حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
جوکچھ ہُوا وہ ناقابلِ بیان ،الفاظ کے احاطے سے کہیں باہر، ماضی میں بھی ہوتا رہا بس ہم اُسی وہم کا شکارکہ جو ہُوا۔
قصور واقعے پر اگرچہ بہت کچھ کہا جاچکا، لکھا جاچکا اور احتجاج ابھی جاری ہے، عوام سمیت حکومتی ادارے اب بیدار نظر آتے ہیں لیکن مجھے نجانے کیوں اپنی ذمے داری محسوس ہوتی ہے کہ میں بھی اس معاملے پر اظہارِ تعزیت کروں ،کس سے کروں یہ البتہ ایک سوال کی صورت مجھے درپیش ہے ۔خود سے کروں ، زینب کے اہلِ خانہ سے، قصورکے رہنے والوں سے، اپنے سسٹم سے، طرزِ حکومت سے، خود اپنے ہاتھوں تراشیدہ ایک معاشرے سے۔آخرکس سے؟
جوکچھ ہُوا وہ ناقابلِ بیان ،الفاظ کے احاطے سے کہیں باہر، ماضی میں بھی ہوتا رہا بس ہم اُسی وہم کا شکارکہ جو ہُوا، اس کا شکار ہم یا ہمارا خاندان نہیں،ایک مصیبت جوکسی اور پر آگئی اورکسی اور پر ہی آتی رہے گی،گویا اسکول حادثے میں جو بچے شہید ہُوئے وہ ہمارے نہیں تھے، مسجد میں جو نمازی بم دھماکے میں شہید ہوئے ان میں بھی ہم شامل نہیں، جو بس ایک گہری کھائی میں گرگئی اس میں ہم سوار نہ تھے، یعنی ہم بچ گئے ہم بچتے رہیں گے، ہم خوش قسمت ہیں، باری کسی اورکی تھی، باری کسی اورکی ہوگی۔
یہ ایک سوچ ہے جو ہمیں مطمئن کرنے کے لیے رکھتی ہے ، لیکن باری ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی،اب خوف آنے لگا (کہیں ایسا نہ ہوجائے ،کہیں ویسا نہ ہوجائے ) ۔ بچے تو ہمارے بھی ہیں، اسکول بھی جاتے ہیں، پچھلے مجرم بھی قریبی عزیزنکلے، ماحول میں فرق ہی کیا ہے؟
توکیا ہو، اب احتجاج بنتا ہے، لہٰذا بولو بھیا ، شورمچاؤ اور شور مچ گیا ۔بحرحال مثبت ہے ، بعض اوقات ایک حادثہ ایک قوم کو تعمیرکر جاتا ہے اور پھر بہت سی زینب محفوظ ہوجاتی ہیں،ایک آگاہی کی کیفیت نے جنم لیا،آج والدین کی اکثریت اسکولوں میں جنس پر مبنی ایک بنیادی تعلیم کی حامی نظر آتی ہے ، جس میں کمسن بچوں کو ایسے ان دیکھے حادثات ومعاملات سے آگاہ کیا جائے جسے وہ اس سے قبل مطلقًا نہیں جانتے تھے۔گویا بعد از خرابیء بسیار بھی اسے ایک راست قدم قرار دیا جانا چاہیے ، لیکن جو سب سے بڑا اور ناقابلِ حل مسئلہ بن کر سامنے آتا رہا وہ پولیس کا رویہ، اس کا کیا کیِا جائے؟
کون اس کی اصلاح کرے یا تو وہ کریں جن کے پاس ہرکام کو ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ ہے ، ورنہ وہ جو حالات کے ہاتھوں بابا رحمت ہُوئے تیسرا بہرحال کوئی نہیں ،عوام کا ذکر کرکے عوام کو شرمندہ کرنے والی بات ہوگی ،عوام بیچارے ہیں ، معصوم ہیں ، ہمہ وقت لٹنے پٹنے کے لیے تیار، مرنے، مروائے جانے پر راضی،اُن کی کیِا بات کی جائے۔
لگتا ہے زینب کی آنکھوں سے جاری ہر آنسو اب ہماری آنکھوں میں ٹھہرگیا، بس گیا ،کسی نے کہا یہ سات سالہ زینب کے ساتھ نہیں ستر سالہ پاکستان کے ساتھ ہُوا ، درست کہا بالکل سچ ، ماننا ہوگا کہ یہ ہمارا بنایا ہوا سماج ہے ، ہم سے کچھ نہ ہوسکا، آگے بڑھنا ہوگا،اپنا نصاب بدلنا ہوگا ،دنیا میں کس قوم اور معاشرے کی کونسی بات ، قانون ، ریت روایت اچھی ہے اُسے اپنانا ہوگا۔
میرے کہنے کا مطلب ہرگز ویسٹرن کلچرکو مکمل اپنانا نہیں بلکہ خوبیوں کی حد تک اُن کی تقلید کرنا ہے ، بلا شبہ ان میں بہت سی خامیاں بھی ہیں جیسے وہ ایک خاندان کو مضبوط بنانے کے بجائے اولڈ ہاؤسزآباد کرنے لگے جب کہ اس معاملے میں ہم رشتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن جدت کے حوالے سے وہ ہم سے کہیں آگے ہیں لہٰذا ہمیشہ ایک آہ بھر کرکہنا کہ ''جابر بن حیان،البیرونی ،حکیم بُو علی سینا کون تھے؟'' غلط ہے۔ بقول علامہ اقبال
'' تھے وہ آباء تمہارے مگر تم کیا ہو
کوئی حرج نہیں کہ ہم کرمنالوجی پر ان کی بہترین ، جدید ترین تحقیق سے مدد لیں،کوئی حرج نہیں کہ ہم نظامِ حکومت ، جمہوریت، معیشت ، تجارت ،سائنس ، ٹیکنالوجی پر ان کی ریسرچ کو اپنی یونیورسٹیز میں سبجیکٹ کا درجہ دیں جیسے 13 ویں صدی عیسوی تک وہ اپنے تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے تھے بِنا شرمندہ ہُوئے ۔ بنیادی مسئلہ ہمارا ایک ایسے تنگ و تاریک غارسے باہر نکلنا ہے جسمیں ہم بُری طرح سے قید ہوکر رہ گئے ۔
'' خود اپنی راہ میں دیوار بن کے بیٹھا ہُوں'' قارئینِ کرام! سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی اور سے جوگلہ کرتے ہیں خواہ وہ حکومت ہو، ریاست ہو یا چلیے قدرت، بالکل غلط ہے ،جس دن یہ شکایت ہم خود سے کریں گے توکھل جائے گا کہ سب سے بڑا مسئلہ ہم خود ہیں، مثال کے طور پر زینب کے کیس میں اصل مجرم کون ہے؟ ایک عام آدمی ،جو عوام سے ہے ،آپ ہم میں سے ہے ،اُس کی گرفت کے لیے ہم حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن جرم کس نے کیاِ؟ اس کے اسباب بھی تلاش کرنے ہوںگے۔
بات شاید کڑوی کسیلی ہو،کرنی پھر بھی چاہیے کہ حادثے کے وقت بچی کے والدین کہاں تھے ؟ عمرے کی ادائیگی پر ۔اس وقت کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا یا مناسب نہ ہوگا لیکن کبھی یہ سوال کوئی ان سے ضرور کرے گا کہ ایک سات سال کی معصوم ،کمسن بچی کو تنہا چھوڑ کر انھوں نے کونسا عمرہ کرلیا ؟ اورکیاِ یہ نہ مان لیاِ جائے کہ اللہ نے ہر والدین کو ایک پیغام دیا کہ پہلے اپنے فرائض کو پورا کرو پھر میرے پاس آؤ۔ہمیں اب ہوش کے ناخن لینے ہونگے ، سمجھنا ہوگا دین کیاِ ہے ،دنیا کیاِ ،اللہ آخر ہم سے چاہتا کیاِ ہے؟ علم کیا ہے ،عمل کیا؟ یہ فرسودہ سوچ ،دقیانوسیت ۔اس نے ہمیں کیا دیا ؟
اس معاملے میں بھی دیکھنا چاہیے کہ کون خلوص سے مجرم کی گرفت اور اس کی سخت ترین سزا چاہتا ہے اور کون اس پر بھی اپنی گندی اور غلیظ سیاست چمکانے کے در پر ہے ۔افسوس صد افسوس کہ اب ہم میں اورگدھ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا ،وہ بھی ایک مردار کے انتظار میں ،ہم بھی ۔لاشیں گرنی چاہیئیں کچھ کم زیادہ بیس، پچیس تو ہوں کہ کیس بنے ،حکومت جائے، بھائی لوگوں کی ہدایت بھی اتنے لوگوں کی تو ہیں ہی، زیادہ ہوجائیں لیکن اس سے کم نہیں ۔
بے سہاروں کا انتظام کرو
جاؤ پھر ایک قتلِ عام کرو
سانپ سرگوشیوں میں کہتے ہیں
آستینوں کا انتظام کرو
قارئینِ کرام ان حادثات کی صرف ایک وجہ نہیں ہے ، بات کو بین السطور دیکھنے پر حقیقت کی نت نئی پرتیں کھلتی جائیں گی ،چلیے حادثہ ہوگیا ،لیکن مجرم کی گرفتاری ،حصولِ انصاف !! وہ کون مہیّا کرے گا ؟ سسٹم کہاں ہے ،میری سمجھ سے بالاتر ہوتا جارہا ہے ،اصلاح کا آغاز کہاں سے ہو ،کون مسیحا ہو ؟ کس سے منصفی چاہیں ،کس در کو کھٹکھٹائیں ۔
زینب کا کیِا ہو؟ اُس معصوم کا جسے زندگی کی بہاریں ابھی دیکھنی تھیں۔ جو اپنی معصومانہ تقاریر میں ہمیں بتا رہی تھی کہ دین میں تفرقہ بازی انسان کی اساس تک کو تباہ کردیتی ہے ،جس نے ہمیں ایک قوم بننے کا مشورہ دیا ،جس نے نبی کریم ﷺ کی احادیث سے ہمیں جینے کا درس دیا ،زینب کو کہاں سے لائیں ؟ میں نے جب زینب کی اسکول میں کی گئی تقاریر سنیں تو ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا ۔
خدارا جاگیں ،دیکھیے کہ ہم آپ کسے اپنا مسیحا چنتے ہیں ،سوچیے کہ ہم کون ہیں ،کب سے ہیں ،کیوں ہیں کون ہمارا خالق ہے ،اور وہ ہم سے کیِا چاہتا ہے ؟ ورنہ یہ واقعات رکنے والے نہیں ، یہ حادثات تھمنے والے نہیں ،خود شناسی، خدا شناسی ہے ،اپنا احتساب کیجیے۔
چلو اپنی ہی جانب اب چلیں ہم
یہ رستہ دیر سے سُونا پڑا ہے