چاچا ایف ای چوہدری کی سنہری یادیں

چاچا چوہدری بیان کرتے ہیں کہ میری تاریخ پیدائش 15 مارچ 1909ہے اور میں سہارن پور (اتر پردیش) بھارت میں پیدا ہوا۔


Saeed Parvez March 26, 2013

پاکستانی صحافت کے سینئر ترین پریس فوٹو گرافر ایف ای چوہدری 15 مارچ 2013 بروز جمعہ انتقال کر گئے۔ جمعہ 15 مارچ کو ان کی 104 ویں سالگرہ تھی جسے منانے کے لیے ان کے دوستوں نے باغ جناح لاہور میں اہتمام کر رکھا تھا اور خود چاچا بھی جمعرات کو اپنے دوستوں کو فون کر کے سالگرہ میں آنے کی دعوت دیتے رہے کہ اچانک اگلے روز عین سالگرہ کے دن ان کا انتقال ہو گیا۔

ایف ای چوہدری صاحب کا اصل نام فضل الٰہی چوہدری تھا۔ ان کا ایک طویل اور یادگار انٹرویو جو روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے ایڈیشن میں 9 اپریل 2006 کو شایع ہوا تھا، اس انٹرویو کو میں نے بہت سنبھال کے رکھا ہوا تھا۔ آج سات سال پہلے کا ایکسپریس سنڈے ایڈیشن میں نے ڈھونڈ کر نکالا اور اس میں درج چاچا چوہدری کی خاص خاص باتیں نذر قارئین کر رہا ہوں، کیونکہ یہ باتیں ان کے بہت قریبی لوگوں کو بھی یاد نہیں ہوں گی۔ چاچا چوہدری کے ساتھی تو سبھی اگلے جہان جا چکے۔ اب شاید ہی کوئی زندہ ہو تو ہو۔

چاچا چوہدری بیان کرتے ہیں کہ میری تاریخ پیدائش 15 مارچ 1909ہے اور میں سہارن پور (اتر پردیش) بھارت میں پیدا ہوا۔ 1924 میں فوٹوگرافی کا آغاز کیا۔ اس وقت میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میری بنائی ہوئی پہلی تصویر 1935 میں سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شایع ہوئی۔ میں نے اپنی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ٹیلی لینز کیمرہ بھی خود بنایا تھا۔ ساتھ ساتھ فوٹو گرافی پر بے شمار کتابیں اور مضامین بھی پڑھے۔ قیام پاکستان سے قبل لاہور میں راج گوپال کا بڑا شہرہ تھا جس نے ''چترا کوٹیز'' کے نام سے اسٹوڈیو بنایا ہوا تھا، اسے آپ پہلی فوٹو نیوز ایجنسی کہہ سکتے ہیں۔

دوسرا میرا اسٹوڈیو تھا جو ریگل چوک (حبیب جالب چوک) کے قریب امپیریل بک ڈپو کے اوپر تھا۔ راج گوپال کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے چاچا چوہدری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض نے مجھے کہا کہ قائد اعظم کی کچھ تاریخی تصاویر چاہئیں۔ میں نے کہا اصل مال تو راج گوپال کے پاس ہے، اس سے منگوا لیتے ہیں۔ دہلی اسے چٹھی لکھی تو اس نے تصویریں بھیج دیں، لیکن کسٹم والوں نے اس پر دو سو روپے ٹیکس لگا دیا۔ انھیں بڑا سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ قائداعظم کی تصاویر ہیں اور کمرشل استعمال کے لیے نہیں ہیں، مگر دو سو روپے نہ ہونے کی وجہ سے وہ قیمتی تصاویر واپس بھارت چلی گئیں۔

اپنے دور کا ذکر کرتے ہوئے چاچا چوہدری نے بتایا کہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض بھی سائیکل پر دفتر آیا کرتے تھے اور میرے پاس بھی سائیکل تھی، جس پر پورے لاہور کے فنکشن کور کیا کرتا تھا۔چاچا ایف ای چوہدری نے بڑی پاک صاف صحافتی زندگی گزاری، جب جنرل ایوب گورنمنٹ نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کیا تو ادارے کے مالک میاں افتخار الدین کو ان کے گھر پر نظربند کر دیا گیا۔ ایڈیٹر مظہر علی خان نے بھی کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ اب پرنٹ لائن پر ان کا نام نہ چھاپا جائے۔

مظہر علی خان نے کہا کہ قدرت اﷲ شہاب اداریہ لکھ سکتے ہیں تو باقی کام بھی کر سکتے ہیں، لہٰذا قدرت اﷲ شہاب کا نام ہی پرنٹ لائن میں شایع کیا جائے (واضح رہے کہ پاکستان ٹائمز اور امروز پر حکومتی قبضے کے بعد پہلا اداریہ قدرت اﷲ شہاب نے "New Leaf" کے نام سے لکھا تھا)۔ مظہر علی خان نے کہا کہ میں ہرگز کام نہیں کروں گا اور آپ مجھے گرفتار کر لیں۔ چاچا چوہدری بتاتے ہیں کہ جب وہ کسی صورت نہ مانے تو پرنٹ لائن پر ایک فوجی افسر کا نام ''ایف۔ آر خان'' بطور ایڈیٹر لکھا گیا۔جنرل ایوب خان کے دور کا ذکر کرتے ہوئے چاچا چوہدری کہتے ہیں ''جب ون یونٹ بنا، تو مسعود صادق بھی وزیر بنے۔

ایک روز انھوں نے مجھ سے کہا ''چوہدری! تم نے تحریک پاکستان میں بڑا کام کیا ہے، تم میرے دفتر آؤ، میں تمہیں مربے الاٹ کر دیتا ہوں، میں نے ہنس کر جواب دیا، مسعود صاحب! اپنے مربے بوتلوں میں ہی رہنے دو۔ چاچا چوہدری کو ایسی ہی بے شمار پیشکشیں ہوتی رہیں، اور وہ ٹھکراتے رہے، ایک وزیر زراعت خان اے رحمٰن ہوتے تھے۔ انھوں نے چاچا سے کہا کہ ہوشیار پور (انڈیا) میں آموں کا باغ ہے، بطور کلیم آپ کو لاہور کے نزدیک آموں کا ایک باغ الاٹ کر دیتا ہوں، چاچا نہیں مانے اور کہا ''میرے کلیم میں صرف چھ کلے زمین نکلی تھی۔

میں نے وہ نہیں لی تو یہ کیسے لے لوں؟ چاچا کہتے ہیں ''سوچتا ہوں اگر اس وقت مربے اور آموں کا باغ لے لیتا، تو میری اولاد بھی تابعداری کے بجائے کلاشنکوف ہاتھ میں اٹھائے پھرتی، آج مجھے خوشی ہے کہ میرے دو بیٹے ایئرفورس میں گئے، سیسل چوہدری 1965 میں بھارت پر ہوائی حملہ کرنے والے سب سے پہلے گروپ میں شامل تھا، اسے ستارہ جرأت ملا۔ انتھونی چوہدری بھی ایئر فورس سے ریٹائر ہوا۔چاچا کے سامنے ریواز گارڈن جیسے سونا علاقے میں صحافیوں کو انگریزوں کے گھر دیے گئے۔ علامہ اقبال ٹاؤن کے جہاں زیب بلاک میں ادیبوں، شاعروں، صحافیوں کو پلاٹ دیے گئے، چاچا نے کچھ نہیں لیا۔

چاچا اپنے دوست معروف صحافی نثار عثمانی کا بھی فخریہ ذکر کرتے ہیں کہ انھوں نے بھی ریواز گارڈن میں پیش کردہ گھر نہیں لیا، نگراں وزیر اعظم ملک معراج خالد نے کہا ''عثمانی صاحب! گھر لے لو'' عثمانی صاحب نے کہا ''نہیں، جہاں میرے صحافی دوست رہیں گے، وہیں رہوں گا''۔ چاچا چوہدری ایک بار اپنے اخبار کے مالک میاں افتخار الدین سے لڑ پڑے اور پاکستان ٹائمز امروز کی نوکری چھوڑ آئے، دوسرے روز صبح ہی صبح میاں افتخار الدین خود اپنی کار میں چاچا کے گھر پہنچ گئے۔ چاچا نے دروازہ کھولا تو سامنے میاں صاحب کھڑے تھے، چاچا نے کہا ''اندر آئیے'' میاں افتخار الدین بولے ''بیٹھنے نہیں آیا، تمہیں لینے آیا ہوں'' اور قصہ مختصر کہ چاچا اپنی شرائط پر دوبارہ اخبار میں شامل ہوئے۔

1964 کے الیکشن جنرل ایوب بمقابلہ مادر ملت کے انتخابی جلسہ منعقدہ موچی دروازہ لاہور کی تصویر بنانے کے لیے حکومتی دباؤ کے تحت ایڈیٹر نے چاچا سے کہا کہ مادر ملت کے جلسے کی تصویر ایسی بنانا کہ لوگ کم نظر آئیں۔ اس بات پر چاچا نے استعفیٰ لکھ دیا جس میں لکھا کہ ایڈیٹر خواجہ آصف مجھے اپنے پیشے سے بے ایمانی کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں جو میں نہیں کر سکتا۔ ایڈیٹر نے استعفیٰ نامنظور کرتے ہوئے چاچا سے کہا ''آپ جو تصویر بنانا چاہیں، بنائیں'' اس زمانے میں پاکستان ٹائمز پر ایوبی حکومت کا قبضہ ہو چکا تھا اور میاں افتخار الدین فوج کے پہرے میں اپنے گھر میں نظربند تھے، چاچا چوہدری نے مادر ملت کے لاکھوں افراد کے جلسے کی تصویر پوری سچائی کے ساتھ بنائی۔

چاچا چوہدری بھٹو صاحب کی لاہور ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا سننے کے بعد واپس جاتے ہوئے کھینچی گئی تصویر کو اپنی یادگار تصویر کہتے ہیں اور قصہ یوں بیان کرتے ہیں ''ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا، معمول کے مطابق میں ہائی کورٹ پہنچا تو دیکھا کہ دوسرے فوٹوگرافر واپس آ رہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ پولیس والے تصویر بنانے نہیں دے رہے اور پھر مجھے کہا چلو واپس چلیں اور چائے پئیں۔ میں نے کہا کہ پابندی کی وجہ پوچھ کے آتا ہوں، میرے دل میں خیال آیا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے، ورنہ روز یہ ہوتا تھا کہ ہم کورٹ کے برآمدے میں کھڑے ہو جاتے، بھٹو صاحب کمرہ عدالت سے باہر نکلتے، ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے، ہم تصویر بناتے اور وہ چلے جاتے، پھر مجھے یہ بھی پتا چلا کہ تصویر نہ کھینچنے کی پابندی کورٹ کے رجسٹرار نے لگائی ہے۔

خیر میں واپس جانے کے بجائے کورٹ کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل کے برآمدے میں گیا اور جالیوں کے سوراخ میں اپنا تیار کردہ ٹیلی لینز پھنسا دیا اور خود زمین پر بیٹھ گیا۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہلچل مچی اور بھٹو صاحب پولیس کے گھیرے میں ہائی کورٹ سے نکلے اور میں نے جلدی جلدی وہ تصویر بنا لی۔ اس موقعے کی یہ واحد تصویر ہے جو میں نے بنائی تھی، پھر خبر بھی آ گئی کہ نواب قصوری کے قتل کیس میں بھٹو صاحب کو سزائے موت سنا دی گئی۔ میں اخبار کے دفتر پہنچا اور ایڈیٹر کو بتایا کہ کن حالات میں، میں نے یہ یادگار تصویر بنائی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں