صرف مشورہ…

لہٰذا ہمارا پرخلوص مشورہ الطاف بھائی کو یہی ہے کہ وہ جناب نبیل گبول کو بھی پہلے پارٹی کی خدمت کا موقع دیں۔


نجمہ عالم March 28, 2013

انتخابات تقریباً سر پر آگئے ہیں، سیاسی منظرنامہ بدل رہا ہے اور سیاستدان نئے چولے تبدیل کرنے میں مصروف ہیں، الیکشن کمیشن کے احکامات کبھی متوقع اورکبھی غیر متوقع طور پر سامنے آرہے ہیں۔

سیاستدانوں کے حوالے سے خبر اگرچہ کچھ پرانی ہے مگر تبصرہ تو کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے کہ ''نبیل گبول صاحب اپنی بے حد چہیتی PPP کو چھوڑ کر ایم کیو ایم میں شامل ہوگئے ہیں'' ایم کیو ایم نے بھی انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا ہے بے حد عزت و احترام کیا گیا، اگلی خبر کے مطابق ایم کیو ایم انھیں عزیز آباد سے پارٹی ٹکٹ دے رہی ہے۔ جہاں سے ان کی کامیابی یقینی ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ وہ پارٹی جس نے نبیل گبول کو پانچ بار اسمبلی کا ممبر بنوایا اور وہ اپنی محبوب پارٹی سے رخصتی سے صرف چار پانچ دن قبل ہی کسی پروگرام میں دل و جان سے اپنی محبوبہ کا نہ صرف دفاع کر رہے تھے بلکہ گن بھی گارہے تھے۔

اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اس میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی بلکہ عشق و جنگ کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ عشق اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مگر قلب ماہیت کا کچھ نہ کچھ تو سبب ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی پس منظر تو ہوتا ہی ہوگا۔ اتنا عرصہ پی پی پی کے ساتھ خلوص کے ساتھ کام کرکے اس کا صلہ نہ ملنا، اپنی قیادت سے مایوس ہوجانا، کوئی نظریاتی اختلاف غرض یہ کہ اس تبدیلی کا کوئی نہ کوئی تو جواز ہوگا۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت کا مخلص اور بے لوث ہونا، پارٹی کا بے مثال نظم و نسق، کارکنان کا جذبہ وفاداری اور ایثار اور اپنی پارٹی پالیسی پر بھرپور اعتماد۔ بہر حال کچھ تو ہے جو اس تبدیلی کی وجہ بنی۔

مگر ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ ایم کیو ایم جن نشیب و فراز سے گزر کر آج ایک قابل اعتبار، ناقابل تسخیر اور ہر سطح پر بے حد منظم و فعال جماعت بنی ہے اس میں ان کے پرخلوص کارکنان بطور خاص خواتین کا بڑا اہم کردار ہے ( جس کا اعتراف الطاف حسین بھی کئی بار کرچکے ہیں)۔ اس پارٹی پر وہ وقت بھی گزر چکا ہے کہ جب بدترین ریاستی جبر کے نتیجے میں خواتین کو جنازے تک اٹھانے پڑے۔ ایسے ہی کارکنان کسی بھی سیاسی جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں اور بے حد خوش نصیب ہیں وہ پارٹیاں جن کو ایسے کارکنان میسر آجائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کارکن بھی کسی واضح نصب العین، کھرے اور مخلص قائد کے ہی گرد جمع ہوتے ہیں۔

باقی سب تو خود ساختہ قائد ہیں جن کی نظر میں مقصد بعد میں اقتدار پہلے رہتا ہے اور وہ کسی بھی صلے و ستائش کی پرواہ کیے بغیر رات دن اپنی جماعت کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ ان کا صلہ صرف اور صرف پارٹی کی نظریاتی بنیاد اور نصب العین ہوتا ہے۔ اگر اس بنیاد میں کہیں بھی ریاکاری، بناوٹ، دکھاوا یا نمائش کا عنصر غالب آجائے تو کارکنان بد دل ہوجاتے ہیں۔ واضح مقاصد رکھنے والی پارٹی کے کارکن اسمبلی کی سیٹ، کسی پرمٹ، کسی مالی فائدے کے لیے کام نہیں کرتے، وہ صرف اپنے مقاصد کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں اور بس۔ اپنے لیے نہیں پوری قوم اور اپنے وطن کے فوائد کے لیے۔

تو اب ہمارا کہنا یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو کئی بار اسمبلی کا حصہ رہا مندرجہ بالا کسی بھی وجہ سے اپنی پرانی جماعت چھوڑ کر نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اس نئی جماعت میں فوراً کیسے ٹکٹ کا حقدار بن سکتا ہے؟ اس نئی پارٹی کے اصول و ضوابط، نظم و نسق کو اپنی روح میں اتارنے کے لیے کم ازکم دو تین نہیں تو کم ازکم ایک سال تو اس کو ایک عام کارکن کی حیثیت سے پارٹی کی بلا صلہ و ستائش خدمت کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس پارٹی میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو عرصے سے نہ ہی برسوں سے عام کارکن کی حیثیت سے پارٹی کی پرخلوص خدمت کر رہے ہیں اور وہ ان نوواردان سے زیادہ پارٹی ٹکٹ کے حقدار ہیں۔

لہٰذا ہمارا پرخلوص مشورہ الطاف بھائی کو یہی ہے کہ وہ جناب نبیل گبول کو بھی پہلے پارٹی کی خدمت کا موقع دیں اور پھر اسمبلی میں جانے کا۔ کیونکہ وہ تو کئی بار یہ مزے لوٹ چکے ہیں اگر ایک بار رہ گئے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ مگر جو کبھی اسمبلی کی عمارت کے قریب سے بھی نہیں گزرا اس کو بہت زیادہ اور مثبت فرق پڑتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