بچوں سے غفلت مت برتیے
یہ یاد رکھیے کہ بچوں سے زیادتی کے مرتکب 90 فی صد قریبی جاننے والے ہوتے ہیں۔
یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ یہاں ہر وہ عورت غیر محفوظ ہے جو حکمران طبقے سے تعلق نہیں رکھتی۔ یہاں 70 سال کی عورت ہو، 17 سال کی لڑکی ہو یا 7 سال کی زینب، 6 سال کی کائنات یا کوئی اور معصوم بچی، کوئی بھی محفوظ نہیں، جنسی درندگی چاروں طرف سے حملہ آور ہے۔
مغرب کے بعد کوئی عورت اکیلے نکلنے کا یا کہیں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ سب سے زیادہ بد قسمت عورتیں برصغیر میں پائی جاتی ہیں، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان اس میں سر فہرست ہیں۔ بالخصوص پاکستان نمبر ون کی پوزیشن میں ہے۔ ہر جگہ بھیڑیے موجود ہیں، اپنے شکار کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ تو وہ کیس ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہاں عورت ہی نہیں لڑکے بھی محفوظ نہیں، چند سال پہلے قصور ہی میں لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے کیس سامنے آئے تھے۔ شور شرابا ہوا لیکن ملزمان چونکہ با اثر تھے اس لیے رہا ہوگئے۔
بے شمارکیس ایسے ہیں جو بدنامی کے ڈر سے رپورٹ نہیں ہوتے۔ لڑکیاں اغوا ہوتی ہیں، بچے کھوجاتے ہیں، مدرسوں میں اور ہوسٹلوں میں رہنے والے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ معصوم بچوں سے زیادتی کے مجرم خود بھی بچپن میں زیادتی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں، لیکن میرا نہیں خیال یہ مفروضہ درست ہے۔ بہت سے دوسرے عوامل بھی اس میں کار فرما ہیں۔ انٹر نیٹ پر فحش مواد بھرا پڑا ہے۔ جگہ جگہ بند کمروں میں اور مختلف مقامات پر بلو فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔
پیسہ بٹورنے کا یہ آسان طریقہ ہے، جاہل، ان پڑھ اورکم تعلیم یافتہ، بیروزگار نوجوان جب یہ فلمیں دیکھتے ہیں تو جنسی جرائم کی کہانیاں کھل جاتی ہیں۔ میں پھر یہی کہوںگی کہ سب سے بڑا کردار اس میں والدین ہی ادا کرسکتے ہیں جو والدین اسکول جاکر بچوں کی رپورٹ طلب کرتے ہیں ان کی کارکردگی جاننا چاہتے ہیں، اساتذہ بھی ان والدین کی عزت کرتے ہیں۔
یہ یاد رکھیے کہ بچوں سے زیادتی کے مرتکب 90 فی صد قریبی جاننے والے ہوتے ہیں۔ اسی لیے بچے چاکلیٹ یا ٹافی یا چپس کے لالچ میں ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ نہ جانے کتنے لوگ ہوںگے جن کے ساتھ بچپن میں کچھ نہ کچھ برا ہوا ہوگا۔ کسی نے ڈر کے مارے ماں باپ سے بھی چھپایا ہوگا اور کتنے ایسے ہوںگے جن کو ماں باپ نے ڈرا دھمکا کر خاموش کروادیا ہوگا۔ کوئی ڈرائیور، کوئی باورچی، کوئی ملازم، کوئی رشتے دار، کوئی استاد، کوئی مدرسے کا مہتمم یا استاد، کتنی درد ناک کہانیاں چھپی پڑی ہوںگی۔
ایک انڈین ٹی وی چینل پہ سچے واقعات پر مبنی وہ کیس دکھائے جاتے ہیں جو پولیس نے حل کرلیے ہوتے ہیں ان کی ڈرامائی تشکیل حقائق کو سامنے رکھ کرکی جاتی ہے۔ کچھ سال پہلے ایک ایسے ہی کیس میں بچی سے زیادتی کرنے والا وہ قریبی رشتہ ہوتا ہے جس پر خواب میں بھی نہیں سوچا جاسکتا۔ ماں جب دوسرے شہر سے واپس آتی ہے تو گیارہ سالہ بچی اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کو بتاتی ہے تو ماں بچی کو الٹا مارتی ہے اور اسے چپ کروادیتی ہے کہ گھر کی عزت کا سوال ہے۔
ایک دوسرے کیس میں چھ سات سالہ بچے کے ساتھ اس کا پی ٹی ٹیچر مسلسل زیادتی کرتا ہے اور ڈرا تا رہتا ہے۔ بچہ سہما سہما سا رہتا ہے۔ اسکول جانے سے ڈرتا ہے لیکن ماں کوئی توجہ نہیں دیتی پھر اسکول سے شکایت آتی ہے کہ بچہ پڑھنے میں دلچسپی نہیں لے رہا جب وہ بیمار پڑتا ہے اور بدن میں درد کی شکایت کرتا ہے تو والدین ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں تب جاکر ہولناک انکشاف ہوتا ہے اور اسکول کی ہیڈ مسٹریس کے تعاون سے مجرم پکڑا جاتا ہے۔
ہمارے ٹی وی چینلز کو بھی چاہیے کہ خاص طور سے بچوں سے زیادتی کے کیسوں پر مبنی حقائق سامنے لائیں۔ ان کی ڈرامائی تشکیل کی جائے اور والدین کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی آگہی دی جائے کہ ایسے ہولناک واقعات سے کس طرح بچا جاسکتا ہے۔ ہمارا میڈیا مسلسل تنقید کی زد میں رہتا ہے کیونکہ میرے نزدیک اس کا یہ پہلو زیادہ جاندار ہے کہ وہ خواہ ریٹنگ ہی کا چکر کیوں نہ ہو لیکن اس طرح چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی ''بریکنگ نیوز'' بن کر معاشرے کو جھنجھوڑ دیتا ہے اور جونہی کوئی دردناک واقعہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتا ہے تب ہی وزیراعظم سے لے کر عدلیہ اور اعلیٰ پولیس افسران سے لے کر وزیراعلیٰ تک کے ضمیر کو جھٹکا دیتا ہے۔
پیمرا کی جانب سے ایسا قانون بنایا جائے کہ ہر چینل 30 منٹ کا ایک پروگرام پیش کرے ٹاک شوز کی طرز کا اس میں معاشرے کے مختلف طبقات جیسے پروفیسرز، اسکول ٹیچرز، ماہرین نفسیات، کالم نگار، ادیب، والدین اور بچوں کو شریک کیا جائے۔ ان ماہرین کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر سے بچوں کو روشناس کرایا جائے۔ قرآن شریف پڑھانے کے لیے بہتر ہے کہ گھر پر اس کا انتظام کیا جائے۔ خاص طور سے لڑکیوں کو اچھے اور برے لمس کے بارے میں کھل کر بتایا جائے تاکہ وہ بوقت ضرورت اساتذہ اور والدین خصوصاً ماں سے اس کی شکایت کرسکے۔
یاد رکھیے آپ جتنا زیادہ اعتماد بچوں کو دیںگے بچے اتنا ہی زیادہ بھروسہ آپ پر کریںگے۔ بچوں کی بات کو نظر انداز مت کیجیے بلکہ توجہ سے سنیے اور اس کا تدارک بھی کیجیے۔ میں نے پہلے بھی یہ کہا ہے کہ بہر صورت بچوں کے ذہن میں اچھی طرح یہ بات بٹھادیجیے کہ کوئی بھی انھیں چاکلیٹ، بسکٹ یا ٹافی کھانے کو دے تو وہ فوراً منع کردے۔ اس عادت کو سمجھا بجھاکر اتنا پختہ کردیجیے کہ وہ سوائے گھر کے لوگوں کے کسی سے بھی کوئی چیز نہ لیں۔
