اصولوں کی شہادت ہوگئی کیا
وطن عزیز کی آج کل کی فضا تو بالکل اس نظریے کی عکاس ہے
تاریخ کا پہیہ پھر سے گردش میں ہے، ایک بار پھر سے پاکستانی سیاست انصاف کے ایوانوں میں حاضر ہے، گو ماضی میں انصاف کے ایوانوں سے سیاست کو کم ہی انصاف ملا ہے اور پاکستانی عدلیہ پر مولوی تمیز الدین کیس سے لے کر اسمبلیوں کی تحلیل کے مقدمات تک اعتراضات کا پورا دفتر موجود ہے، بھٹو کیس ہو یا نواز شریف پانامہ کیس دونوں مقدمات عوامی عدالت میں آج بھی زیر بحث رہتے ہیں ۔کیونکہ عوامی عدالتوں کے فیصلے تاریخ میں نمایاں جگہ پاتے ہیں اور پھر ان فیصلوں پر اعتراضات آہستہ آہستہ فیصلوں کی جگہ لے لیتے ہیں، لوگوں کو ان فیصلوں کے پس پردہ حقائق یا الزامات یاد نہیں رہتے بلکہ ان فیصلوں کی کمزوریاں اور غلطیاں ازبر ہوجاتی ہیں۔ گو عدلیہ میں اب بہت تبدیلیاں آچکی ہیں آج کے فاضل جج صاحبان دنیا کے بہترین ججوں میں شمار ہوتے ہیں، تاریخ کا گہرا شعور رکھتے ہیں، جمہوریت پر مکمل ایمان رکھتے ہیں، آئین کی حفاظت کا پورا خیال رکھتے ہیں، ان سے معمولی اختلاف آئین کی اس تشریح پر ہے جہاں وزیر اعظم کو پارلیمان کی بجائے آئین کی پیچیدہ تشریحات سے نکال باہر کیا گیا۔
دراصل صاحبان اقتدار اپنے مفادات، خواہشات اور ترجیحات کو مدنظر رکھ کر کچھ اصول وضع کرتے ہیں جنھیں قوانین کا نام دے کر عوام پر لاگو کردیا جاتا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں کیونکہ انھیں نظرانداز یا معاف کرنے کا مطلب طاقتوروں کے مفادات کو ضرب پہنچانا ہوتا ہے۔ قانون شکنی مسئلہ نہیں ہوتی بلکہ مقتدر طبقے کے مفادات کے خلاف آواز اٹھانا جرم تصور کیا جاتا ہے اس لیے ایسے لوگوں پر مختلف الزامات لگا کر انھیں نہ صرف خاموش کروا دیا جاتا ہے بلکہ ایک مثال بنادیا جاتا ہے تاکہ دوسرے آواز اٹھانے کی جرأت نہ کریں اور دولت و اقتدار ایک مخصوص دائرے میں گردش کرتے رہیں۔
وطن عزیز کی آج کل کی فضا تو بالکل اس نظریے کی عکاس ہے۔ انصاف اور قانون پر گہری نظریں رکھنے والے اس بات پر شاکی ہیں کہ یہ کیسا نظام عدل ہے جو صرف توہین کو ہی معیار بنائے ہوئے ہیں، انھیں معاشرے میں پھیلا ظلم نظر ہی نہیں آتا۔ سارا نظام چند شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ مجرم وکٹری کا نشان بناتے یوں عدالت میں داخل ہوتے ہیں جیسے وہ پیشی پر نہیں بلکہ قلعہ فتح کرنے آئے ہیں۔ یہ سوچ یا یہ نظریہ اس رویے کی وجہ سے نہیں رہا ہے کہ یہاں حاکم اور محکوم کے لیے الگ الگ ضابطے ہیں۔ مساوات اور انصاف کے پلڑے چیک کرانے کی ضرورت ہے جو بندے کی حیثیت دیکھ کر وزن بتاتے ہیں۔
برسوں پہلے مولانا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ کی ایک عدالت میں کہا تھا کہ ''جب کبھی حکمراں طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلے میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔'' ہماری عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کا کہا ہوا غلط ثابت ہو رہا ہے کہ عدالتیں اپنی روایت کے مطابق حکمرانوں کا ہتھیار بننے کی بجائے ان کے ساتھ انصاف کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے یہ بھی کہا تھا کہ ''تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں۔''
''عدالت فرشِ مقتل دھو رہی ہے... اصولوں کی شہادت ہوگئی کیا'' کے مصداق عدالتوں کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے ۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہوسکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کیے گئے۔ ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لیے زہرکا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ لیکن انھی عدالتوں نے انصاف بھی کیا ہے اگر ایک سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا ہے تو ہزاروں سقراط انھی عدالتوں کی بدولت زندہ بھی رہے ہیں، اگر ایک عیسیٰ مصلوب ہوا ہے تو کتنے مسیحاؤں کو انھی عدالتوں سے زندگی بھی ملی ہے، اگر ایک منصور سولی پر چڑھا ہے تو انھی عدالتوں نے کتنے منصوروں کی سچائی کو تسلیم بھی کیا ہے کہ عدالت تو بنائی ہی انصاف کے لیے گئی ہے۔
ملکی منظر نامے پر نگاہ کی جائے تو پتا چلتا ہے اس تلخ حقیقت کا کہ ذاتی اور سیاسی اختلاف انتقام کا روپ دھار رہا ہے۔ سیاستدان ججوں کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے مشورے دے رہے ہیں اور جج صاحبان بعض صحافیوں کے تلخ لہجوں میں سے توہین تلاش کر رہے ہیں۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کا احترام نہیں کیا گیا لہٰذا اسی وجہ سے سب کا احترام خطرے میں ہے۔
جب اداروں پر تنقید بڑھ جائے اور عوام اداروں کا احترام کرنے پر تیار نہ ہوں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ فوری ایکشن کرکے اداروں میں تبدیلی لائی جائے تاکہ بھرم قائم رہے۔ وطن عزیز میں مضبوط عدالتی نظام جمہوریت کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کے لیے اشد ضروری ہے اور عدالتوں کے احترام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر ہر عدالتی فیصلہ عوامی سطح پر زیر بحث ہونا شروع ہوجائے تو اس کا مطلب ہے کہ اداروں کو سوچنا چاہیے کیونکہ جب ملک کا عدالتی نظام کمزور ہوتا ہے وہ ملک ٹوٹ جاتے ہیں لیکن جس ملک کا عدالتی نظام عوامی سطح پر زیر بحث ہونا شروع ہوجائے وہ ملک بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ عدالتوں کی عزت و تکریم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ مگر کیا ہے کہ دنیا بھر میں عدالتوں نے جب بھی کبھی سیاسی مقدمات سننا شروع کیے ہیں نقصان صرف عدالتوں کا ہوا ہے۔
ہمارے ارباب اختیار کو یہ بات اپنے پلے باندھ لینی چاہیے کہ لوگ اداروں سے ڈرتے نہیں ہیں بلکہ ان کا احترام کرتے ہیں اور اس احترام کے پیچھے بھرم ہوتا ہے وگرنہ کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس لیے کہ جرم سزاؤں سے کم نہیں ہوتے، معاشرے میں عدل سے ختم ہوتے ہیں ۔ عدالتوں کا احترام خوف سے قائم نہیں ہوتا، عدالتوں کے مبنی بر انصاف فیصلوں سے ہوتا ہے توہین عدالت کی سزا سے عدلیہ کے احترام میں اضافہ نہیں ہوگا۔