لاڑ کا بد نام ڈاکو میرو نظامانی

حاجی دودو تعلیم یافتہ نہیں تھا، بس اپنے خاندان کا بڑا ہونے کا کردار نبھاتا اور زمینیں سنبھالتا تھا۔


سردار قریشی January 27, 2018

RAWALPINDI: تقسیم سے قبل خواہ بعدکے اوائلی سالوں میں زیریں سندھ پر جسے لاڑ بھی کہتے ہیں، ڈاکو میرو نظامانی کا راج تھا اور اس کی دہشت چھائی ہوئی تھی۔ وہ ٹھری کا رہائشی تھا، جو ہمارے شہر ٹنڈو غلام علی سے صرف چار میل جنوب مغرب میں ماتلی جانے والی سڑک پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ، جہاں سندھی بلوچوں کے نظامانی قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ زراعت کے پیشے سے وابستہ ان لوگوں میں ایک بڑا زمیندار اوربااثر خاندان حاجی دودو نظامانی کا بھی تھا۔ زمانہ طالب علمی میں ہم اکثر اسے اپنی جیپ میں شہر آتے جاتے دیکھاکرتے تھے، سفید لٹھے کے کلف لگے کپڑے پہنتا اور سر پرکبھی پگڑی باندھتا تو کبھی سندھی ٹوپی لگاتا تھا ۔

ناس بھی لیتا تھا جس کی ڈبیہ ہر وقت اس کی جیب میں ہوتی تھی۔ یہ دراصل گہرے ناسی (براؤن) رنگ کا پاؤڈر ہوتا تھا جسے کچھ لوگ چپٹی میں لے کر سونگھتے توکچھ انگلی سے مسوڑھوں پر ملا کرتے تھے ۔ ناس لینے والے اپنی مونچھوں اور داڑھیوں سے صاف پہچانے جاتے تھے کہ اگر وہ سفید ہوتیں تو ان پر ناس کا رنگ بھی ضرور چڑھا ہوا ہوتا تھا۔ نواحی گاؤں کی ایک بڑھیا جو اماں سے ملنے اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھی، وہ بھی ناس لیتی تھی، ڈبیہ نکالتی تو ہم بھی لینے کو لپکتے، دیتی تو نہیں تھی البتہ کبھی کبھی ناس کی چٹکی والا اپنا ہاتھ ہماری ناک کے قریب کردیتی جس سے ہمیں خوب چھینکیں آتی تھیں۔

حاجی دودو تعلیم یافتہ نہیں تھا، بس اپنے خاندان کا بڑا ہونے کا کردار نبھاتا اور زمینیں سنبھالتا تھا، اس کے دوسرے بھائی البتہ مختلف طبیعتوں اور مزاج کے آدمی تھے ۔ ان میں ایک رئیس خان محمد نظامانی تھا جو شکل سے پڑھا لکھا لگتا تھا، کلین شیو آدمی تھا، پہناوا اس کا بھی شلوار قمیص ہی تھا لیکن دھوبی کے دھلے ہوئے استری شدہ ڈھنگ کے کپڑے پہنتا تھا، اس نے ساری عمر شادی نہیں کی اورکنوارہ ہی رہا، زیادہ تر حیدرآباد میں رہتا تھا جہاں قاضیوں کے اخبار ''عبرت'' کے دفتر کے قریب اس کی جگہ تھی۔

اپنے گاؤں ٹھری بہت کم آتا تھا۔ میرے نزدیک وہ ایک خبطی اور خود پسند آدمی تھا، سنا تھا وہ شادی نہ کرنے کی وجہ اپنا یہ اندیشہ بتاتا تھا کہ پتہ نہیں اولاد کیسی نکلے ، اپنے بارے میں کسی بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھا اور خود کو بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ہر بار میر بندہ علی خان تالپورکے مقابلے میں الیکشن ضرور لڑتا اور بڑی شان سے ہارتا تھا ۔ان کے تیسرے بھائی اللہ بخش نظامانی البتہ واقعی بڑے آدمی تھے ، مانے ہوئے اسکالر اور ماہرِ تعلیم تو تھے ہی سندھ کی کئی ایک مشہور درسگاہوں کے سربراہ بھی رہ چکے تھے ، ایوبی دورِ آمریت میں انھوں نے بھٹ شاہ ثقافتی مرکز کے انچارج کے طور پر بھی خدمات انجام دیں جو شاید طویل سرکاری ملازمت میں ان کی آخری اسائنمنٹ تھی۔

ڈاکو میرو نظامانی تھا تو انھی کے گاؤں کا مگر نہ تو وہاں رہتا تھا نہ ہی اس کی حاجی دودو والوں سے کوئی رشتے داری وغیرہ تھی، بس سب ذات کے نظامانی تھے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ اس کی سرپرستی کرتے ہوں، اس کو پناہ یا گرفتاری سے بچنے میں مدد دیتے ہوں،اس حوالے سے کسی کو کوئی شک شبہ بھی نہیں تھا۔ وہ اتنا خطرناک ڈاکو تھا کہ انگریز سرکار نے اس کے سر کی قیمت مقرر رکھی تھی، کئی بار اس کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر پولیس کی بھاری نفری نے گھیرا ڈال کر اسے پکڑنے یا مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بڑی بے جگری سے لڑتا اور محاصرہ توڑ کر نکل جانے میں کامیاب ہوجاتا تھا۔ پھولن دیوی اور افسانوی شہرت کے حامل دیگرکئی ڈاکووں کی طرح میرو نظامانی کے لیے بھی مشہور تھا کہ وہ عام آدمیوں کو نہیں لوٹتا تھا۔

