سڑک
اس آٹھ فٹ چوڑی سڑک پر کبھی کوئی حادثہ نہیں ہوا۔
LONDON:
سڑک بہت پتلی سی تھی، بمشکل آٹھ فٹ چوڑی، مگر جاتی بہت دور تک تھی۔ ایک ہی بس اس لمبی مگر پتلی سڑک پر چلتی تھی۔ اگر کبھی ایسا ہوتا کہ آمنے سامنے سے دو بسیں کراس کرتیں، تو دونوں بسوں کو چار فٹ کچے میں اترنا پڑتا تھا، اور کراس کے بعد دونوں بسیں پھر سڑک پر آجاتیں، دونوں بسوں کے مسافر کراسنگ کے دوران ایک جانب لڑھک جاتے، بعض مسافر رات کی ڈیوٹی کے بعد بسوں میں سو جاتے اور اچانک بس کے جھکنے پر ساتھ بیٹھے مسافر پر گر جاتے۔
''ارے بھائی! سنبھل کر بیٹھو!'' ساتھ بیٹھا مسافر دوسرے مسافر کو دھکیلتے ہوئے کہتا اور سویا ہوا مسافر معذرت خواہانہ نظر ساتھی مسافر پر ڈالتے ہوئے سنبھل کر بیٹھ جاتا، اور پھر نیند میں جھولنے لگتا۔ کبھی دائیں کبھی بائیں تو کبھی آگے۔ پیچھے تو سیٹ کی پشت تھی، جس سے ٹکرا کر مسافر کی نیند اکھڑ جاتی اور وہ ذرا دیر کے لیے جاگ جاتا، اور دوسرے ہی لمحے پھر جھولنے لگتا۔
نیند کے ہنڈولے پر سوار بس میں بیٹھا وہ اکیلا مسافر نہیں تھا، ایسے اور بھی مسافر تھے۔ رات بھر پریس کی مشین چلانے والا رئیس، بینک کا چوکیدار لال خان، مچھلی فروش صدیق ملاح اور صدیق ملاح کے ساتھ اس کی ٹوکریاں بھی سیٹ کے نیچے پڑی تھیں، جن سے اٹھنے والی مچھلی کی بساند پوری بس میں پھیلی ہوئی تھی، مگر رات کی ڈیوٹی والوں کو یہ بساند بھی تنگ نہیں کررہی تھی۔ بس کے اگلے حصے میں مہترانیاں اپنے جھاڑو سیٹوں کے نیچے رکھے سوار تھیں۔ باقی عورتیں فیکٹریوں میں کام کرنے والی تھیں۔
بس کے مسافر ایک ہی کلاس کے تھے، جنھیں غریب کہا جاتا ہے۔ مچھلی بساند یا گندے جھاڑو ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے۔ خود ان کے وجود اور ان کے لباس بھی ایسے ہی بساندھ زدہ تھے اور جہاں ان مسافروں کو جانا ہے وہ گھر، وہ بستیاں، وہ محلے بھی بساندھ میں رچے بسے، ان کے گھر سیلن زدہ، کائیاں لگی بوسیدہ دیواریں، اندھیرے کمرے، کچن صحن میں سے گزرتی گندے پانی کی نالی، اس میں بہتا گند، وہیں صحن میں ایک طرف گھڑونجیوں پر پڑے دو مٹکے، جن میں پانی بھرا ہے پینے کا۔
مٹی کے مٹکے پانی کا میل کچیل خود اپنے وجود میں جذب کرلیتے اور صاف نتھرا ہوا پانی ذرا احتیاط سے پلٹوئی سے نکال کر پیا جاتا۔ باقی اللہ کے سپرد۔ ویسے ہی جیسے ملک کا سارا نظام اللہ ہی کے سپرد ہے۔
چلو جی! ملک کے نظام کو چھوڑو، بس کا ذکر کرتے ہیں۔ بس میں غلام حسین قصاب بھی بیٹھا ہے، بوچر خانے میں گائے، بیل اور بھینسیں گرا کر آیا ہے۔ ہاتھ پاؤں ابھی بھی خون میں سنے ہوئے ہیں، کپڑے بھی جگہ جگہ خون سے رنگین ہیں، وہ بھی اسی حالت میں سیٹ پر بیٹھا ہے، اس کے ساتھ محمد حسین بیٹھا ہے جو شہر کے بڑے کلب میں مالی ہے۔ دن رات پھولوں کے اور کلب کے خوشبودار ممبران کے ساتھ رہنے پر بھی وہ غلام حسین قصاب کے ساتھ بس میں دو سیٹوں والی سیٹ پر چپک کر بیٹھا ہے۔
یہ بس جس روٹ پر چلتی ہے ادھر سارے راستے سڑک کنارے غریبوں کی بستیاں آباد ہیں، شہر کے رؤسا کا اس روٹ پر کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بس شہر کے مرکز سے چلتی ہے تو ذرا دیر کو چند کوٹھیاں نظر آتی ہیں اور بس پھر لمبا سفر ہے، ویرانہ ہے، جنگلی جھاڑیاں ہیں، فوجی بیرکیں ہیں یا سڑک کے ساتھ ساتھ ذرا فاصلے پر ریل کی پٹڑی ہے۔ جو ملک کے دوسرے شہروں کی طرف جاتی ہے۔
اس آٹھ فٹ چوڑی سڑک پر کبھی کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ دن میں چار بسیں شہر کے مرکز سے چلتی ہیں اور دو گھنٹے چلتے چلتے اپنے آخری اسٹاپ پر پہنچ جاتی ہیں، یہی چار بسیں اپنے آخری اسٹاپ سے مسافروں کو شہر بھی لاتی ہیں۔
اس روٹ پر فوجی بیرکوں پر مسافر اترتے چڑھتے ہیں۔ یہ وہ مسافر ہیں جنھیں فوجی بیرکوں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنا ہے۔ گلیوں، رستوں میں جھاڑو دینے والے جمعدار، جمعدارنیاں، گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں، اگلا اسٹاپ ایک عیسائی آبادی کا ہے۔ یہاں کے اکثر مسافر عورتیں مرد، لڑکے لڑکیاں نرس ہیں۔ بس اسٹاپ پر اتر کر انھیں ریلوے لائن کے پھاٹک سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر سامنے ان کی عیسائی بستی ہے۔ اس عیسائی بستی میں اکا دکا مسلمان، ہندو بھی رہتے ہیں، سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچ بھی آباد ہیں۔ مگر یہاں کبھی فساد نہیں ہوا۔
یہاں سے آگے لگاتار پھر غریب بستیاں ہیں، کئی غریب بستیاں، جہاں لٹ لٹا کر آنے والے آباد ہیں۔ وہ نئے وطن کی چاہ میں اپنا سب کچھ لٹا کر ''ادھر'' آگئے۔ ادھر بھی وہ کچھ زیادہ اچھے حالوں میں نہ تھے۔ مگر وہ بہرحال سب چھوڑ آئے۔ اسی روٹ پر ساری غریب بستیاں بالآخر سمندر پر ختم ہوتی ہیں۔ جہاں مچھیروں کی بستی ہے۔ سمندر کے ساتھ، صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ یہ سمندر جسے اپنے ساتھ رکھ لے پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ مچھیروں کی کشتیاں، بادبان، جال، لنگر کھلے پڑے رہتے ہیں۔
مگر اب 60 یا 70 سال گزرنے کے بعد یہ روٹ، وہ روٹ نہیں رہا۔ صرف 8 فٹ چوڑی پتلی سڑک اب کہیں 360 فٹ تو کہیں 200 فٹ چوڑی سڑک بن گئی ہے۔ وہ جنگلی جھاڑیاں، وہ ویرانیاں، وہ اندھیرے نہیں رہے۔ یہ بہت چوڑی اور وہی لمبائی والی سڑک اب دن رات جگ مگ کرتی ہے، مگر اس جگ مگ جگ مگ کرتی سڑک پر بہت سی مائیں، اپنے لال گنوا بیٹھیں، بہت سے باپ اپنے سہاروں کے ''انتظار'' میں راہ تکتے رہ گئے۔ ''کالے پانیوں'' کی کالی گاڑیاں بہت سے جوان کھا گئیں۔
اس پتلی سی سڑک نے پھیل کر اتنے خون دیکھے ہیں کہ اب یہ روٹ یہ سڑک کالی کے ساتھ ساتھ خون آلود سرخ بھی نظر آتی ہے۔ اب اس روٹ پر شاہانہ عمارتیں ہیں، اونچی اونچی عمارتیں، اب کہیں کسی بس میں وہ پیار کی مہک، خوشبو نہیں رہی۔
اب در و بام سے حسرت سی ٹپکتی ہے قتیلؔ
جانے کس اور گئے پیار نبھانے والے