اسی طرح یہ بات بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ لڑکیوں کو اکیلے باہر مت بھیجے خصوصاً کمسن بچیوں اور بچوں کو کیونکہ عموماً ہوتا یہ ہے کہ بچے پیسے لے کر چیز لینے گئے کسی نہ کسی نے تاک لیا کہ یہ اکیلا یا اکیلی آتی ہے اور اس نے ربط ضبط بڑھاکر بچوں کو اپنی طرف مائل کرلیا۔ ایسا کوئی دکاندار بھی کرسکتا ہے اس سے ہوشیار رہیے۔
ایک بار ایک جنرل اسٹور سے مجھے کافی اور ٹشو پیپر خریدنے تھے جب میں وہاں پہنچی تو پہلے سے نو یا دس سال کی بچی کھڑی تھی اور بھی گاہک تھے اور وہ بچی مسلسل دکاندار سے کہہ رہی تھی ''انکل مجھے جلدی دے دیں'' لیکن دکاندار آنا کانی کر رہا تھا۔ میں اس کے قریب گئی اور پوچھا کہ وہ کتنی دیر سے یہاں کھڑی ہے تو اس نے بتایا کہ بہت دیر سے کھڑی ہے لیکن انکل چپس اور پان مصالحہ نہیں دے رہے۔
میں نے جب دکاندار کی توجہ اس کی جانب دلوائی تو وہ کچھ جھنجھلاگیا اور بولا میڈم یہ تو روز ہی آتی ہے قریب ہی رہتی ہے، ابھی دے دوںگا یہ کہہ کر اس نے جھٹ پٹ میری کافی کی بوتل اور ٹشو پیپر نکال کر دیے اور پیسے وصول کرلیے۔ میں باہر آگئی لیکن میرے اندر کی استاد نے اور میرے والدین کی تربیت نے مجھے مجبور کردیا کہ میں بے حس نہ بنوں چنانچہ میں باہر کھڑی ہوگئی۔ جب وہ باہر نکلی تو میں نے اس کو ایک طرف لے جاکر پوچھا کہ یہ دکاندار انکل تمہیں چھوتے ہیں تو وہ معصومیت سے بولی جی آنٹی وہ مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔
مجھے فری میں بنٹی اور چھالیہ بھی دیتے ہیں۔ یہ سن کر میں چپ ہوگئی تب میں نے اس سے گھر کا پتہ پوچھا تو پتہ چلاکہ وہ اسی بلڈنگ میں رہتی ہے جس میں دکان تھی۔ لڑکی کی مادری زبان گجراتی تھی، میں اسے لے کر اس کے گھر سیکنڈ فلور پر گئی۔ اس کی ماں کو بلایا اور سلام دعا کے بعد بہت اطمینان سے اسے کسی ممکنہ خطرے سے آگاہ کیا۔
پہلے تو ایک دم بگڑگئی اور بولی ''نہیں باجی ایسا نہیں ہے وہ دکان والا ہماری ذات والا ہے وہ ایسا نہیں کرے گا'' لیکن بعد میں تھوڑی سی قائل ہوئی غریب عورت تھی شوہر صبح صبح ڈیوٹی پر چلاجاتا تھا اور یہ تین بچوں کے ساتھ گھر میں ہوتی تھی۔ لوگوں کو ٹفن سپلائی کرتی تھی اور روٹیاں بھی پکاکر بیچتی تھی باہر کے کاموں کے لیے اسی بچی کو بھیجتی تھی کیونکہ باقی دونوں بچے چھوٹے تھے۔ اسے سمجھاکر میں باہر آئی تو بہت پر سکون تھی۔ گھر میں آکر قاضی اختر سے ذکر کیا تو انھوں نے اس بات کو نہ صرف سراہا بلکہ دو چار لوگوں سے تذکرہ بھی کیا جس پر لوگوں نے اس دکاندار پر نظر رکھنی شروع کردی۔
ایک اور بات کہ محلے والوں سے مل کر رہیئے آپ اہل محلہ سے کہیے کہ اگر وہ ان کے بچے یا بچی کی کوئی غلط بات دیکھیں تو وہیں ڈانٹ دیں یا ہمیں بتادیں اس طرح پڑوسیوں پر اعتماد کرنے سے لوگ آپ کے دوست بنیںگے اور آپ کے بچے محفوظ ہوجائیںگے۔ آج ہمیں محلے داری کی زیادہ ضرورت ہے۔ دوسروں کے بچے بھی آپ ہی کے بچے ہیں ان پر بھی نظر رکھیے اور اپنے بچوں سے بھی غافل مت ہویئے۔