یوں ہی منو بھائی…
ہم تمہارے سنگی ساتھی تمہاری تحریک کو جاری رکھیں گے اور اب تو ویسے بھی ’’منزل‘‘ دو چار قدم ہی رہ گئی ہے۔
منو بھائی بیمار تھے ان کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا تھا اورآخر وہ بھی اپنے سنگی ساتھیوں سے جا ملے۔ 1992 کا سال حبیب جالب نے اسپتالوں میں گزارا ۔ لاہور کے سروسز اور شیخ زید اسپتالوں میں حبیب جالب داخل رہے۔ میں بھی کراچی سے لاہور جاتا رہتا تھا۔ چند دن بیمار بھائی کے ساتھ گزارکر لاہور سے واپس کراچی آجاتا تھا۔
ایسے ہی دن تھے، میں لاہور گیا ہوا تھا۔ بھائی جالب شیخ زید اسپتال میں داخل تھے۔ جالب صاحب کمزوری کے باعث اٹھ نہیں سکتے تھے، مگر ان کا ذہن مکمل کام کر رہا تھا اور وہ تقریباً روز ہی حالات حاضرہ پر نظمیں، قطعات لکھ کر اخباروں میں بھیجتے رہتے تھے یا اخباری نمایندے اسپتال کا چکر لگا لیتے اور جالب صاحب کا تازہ کلام لے جاتے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے میں لاہور گیا ہوا تھا۔ جالب بھائی نے مجھے کاغذ پر لکھی نظم دیتے ہوئے کہا ''اسے منو بھائی کو فون کرکے لکھوا دو۔''
کاغذ پر منو بھائی کا فون نمبر بھی لکھا ہوا تھا۔ میں نے منو بھائی کا فون نمبر ملایا وہ بول رہے تھے میں نے اپنا تعارف کروایا اور انھیں بتایا کہ ''بھائی صاحب نے آپ کے لیے نظم کہی ہے اور مجھے کہا ہے کہ میں یہ نظم آپ کو فون پر لکھوا دوں۔'' منو بھائی نے قلم کاغذ سنبھالا اور مجھ سے نظم لکھوانے کے لیے کہا، حبیب جالب صاحب کی نظم ملاحظہ ہو۔
منو بھائی کے نام
یوں ہی منو بھائی' تو روتا رہے گا
جو سویا ہوا ہے' وہ سوتا رہے گا
جو کھاتا رہا ہے' وہ کھائے گا یوں ہی
جو بوتا رہا ہے' وہ بوتا رہے گا
جو پاتا رہا ہے' وہ پائے گا یوں ہی
جو کھوتا رہا ہے' وہ کھوتا رہے گا
عبث ناخدا کا گلہ ہے مری جاں
یوں ہی کشتیاں' وہ ڈبوتا رہے گا
نہ آنسو بہا میرے پیارے! وطن میں
جو ہوتا رہا ہے' وہ ہوتا رہے گا
تو مانے گا کب! یوں ہی لفظ و بیاں میں
سدا خواہشوں کو سموتا رہے گا
تجھے خدمت خلق کا عارضہ ہے
خدائی کا تو' بوجھ ڈھوتا رہے گا
''سندس'' کے نام سے منو بھائی نے ایک ادارہ بنا رکھا تھا، جہاں تھیلیسمیا کے مریض بچوں کا علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ منو بھائی کے بعد بھی قائم رہنا چاہیے۔ جالب کا آخری شعر اسی طرف اشارہ ہے، منو بھائی خدمت خلق کے عارضے میں مبتلا تھے اور سندس کی ذمے داریوں کا بوجھ انھوں نے اٹھا رکھا تھا۔
منو بھائی بھی انھی لوگوں میں شامل تھے جو سماج کو بدلنے کی سوچ رکھتے تھے۔ ان کی تحریریں، ان کے کالم، ان کے ڈرامے ، ان کی شاعری۔ ان سب میں منو بھائی دکھی انسانیت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ''گریبان'' منو بھائی کے کالم کا نام تھا، عمر بھر منو بھائی خود بھی اپنے گریبان میں جھانکتے رہے اور دنیا والوں کو بھی یہی کہتے رہے، گریبان میں جھانکو، ''چاک گریبانوں'' سے ہی ان کی یاریاں تھیں، انھی کے ساتھ گھومتے پھرتے زندگی تمام کی۔
میں نے منو بھائی کو جب جب دیکھا ایک تپش کا احساس ہوا۔ ان کی تحریروں میں بھی یہی تپش موجود تھی، وہ جب نظر آئے آگ برساتے سورج کے موسموں میں پسینے میں شرابور، سڑکوں پر چلتے، رستے گلیوں، چوراہوں میں ہی نظر آئے۔
منو بھائی دور بہت دور جو سکھ کا گاؤں ہے جو میٹھے بولوں کی نگری ہے، جہاں دن سنہرے اور راتیں چاندنی ہیں، جہاں کے رہنے والے ہنستے مسکراتے ہیں، جہاں کوئی آنکھ پرنم نہیں ہے، ایسے ہی گاؤں ایسی ہی نگری کے متلاشی تھے۔ اسی نگری کی دھن میں زندگی بھر تپتے دن رات تن من پر جھیلتے چلتے رہے کہ ایک دن سکھ کا گاؤں مل ہی جائے گا۔ میٹھے بولوں کی نگری آ ہی جائے گی۔ منو بھائی نے بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے حصے کا سفر کاٹا وہ چلے گئے مگر آنے والوں کے لیے بہت کٹھن سفر کاٹ گئے آسانیاں پیدا کر گئے اب تو میٹھے بولوں کی نگری، دو چار قدم کی ہی بات لگتی ہے۔ لوگ جاگ چکے ہیں۔ دوست، دشمن سامنے ہیں، منو بھائی کی نظم کے چند مصرعے دیکھیے۔
جو توں چاہنا ایں' او نئیں ہونا
ہونئیں جاندا
کرنا پیندا
عشق سمندر ترنا پیندا
سکھ لئی دکھ جرنا پیندا
حق دی خاطر لڑنا پیندا
جیون دے لئی مرنا پیندا
منو بھائی اور ان جیسے لوگ کافی پینڈا کاٹ گئے ہیں۔ یہ سب لوگ سچ کی راہوں کے راہی تھے، جو سچ کی راہوں میں ہی چلتے چلتے مر گئے۔ جالب کا شعر:
سچ کی راہوں میں جو مر گئے ہیں
فاصلے مختصر کر گئے ہیں
منو بھائی کے وطن میں ظالموں نے ''اٹ مکا دتی اے'' اور اب ظالموں کے دن گنے جا چکے، ظلم کی رات ختم ہونے کو ہے، ''اب نزدیک سویرا ہے'' منو بھائی! تمہارے سنگی ساتھی تمہیں نہیں بھولیں گے۔ تم اپنوں کے پاس پہنچ گئے، وہاں تم شاد رہو، آباد رہو۔ ہم تمہارے سنگی ساتھی تمہاری تحریک کو جاری رکھیں گے اور اب تو ویسے بھی ''منزل'' دو چار قدم ہی رہ گئی ہے۔