اکثر بڑے بڑے ہندو سیٹھ خصوصاً سونے کے تاجر اس کا شکار بنتے ، وہ اپنے ٹولے کے ساتھ ان پر حملہ آور نہیں ہوتا تھا نہ ہی مار دھاڑ کرکے لوٹ مار کرتا تھا بلکہ اس کا طریقہ واردات ہی الگ تھا۔ وہ جس سیٹھ یا وڈیرے کو لوٹنا چاہتا اسے اپنے کسی آدمی کے ہاتھ چٹھی بھجواتا کہ فلاں تاریخ تک فلاں فلاں چیزیں اور اتنی رقم فلاں جگہ پہنچادو ورنہ فلاں دن اور فلاں وقت میں اور میرے تمام ساتھی تمہارے مہمان ہوںگے ۔ اس کی مطلوبہ چیزوں میں چین کے بنے ہوئے ڈبل گھوڑا مارکہ بوسکی کپڑے کے تھان ضرور شامل ہوتے کیونکہ وہ اور اس کے ساتھی صرف بوسکی ہی کے کپڑے پہنتے تھے ، باقی جہاں تک رقم کا تعلق تھا تو وہ امیروں سے چھین کر غریبوں میں بانٹنے کا قائل تھا۔

اس کی چٹھی کو بڑی سنجیدگی سے لیا جاتا تھا اور مانگ پوری کرنے میں ہی عافیت سمجھی جاتی تھی۔ مشہور تھا کہ دوسری صورت میں وہ بلاخوف، کسی خطرے کی پروا کیے بغیر دعوت کھانے پہنچ بھی جاتا تھا۔ ہمارے شہر سمیت کئی جگہوں پر ان گنت ایسے غریب گھرانے خصوصاً بیوائیں ہوتی تھیں جنھیں وہ خود ہر مہینے خرچہ پہنچانے جاتا تھا، ظاہر ہے وہ سب اسے دعائیں دیتے تھے ۔ میر بندہ علی خان تالپور کی دل سے عزت کرتا تھا مگر ان کے والد میر حاجی محمد حسن عرف بڑے میر اس کے مستقل کلائنٹ اور چٹھیاں وصول کرنے والوں میں شامل تھے ۔

مشہور تھا کہ ایک بار ٹنڈو محمد خان سب ڈویژن کے ڈپٹی کلکٹر کو ڈاکو میرو نظامانی کو زندہ گرفتارکرنے یا جان سے مار ڈالنے کی ذمے داری سونپی گئی، ترقی اور بھاری انعام پانے کی لالچ میں اس نے کئی بارکوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ آخری حربے کے طور پر اس نے میر بندہ علی خان کی مدد لینے کی ٹھانی، ان سے ٹنڈے آکر ملا اور درخواست کی کہ وہ میرو کو بلوائیں، وہ اسے گرفتاری دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا، میر صاحب مان گئے ، میرو کو پیغام ملا تو فوراً حاضر ہوگیا ۔

میرصاحب کی موجودگی میں جب ڈپٹی کلکٹر نے اسے گرفتاری دینے کے لیے کہا تو اس نے جواب دیا تم نے مجھے گرفتار کرنے کے لیے میر صاحب کے بنگلے کا محاصرہ کر رکھا ہے لیکن تم نہیں جانتے کہ تمہارے یہ سارے اہلکار میرے آدمیوں کے نشانے پر ہیں،کوشش کر دیکھو، اپنے اہلکاروں کی لاشیں اٹھوانے کے لیے تمہیں مزید اہلکار بلوانے پڑیں گے ۔اس نے جانے کی اجازت چاہی تو میر صاحب نے اپنا نجی محافظ دستہ اس کے ساتھ بھیجا جو اسے وہاں تک چھوڑآیا جہاں وہ جانا چاہتا تھا۔ میر صاحب ڈپٹی کلکٹر پر بھی خوب برسے کہ اس نے ان کی آڑ میں میرو ڈاکوکو دھوکے سے پکڑنے کا منصوبہ بنایا جس پر عملدرآمد کے نتیجے میں خون خرابہ ہو سکتا تھا۔

میں نے میرو نظامانی کو پہلی اور آخری بار اس وقت دیکھا تھا جب انگریزی تیسرے درجے میں پڑھتا تھا، اسکول کی طرف سے مجھے اسکالرشپ کا امتحان دینے کے لیے چنا گیا تھا، صرف مختارکارکا سرٹیفکیٹ درکار تھا جس کے لیے ابا مجھے ماتلی لے جا رہے تھے، اس زمانے میں لاری صبح منہ اندھیرے نکلتی تھی اور شام کو لوٹتی تھی۔ مجھے یاد ہے لاری کا مالک مظفر شاہ خود ڈرائیوکر رہا تھا۔

جوں ہی ہماری لاری شہر سے نکل کر بولٹی پر پہنچی آموں کے باغ سے ایک آدمی چھلاوے کی طرح اچانک نکل کر سامنے آگیا اور کچھ کہے سنے بغیر سوار ہوگیا، چند میل آگے جاکر دیکھا تو سڑک بند تھی، دونوں طرف سے مسلح لوگوں نے کھیتوں سے نکل کر ہمیں گھیر لیا، جونہی میرو لاری سے اترا، وہ سب پیچھے ہٹ گئے ۔ اس نے مظفر شاہ کو مخاطب کرکے کہا اچھا ہوا مجھے لے آئے ورنہ آج تم لوگوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچتا ۔ ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ڈاکو میرو نظامانی تھا اور سڑک بند کرنے والے اس کے ساتھی تھے ۔کئی سالوں بعد وہ اس وقت پولیس مقابلے میں مارا گیا جب وہ اپنی کسی آشنا کے ساتھ اسی کے گھر میں رنگ رلیاں منا رہا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں