نتائج مثبت کیوں نہیں آسکتے

آگے صرف اندھیرا اور معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے والوں کی فوج ظفر موج ہی نظر آرہی ہے۔


نجمہ عالم February 23, 2018
[email protected]

ISLAMABAD: وطن عزیز میں نظام اسلام کے مکمل نفاذ کے لیے بڑی سرگرمی اور جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی بات کو بنیاد بناکرکچھ عناصر احتجاج، دھرنا، جلسے جلوس کی شکل میں امن عامہ کے لیے مسائل کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک خداداد اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا مگر کسی بھی اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں پر زندگی تنگ کرنا بھی تو اسلامی طرز حکمرانی نہیں ہے ۔

بانی پاکستان نے اس بات کو اپنے خطبات وگفتگو میں مکمل طور پر واضح کردیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تمام باتوں کو پس پشت ڈال کر وہ لوگ جو اس مسلم ریاست کے قیام ہی کے مخالف تھے اس ملک کے جائز اور حقیقی وارث بن گئے۔کون بانی پاکستان ؟ کیسی تحریک آزادی؟

پوری تاریخ کو اپنے مخصوص اذہان کی رو بلکہ سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت بدل ڈالا گیا۔ وسعت نظر روشن خیالی اور احترام انسانیت کو خارج از اسلام قرار دے دیا گیا اور کئی پلیٹ فارمز سے خدمت اسلام اور ''باطل'' کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا۔ عالم یہ کہ ذرا انسان کی زبان پھسلی اور اس پر فوراً الزام عائد ہوا۔

گزشتہ دنوں ایک اہم مذہبی مسئلے پر قانون میں مبینہ لفظی ردو بدل کہ جس کو فوراً ہی دور کردیا گیا تھا پھر بھی بے حد اہم اور حساس مقام پر دھرنا دیا گیا حکومت کو گھیرنے اور عوام کی روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کیا گیا کئی افراد بھی جان سے گئے۔ دھرنا تو ختم ہوگیا مگر اب تک اس دانستہ و نادانستہ غلطی کو فراموش نہیں کیا گیا۔ اب تک یہی کہا جا رہا ہے کہ اس میں جن عناصر کا ہاتھ تھا انھیں سامنے لایا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ بے شک یہ ایک غیر ذمے دارانہ حرکت تھی، مگر جب اس کا فوراً تدارک کردیا گیا تو اب اس کے پیچھے پڑ جانا بھی کوئی خدمت نہیں۔

تاریخ اسلام اور حیات طیبہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو حیات رسولؐ میں ایک نہیں کئی ایسے واقعات مل جائیں گے کہ جب دانستہ و نادانستہ اسلامی احکامات سے روگردانی کی گئی، مگر حضور ختمی المرتبتؐ نے ان لوگوں سے غلطی تسلیم کرنے پر درگزر فرمایا اور دوسروں کے سامنے انھیں شرمندہ کرنے سے بھی گریز فرمایا۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام میں عفو و درگزر کی کس قدر اہمیت ہے یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔

جب ہم جیسے کم علم اسلامی روح و فلسفہ کی حقیقت سے کتاب خدا اور حیات طیبہؐ کے مطالعے کے ذریعے آگاہ ہوسکتے ہیں تو تعجب ہے کہ جو حضرات خادمین اسلام اور مذہبی رہنما ہیں جنھوں نے علم قرآن اور حدیث و فقہ کو بطور سند خاص طور حاصل کیا ہے تو ان کی نظر سے اسلام کی حقیقی روح کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہے؟ یا پھر یہ کہا جائے(بے حد معذرت کے ساتھ) کہ حقائق کو اپنے انداز اور طرز فکر کے مطابق پیش کرکے کیا مقصد مدنظر ہوتا ہے؟ علما اور رہنماؤں (حاکم وقت) پر عام آدمی سے زیادہ معاشرے کو بے راہ روی اور تنزل سے بچانے کی ذمے داری اسلام نے عائد کی ہے ان سے روز محشر اس بارے میں ضرور پوچھا جائے گا کہ جب علم و ہدایت تمہارے پاس آچکا تھا تو تم نے لوگوں سے حقائق کیوں پوشیدہ رکھے؟

حال ہی میں پنجاب میں کئی خواتین (لڑکیوں) کی ریڑھ کی ہڈی سے مواد (بون میرو) دھوکہ دے کر نکالنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ان لڑکیوں کو عمدہ جہیز کا لالچ دیا گیا اور ان کی کمر سے یہ مواد نکال لیا گیا ان متاثرہ خواتین نے جہیز کی خاطر اور اپنی کم علمی کے باعث بخوشی اس صورتحال کو قبول کرلیا۔ اب اگر اس واقعے یا سانحے پر سرسری سی بھی نظر ڈالی جائے تو ان بدنصیبوں کے لیے جہیز اتنا اہم تھا، جانے کب سے جہیز مہیا نہ ہونے کے باعث وہ والدین کی دہلیز سے پیا دیس جانے کے صرف خواب دیکھتی رہی ہوں گی، مگر تعبیر دور دور نظر نہ آنے پر وہ اس دھوکے میں آگئیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جہیز کی اسلام میں کوئی حیثیت ہے؟ جو لوگ نظام اسلام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں کیا انھوں نے معاشرے کو اس عظیم نظام کے لیے بنیادی طور پر تیار کیا ہوا ہے؟ خواتین کو حق رائے دہی سے محروم، معاشرتی بہبود سے دور رکھنے بلکہ گھروں میں مقید کرنے کو عین اسلام قرار دینے والے جانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام وہ واحد دین ہے جو ہر دور، ہر علاقے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے تا قیامت رہنے کے لیے آیا ہے اسلام میں ہر دور کا ساتھ دینے کی اعلیٰ خصوصیت موجود ہے، اسلام کفایت شعاری اور سادگی پسند دین ہے اس میں جہیز جیسی لعنت کی گنجائش کہاں ہوسکتی ہے؟ جس جہیز کا ذکر مختلف روایات میں کیا جاتا ہے کہ حضور ختمی المرتبتؐ نے اپنی بیٹی بی بی فاطمہؓ کو دیا آخر اس کی تاریخی حقیقت لوگوں کے ذہن نشین کیوں نہیں کرائی جاتی؟

حقیقت یہ ہے کہ حضورؐ نے اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں دیا تھا بلکہ حضرت علی کرم اللہ سے ان کی زرہ فروخت کروا کر اس رقم سے آپؐ نے ایک گھر کی جو بنیادی ضروریات (وہ بھی بے حد معمولی) ہوتی ہیں نہ صرف وہ مہیا فرمائیں بلکہ حضرت علیؓ سے ایک ہجرے (کمرے) کا گھر بنانے کی ہدایت بھی فرمائی (تاریخ میں زرہ کی قیمت اور مہیا کیے گئے سامان کی تفصیل موجود ہے) البتہ حضورؐ نے اسی رقم میں سے اپنی بیٹی کو ایک نیا لباس بھی بنواکر دیا تھا۔ جب اگلے روز حضورؐ بیٹی سے ملنے گئے تو انھیں پرانے کپڑوں میں دیکھ کر فرمایا فاطمہؓ! میں نے تمہیں نیا لباس دیا تھا ،اس کا کیا ہوا؟ پیکر عصمت و طہارت اسلامی طرز حیات سے آشنا بیٹی نے بصد احترام عرض کیا۔ بابا جان! وہ میں نے راہ خدا میں ضرورت مند کو دے دیا ہے تاکہ میرا رب مجھ سے راضی رہے۔ ابھی تو میرا یہ لباس بھی قابل استعمال ہے۔

ہمارے علما و رہنما لوگوں کو اس حقیقت سے آشنا نہیں کرتے بلکہ بڑے بڑے عالم دین اپنی بیٹیوں کو جہیز میں گھر، گاڑی، زیور اور بے شمار قیمتی لباس دیتے اور اسے جائز سمجھتے ہیں۔ جب کہ ان کا فرض ہے کہ نماز روزے اور دیگر ارکان دین کی طرح جہیز کے اس تصور کو کہ ضروریات زندگی کو پورا کرنا لڑکی کے والدین کی نہیں بلکہ خود لڑکے کی ذمے داری ہے معاشرے میں رائج کیا جائے بلکہ امیر و غریب سب کو جہیز نہ دینے کا پابند بنایا جائے تو نہ صرف شادی جو ایک مسئلہ بن چکا ہے وہ حل ہوجائے بلکہ ساتھ ہی خواتین کی عزت و احترام جو فی الحال جہیز کی کمی و بیشی سے مشروط کیا ہوا ہے کو بھی بحال کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے معاشرتی انحطاط پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے مگر اس پہلو پر توجہ نہیں دی جاتی کہ جس معاشرے میں عورت کو حقیر کم فہم اور جاہل سمجھا اور رکھا جائے اس معاشرے کو سنوارنے کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے نتائج مثبت نہیں آسکتے۔ اس مسئلے پر خواتین کے حقوق کے علمبرداروں نے ضرور کچھ کیا ہے مگر مذہبی مفکرین کی جانب سے ایسے اقدامات کی کھل کر اور پرزور تائید نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔

جب تک جہیز کی لعنت معاشرے سے مکمل طور پر ختم نہیں کی جاتی اس قسم کے واقعات پیش آتے رہیں گے بلکہ بعض حالات میں تو عزت و آبرو تک داؤ پر لگا دی جاتی ہے۔ غریب طبقہ جو دو وقت کی روٹی کے لیے دن رات محنت کرتا ہے وہ ان خرافات کا کیونکر متحمل ہوسکتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ جو غریب و نادار، استحصال زدہ طبقے کی پشت پناہی کرنے والے ہیں جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ان میں عالمی شہرت یافتہ عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیت بھی اب ہمارے درمیان نہیں اور ان کا نعم البدل بھی کوئی نہیں۔ مثبت سوچ رکھنے والے رفتہ رفتہ ختم ہوتے جا رہے ہیں آگے صرف اندھیرا اور معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرنے والوں کی فوج ظفر موج ہی نظر آرہی ہے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ غیر متعصب، غیر جانبدار اور روشن خیال طبقہ اپنے بقا کی جنگ جیت کر سرخرو ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں