منتخب حکومت کے 5 سال کیا کھویا کیا پایا 1
ایک غور طلب نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی مخصوص حکومت کو جمہوریت کے ساتھ غلط طریقے سے گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔
اس بات پر خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ سبکدوش ہونے والی پارلیمنٹ نے اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کرلی ہے، مگر بہت سے لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ جمہوریت نے عوام کو کیا دیا ہے۔ یہ ایک بالکل جائز سوال ہے مگر غلط طریقے سے کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ پی پی کی زیر قیادت مخلوط حکومت نے گزشتہ پانچ سال کے دوران عوام کو کیا دیا اور کیا دینے میں ناکام رہی۔ جمہوری نظام کی اچھائی پر سوال اٹھانے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر فوجی آمریت ہوتی تو ہمارے لیے بہتر تھا، اور مسائل کے اس انبار کو فراموش کردیا جائے جو کہ فوجی حکومتیں، منتخب حکومتوں کے لیے چھوڑ گئیں تاکہ وہ ان کو حل کریں۔
صحیح جواب حاصل کرنے کے لیے پانچ سال کے معاشی، سیاسی اور طرز حکمرانی کے گوشوارے کا غیر جذباتی انداز میں تجزیہ کرنا مناسب ہوگا۔ اب جب کہ ہم اگلے انتخابات کے مرحلے میں داخل ہورہے ہیں، سیاستدانوں، سیاسی سائنس دانوں، ماہرین معاشیات اور صحافیوں سے امید ہے کہ وہ عوام کو تعلیم دینے کے لیے معروضی انداز میں تجزیہ کریں گے۔ یہ وضاحت خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اگر جمہوریت کے پنپنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو وہ اپنی ارتقائی منازل طے کرے گی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اہم فیصلے کرنے کے لیے سیاسی حکومت کو کبھی مکمل اختیار نہیں دیا۔
خوش قسمتی یہ ہے کہ سیاست دانوں نے، جو کئی بار مداخلت کار اسٹیبلشمنٹ کو دیکھ چکے ہیں اب بالغ نظر ہوچکے ہیں، یہ عہد کر رکھا تھا کہ اس بار جمہوریت کی بساط کو لپیٹنے نہیں دیا جائے گا۔ اس کا باقی کریڈٹ کسی کو نہیں صرف پر آشوب سیاسی صورت حال کو جاتا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ بری طرح سے پھنسی ہوئی ہے اور اسے اپنے اقدامات کی حمایت کے لیے سیاستدانوں کی ضرورت ہے۔
ایک غور طلب نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی مخصوص حکومت کو جمہوریت کے ساتھ غلط طریقے سے گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ جمہوریت ایک نظام ہے جو حکومت اور حزب اختلاف کو منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور اگر وہ اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتیں تو انھیں ہٹایا جا سکتا ہے، جیسا کہ آئین میں درج ہے۔ آئین ایک ایسی متفقہ دستاویز ہے جو کسی بھی معاشرے میں اس نظام کی رہنمائی کرتی ہے۔ حالات کی صحیح تصویر دیکھنے کے لیے توقف کیجیے اور اس معاشرے کا جائزہ لیجیے جس میں ہم رہتے ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے بھی انھی کالموں میں کہہ چکا ہوں، اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ معاشی اور سماجی اعتبار سے پاکستانی معاشرہ، کئی ڈھانچوں پر استوار اور کثیر النسلی و لسانی معاشرہ ہے۔ کسی بھی ملک میں سماج کے ڈھانچے کا براہ راست تعلق جمہوریت حتیٰ کہ آمریت کی سطح سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے بیشتر ناقدین اس ٹھوس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں اور بے شمار لوگ ایسے ہیں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ کم شرح خواندگی اور سماج کے قبائلی و نیم جاگیردارانہ ڈھانچے کے پیش نظر اس ملک کے لیے جمہوریت موزوں نہیں ہے۔ یہ سوچ شہروں میں رہنے والے متوسط طبقے کی فکری برتری کا نتیجہ ہے اور پاکستان کی 60 فیصد دیہی آبادی کی توہین ہے۔ جزوی طور پر منصفانہ انتخابات کی تاریخ بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ لوگوں نے ایسی سیاسی جماعتوں اور ان کے مقامی رہنمائوں کو ووٹ دیا جنھیں وہ اپنے لیے سود مند سمجھتے تھے۔
حال ہی میں اپنی مدت پوری کرنیوالی منتخب حکومت کی زیادہ تر توانائی مختلف اداروں کے مابین رسہ کشی کی نذر ہوگئی۔ مگر اقتدار کے ڈھانچے میں زیادہ گنجائش کے لیے یہ کھینچا تانی جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ دوسرے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ ریاستی اقتدار کے معمول کے اداروں کے درمیان کشمکش نے جمہوری نظام کو جو ابھی افزائش کے ابتدائی مرحلے میں ہے مستحکم نہیں ہونے دیا۔ بہت سے دوسرے ملکوں کے بر عکس جہاںجمہوریت پروان چڑھ چکی ہے، پاکستان میںبعض ادارے ایک بالادست قوت ہیں اور وہ کسی بھی سویلین حکومت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکارکرتے رہے ہیں۔ اس محرک نے جمہوریت کی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کردار ادا کیا جس سے خرابیاں پیدا ہوئیں۔
منتخب حکومتوں کو ورثے میںآمروں کی طے کردہ پالیسی ملی جو بھارت کے خوف کی وجہ سے ہمیشہ ملک کی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن کے گرد گھومتی تھی۔ اس نے ملک کو علاقائی تنازعات میں الجھا دیا، جس کے سماجی، معاشی اور سیاسی اعتبار سے تباہ کن نتائج نکلے۔ اگر پاکستان کے حکمران اس ملک کی جغرافیائی پوزیشن کو معاشی ترقی کے لیے استعمال کرتے تو اس سے پاکستان اور پورے خطے کے عوام کو بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوتا۔ جب بھی جمہوری حکومت نے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، اسے جہادی تنظیموں نے سبوتاژ کردیا۔ نواز شریف کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ صدر زرداری نے جو کوششیں کیں بعض عناصر نے ممبئی حملے کے ذریعے ان پر پانی پھیر دیا۔
جمہوریت کی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ لگانے کے لیے عالمی اور تاریخی پس منظر اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت میں 90 کی دہائی میں بہت سی حکومتیں تبدیل ہوئیں کیونکہ اتحاد ٹوٹتے رہے۔ اس کے باوجود کسی نے جمہوریت کی تاثیر پر کوئی سوال نہ اٹھایا اور آئینی طریقہ کار پر عمل ہوتا رہا۔ برطانیہ کی قدیم ترین جمہوریت بھی ان تکلیف دہ مراحل سے گزر رہی ہے۔ اسے اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے سوال کا سامنا ہے۔
انھوں نے اس معاملے پر ریفرنڈم کرانے کی پیشکش کی ہے، جیسا کہ کینیڈا کی حکومت نے کیوبک کے معاملے پر کیا تھا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ قومی یک جہتی کی حفاظت کے لیے برطانوی فوج بھیجی جائے گی اور نہ فوج نے حکومت کا تختہ الٹا۔ تنازعات اور اختلاف رائے کو طے کرنے کا یہ مہذب اور جمہوری طریقہ ہے، جو اس طریقے کے سراسر برعکس ہے جس پر ہماری اسٹیبلشمنٹ بلوچستان میں عمل کر رہی ہے۔ اگر یہ معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑ دیا جائے تو اسے بلوچ باغیوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی اعتبار سے جمہوریت نے کیا دیا؟ اس نے سیاست دانوں کی کوششوں سے ایک آمر کو بغیر کسی خون خرابے کے باہر کرنے میں مدد دی۔ 18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے، مرکز سے صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منتقلی کی جانب بہت اہم پیش رفت کی گئی۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو پچھلے 64 سال میں انجام نہیں دیا جاسکا تھا۔ منتخب حکومت کو چلتا کرنے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے یک طرفہ صدارتی اختیارات ختم کردیے گئے۔ آزادی صحافت، جسے بعض لوگ جمہوریت سے اپنی مایوسی ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اسی جمہوریت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ حزب اختلاف، جو کسی بھی جمہوری انتظام کا حصہ ہوتی ہے، پارلیمنٹ اور اس کے باہر اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ نے جس کا بنیادی کام قانون سازی ہے، 134 قوانین کی منظوری دی، اور ان میں سے زیادہ تر اپوزیشن کے اتفاق رائے سے منظور کیے گئے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔ (جاری ہے)