حملہ کردیا، جس کو چاہا قید کرلیا۔ لیکن امریکا قدرت کے قانون سے بے خبرتھا یا یوں کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ طاقت کے نشے اور تکبر میں حقائق سے بےخبر افغانستان میں دھنستا چلا گیا۔

امریکی صحافیوں، دانشوروں اور دیگر کے بیانات کے مطابق 9/11 کے خود ساختہ حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور اس اہم ملک میں موجود رہنے کا جواز بنایا۔ افغانستان میں طالبان کے طرز حکومت اور دہشت گردی کوجواز بنایا گیا اور امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ لاکھوں کی فوج افغانستان میں اتاردی جس کی بنیادی وجہ افغانستان کی اسٹریٹیجک لوکیشن ہے۔

جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں، افغانستان جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ واقع ہے جہاں سے تقریباً پورے جنوبی ایشیا کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہندوستان پر حکومت کرنے والی ہر شخصیت نے برصغیر میں داخل ہونے کےلیے افغانستان کا راستہ ہی اختیار کیا۔ یہاں افغانستان کی اہمیت کا مختصر تذکرہ کیا گیا لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ افغانستان کا پڑوسی ملک پاکستان ہے۔ افغانستان کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ لیکن پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا اور یوں افغانستان میں اگر دہشت گردی یا غیریقینی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پاکستان اس سے براہ راست متاثر ہوتا ہے۔

افغانستان ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت، کھیل اور دنیا کے تمام شعبوں میں بہت پیچھے ہے۔ اس کا موازنہ اگر پاکستان سے کیا جائے تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ تو یوں جتنا افغانستان کےلیے مستحکم پاکستان ضروری ہے، اس سے کئی گنا زیادہ پاکستان کےلیے مستحکم افغانستان ضروری ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ پاکستان افغانستان کےلیے اتناہی فکرمند ہے کہ جیسے یہ پاکستان کا پانچواں صوبہ ہو اور مستحکم افغانستان کےلیے پاکستان نے دنیا کے تمام فورمز پر ہر وہ کام کیا جس سے افغانستان میں امن و ترقی کی راہیں کھل سکتی تھیں۔ لیکن یہاں ایک طاقت امریکا ہے جواسرائیل کے اشاروں پر افغانستان میں کبھی بھی پاکستان کےلیے سازگار حالات پیدا کرنے کے حق میں نہیں۔ بلکہ وہ یہاں پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کےلیے بھارت کو کلیدی کردار دینے کی تمام تر کوششیں کر رہا ہے۔

امریکا افغانستان میں کروڑوں ڈالر کے نقصان اور ہزاروں فوجیوں کی موت کے باجود یہاں سے نکلنے پر آمادہ نہیں بلکہ وہ اپنی ناکامی کو پاکستان کے سر ڈال کر نکلنا چاہتا ہے۔ ایسے میں وہ پاکستان کو ایک غیرذمہ دار ملک قرار دیتے ہوئے افغانستان میں بھارت کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کی کوششیں کررہا ہے جس کےلیے وہ وقتاً فوقتاً پاکستان پر حقائق سے ہٹ کر دباؤ ڈالتا رہا ہے۔

رواں برس 4 جنوری کو امریکی صدر نے پاکستان کی فوجی امداد یہ کہہ کر بند کردی تھی کہ پاکستان ملک میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائیاں نہیں کررہا۔ امریکا کی جانب سے امداد کو روکنے کے اعلان اور پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف یک طرفہ فوجی کارروائی اور ڈرون حملوں سے متعلق بیانات نے پاک امریکا تعلقات کی، جو پہلے ہی تناؤ کا شکار تھے، کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا۔ امریکی صدر سمیت دیگر سینیٹ ممبران کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی جاتی رہی جبکہ دوسری جانب امریکا، پاکستان کے ساتھ مضبوط اور بہتر تعلقات کا عندیہ بھی دیتا رہا ہے۔ گویا یوں محسوس ہورہا تھا کہ امریکا ''بیڈ کاپ'' اور ''گڈ کاپ'' کا رویہ اختیار کررہا ہے۔ عام طور پر یہ رویہ اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ مدمقابل آپ کی کس بات کو مان لے گا: وہ آپ کی دھمکی سے مرعوب ہوجائے گا یا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گا۔ اگر دھمکی سے مرعوب نہ ہو تو پھر گڈ کاپ کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں نرمی سے بات کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تو امریکا کی جانب سے دھمکیوں کا پاکستان کی جانب سے سخت جواب دیا گیا جس کی امریکا کو توقع نہیں تھی، تو اب نرمی سے اپنی بات منوانے کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔

امریکا کی جانب سے دھمکیوں پر سخت مؤقف کے بعد پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے سالانہ بجٹ میں پاکستان کےلیے 336 ملین ڈالر امداد رکھنے کی تجویز دی ہے جو لگتا ہے کہ پاکستان کے نہ جھکنے والے مؤقف کی وجہ سے ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر اپنے اعلان پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے کانگریس کو بھیجی گئی 4 کھرب ڈالر کی سالانہ بجٹ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کےلیے 256 ملین ڈالر کی سویلین معاونت کےلیے جبکہ 80 ملین ڈالر فوجی معاونت کی مد میں رکھے جائیں۔ یہ امداد پاکستان کے معاشی استحکام اور پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

اس کے علاوہ امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اعلان کردہ بجٹ تجاویز 2019 میں پاکستان کی معاشی اور فوجی امداد بھی شامل ہیں۔ ان غیرمشروط درخواستوں کے تحت اکنامک سپورٹ فنڈز اور ترقیاتی فنڈز کی مد میں 2018 اور 2019 کےلیے 20، 20 کروڑ ڈالر سالانہ مختص کیے گئے ہیں۔

یہ تو تھا جناب امریکا اور اسرائیل کا خطے میں کردار۔ یہاں منصوبے کا ایک اور حصہ دکھانا چاہتا ہوں۔

گزشتہ دو سال میں بھارت کو امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑی حمایت ملی ہے۔ اسرائیل نے بھارت کو 200 کے قریب 155 ملی میٹر دہانے کی الٹرالائٹ توپیں دی ہیں۔ یہ توپیں ریڈار اور سیٹلائٹ کی مدد سے ہدف تلاش کرکے طویل فاصلے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ اس نوعیت کی ہیں کہ بہ آسانی پہاڑی علاقوں میں بھی نصب کی جاسکتی ہیں۔ ان گنوں میں استعمال ہونے والا ہتھیار لیزر گائیڈڈ ہے۔

بھارت نے یہ توپیں ورکنگ بانڈری پر بھی نصب کی ہیں۔ ورکنگ بانڈری پر توپوں کی تنصیب بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے جس کا کوئی جواز نہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ابھی کوئی باضابطہ جنگ بھی نہیں، تو یہ ایک توجہ طلب معاملہ ہے جسے سفارتکاری کے ذریعے بین الاقوامی فورمز پر مؤثر انداز میں اٹھانے کی ضرورت ہے۔

دنیا میں اب طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ امریکا ایک سپر پاور ہونے کے باوجود بدترین شکست کا شکار ہے۔ سترہ اٹھارہ سال میں کھربوں ڈالروں کا نقصان اور ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد امریکا کو اب تک افغانستان میں کامیابی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے بیان میں اعتراف کیا ہے کہ افغانستان کے 70 فیصد علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہنوز قائم ہے۔

ذرا غور کیجیے کہ پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف دنیا کا سب سے بڑا فوجی آپریشن کامیابی سے مکمل کرچکا ہے، جس کے ہزاروں شہری اور فوجی اس جنگ میں شہید ہوچکے ہیں اور کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے، اس کی تمام تر کوششوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے جبکہ بھارت جو خطےمیں عدم استحکام کا ذمہ دار ہے، اسے امریکا کی جانب سے ''ویل ڈن'' کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بٹھایا جارہا ہے۔

بین الاقوامیں امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے جتنا سخت رویہ اب امریکا کا ہے، اس سے قبل نہیں تھا۔ میری نظر میں امریکی سخت رویّے کی ایک بڑی وجہ سی پیک ہے جسے جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے معاملات کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔

اگر سی پیک کامیابی سے مکمل ہوجاتا ہے تو پاکستان دنیا میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوجائے گا جو امریکا، بھارت اور اسرائیل کو کسی بھی صورت منظور نہیں ہوسکتا۔ سی پیک صر ف پاکستان کےلیے ہی نہیں بلکہ چین کےلیے بھی اتنا فائدہ مند ہوگا کہ جس کا اندازہ فی الحال نہیں لگایا جاسکتا۔ یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ چین کی 94 فیصد آبادی جنوبی چین میں رہتی ہے جبکہ اس کی 6 فیصد آبادی مغربی چین میں رہائش پذیر جو پورے چین کے تقریباً 55 فیصد رقبے پر محیط ہے۔ یہ مغربی چین ہی پاکستان سے ملتا ہے، یوں سی پیک کی تکمیل کے بعد چین کا مغربی حصہ بھرپور ترقی حاصل کرسکے گا جبکہ سی پیک کی تکمیل کے بعد چین مڈل ایسٹ کے ساتھ ساتھ وسط ایشیا کے ساتھ سستے ترین تجارتی تعلقات بناسکے گا۔

سی پیک سے جہاں دیگر ممالک کو پریشانیاں ہیں وہاں سب سے زیادہ پریشان بھارت ہے۔ بھارتی سیکیورٹی امور کے ماہرین نے سی پیک کو بھارت کی بقا کےلیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ بھارت سی پیک کے خلاف خود براہ راست کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن وہ اس ضمن میں افغانستان کی سرزمین کو استعمال کررہا ہے اور افغانستان کا اعتماد حاصل کرنے کےلیے بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں سلما ڈیم کا افتتاح کیا ہے جبکہ ہرات میں ہائیڈرو پاور پلانٹ کےلیے 300 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جو بھارت کی جانب سے کسی بھی ملک میں تاریخ کی بلند ترین سرمایہ کاری بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت گوادر پورٹ اور سی پیک کے مقابلے میں ایران میں چاہ بہارپورٹ بنارہا ہے جو گوادر پورٹ سے صرف 70 کلومیٹر دور ہے۔

ویسے تو بھارت 2003 سے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کررہا ہے لیکن گزشتہ برسوں میں ایران پر لگی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے تعمیرات کا یہ کام بہت سست رہا۔ اب ان پابندیوں کے خاتمے کے بعد مئی 2016 میں بھارت نے اس بندرگاہ کی تعمیر کےلیے ایران کے ساتھ 85 ملین ڈالر کا معاہدہ کرلیا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جیسے ہی چین کا راستہ روکنے کےلیے ایران کی چاہ بہا ر کی بندرگاہ کی ضرورت پڑی، امریکا اور ایران میں ایٹمی تنازعات ہفتوں میں طے پاگئے اور ایران سے پابندیاں اٹھا لی گئیں، جنہیں امریکی صدر ٹرمپ نے دنیا کو دکھانے کےلیے ایک نیا ماحول پیدا کردیا تھا کہ جیسے امریکا ایران پر نئی پابندیاں لگادے گا لیکن وہ بھی صرف عالمی برادری کو دکھانے کےلیے ہی تھا۔

سی پیک کے ذریعے جہاں سے چین اپنی تجارت کرے گا وہیں وہ اپنی سیکیورٹی کےلیے بھی اقدامات کرے گا اور یوں گوادر کے پانی میں چینی بحریہ اور دیگر سیکیورٹی فورسز بھی ہوں گی؛ جبکہ یہی وہ مقام بھی ہے جہاں سے بھارت اپنی تیل کی ضروریات کےلیے مشرق وسطی کے ممالک سے تجارت کرتا ہے۔ اگر سی پیک مکمل ہوگیا تو چین اس راستے کو کنٹرول کرکے بھارت کی سپلائی لائن کاٹ سکتا ہے جبکہ چین اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس طرح بھارت معاشی طورپر چین کے دباؤ میں آجائے گا اور چین دو جانب سے بھارت کو گھیرسکتا ہے۔

یہ وہ مختصر جائزہ ہے جس نے بھارت کو پریشان کیا ہوا ہے اور بھارت سی پیک کو ناکام کرنے کےلیے وہ تمام اقدامات کررہا ہے جن سے پاکستان کو نقصان پہنچایا اور سی پیک کو ناکام کیا جاسکے۔ اس کےلئے بھارت بلوچستان کے باغی دہشت گردوں کو سپورٹ کررہا ہے۔ چونکہ سی پیک کا بڑا حصہ بلوچستان سے ہوکر گزرے گا اس لئے بھارت بلوچستان کے باغیوں کو ہر وہ چیز فراہم کررہا ہے جس سے بلوچستان میں ہونے والی بغاوت کو تقویت مل سکے اور جس کے نتیجے میں سی پیک کو تباہ کیا جاسکے۔

سی پیک جہاں خطے کےلیے گیم چینجر ثابت ہوگا وہیں اس کی سیکیورٹی اور کامیابی بھی پاکستان کےلیے بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ ایک جانب دشمن ملک بھارت کے ساتھ طویل ترین سرحد کی حفاظت ہے جو پاکستان دشمنوں کی امداد کےلیے اپنے خزانوں کا منہ کھولے رکھتا ہے جبکہ دوسری جانب ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو افغانستان کی سرزمین استعمال کرکے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملے کرتی رہتی ہیں۔

جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ افغانستان اور پاکستان میں امن ایک دوسرے سے متصل ہے بلکہ افغانستان میں امن پاکستان کےلیے بے حد ضروری ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ افغانستان کا خیال پاکستان کو ایسے رکھنا ہے کہ جیسے یہ پاکستان کا صوبہ ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں