ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
سیاسی طبقہ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگا پھر رہا ہے تو پھر ملک کسی ٹھوس پالیسی کی امید کس طرح کرسکتا ہے۔
KARACHI:
ایک اور سال گزرگیا، ایک اور سال شروع ہوگیا۔ جیسے جیسے وقت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے ہمارے اندر یہ احساس گہرا ہورہاہے کہ ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔ ہم بے معنی بحثوں اور تنازعات میں اپنا وقت برباد کررہے ہیں اور سزا کے طور پر وقت ہمیں برباد کررہاہے۔ 2018 یعنی سال نو میں استحکام سے زیادہ اضطراب، چیلنجز اورسکون سے زیادہ تناؤ ہوگا۔ کیونکہ کوئی بھی نیا سال صرف کیلنڈر پر پلٹا جانے والا صفحہ ہوتا ہے۔ یہ کاغذی تبدیلی گزشتہ برس اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج تبدیل نہیں کرتی اس لیے کہ آپ اور ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ دنیا میں ہمارا امیج وہ نہیں جو ہم چاہتے ہیں۔ یہ بھی اس نئے سال کا ایک بڑا سوال ہے کہ جب ہم آئینہ دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا دکھائی دیتا ہے؟ اگر ہم نے گزشتہ چند ایک برسوں کے دوران عقل سے کام لیا ہوتا تو ہم دنیا کے تاثر کو اپنے حق میں کرسکتے تھے لیکن ہم نے انھیں حماقتوں کی نذرکردیا۔
ہم نے یہ انتہائی اہم وقت اپنے ذاتی اہداف کے حصول کے لیے داخلی جنگ لڑنے میں گزاردیا۔ چنانچہ ریاستی اداروں کے تعلقات میں زیادہ تناؤ آیا اور مربوط اور منظم فیصلہ سازی نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ سے حقیقی سیکیورٹی مسائل کا ادراک کرنا اور ان کا تدارک کرنا ناممکن ہوگیا۔
جائے حیرت ہے کہ گزشتہ ایک برس سے یہ شواہد واضح دکھائی دینے لگے تھے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا گھیراؤکرنے پر تلی ہوئی ہے، اس کی نظر ہمارے ایٹمی ہتھیاروں پر ہے لیکن ہمارے ہاں چوہے بلی کا کھیل جاری رہا ان نازک لمحات میں بھی ہم حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے اپنے مذموم مقاصد میں مگن تھے لہٰذا اب ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اس وقت امریکا کے عزائم کا سامنا کرنے کے لیے قوم کی طرف سے بھرپور رد عمل کی ضرورت ہے لیکن جب سیاست دانوں کا تعاقب جاری ہو، انھیں بے توقیر کیا جارہا ہو، انھیں تباہی کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا ہو اور جب میڈیا میں ان کی کردار کشی کا کھیل جاری ہو تو پھر یہ رد عمل کہاں سے آئے گا؟
حکومت کمزور ہو چکی ہے، سیاسی طبقہ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگا پھر رہا ہے تو پھر ملک کسی ٹھوس پالیسی کی امید کس طرح کرسکتا ہے، قومی اسمبلی میں آئے دن وزرا کی عدم موجودگی کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے اور پارلیمنٹ میں حاضری کے حوالے سے ارکان کا یہ رویہ بلاشبہ انتہائی غیر ذمے دارانہ ہے۔
سابق وزیراعظم کے دور میں بھی اپوزیشن ہی نہیں چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی سخت شکوہ رہا کہ کابینہ کے ارکان پارلیمنٹ سے اکثر غیر حاضر رہتے ہیں جب کہ وزیراعظم تو برائے نام بھی مشکل ہی سے ایوان میں آتے ہیں جس کی وجہ سے قانون سازی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے کی وجہ ہی سے انھیں پیش آنے والے کئی مسائل جو آسانی سے حاصل ہوسکتے تھے بری طرح الجھ گئے۔
یوں بھی تمام ارکان پارلیمنٹ کو اس امرکا احساس ہونا چاہیے کہ عوام انھیں منتخب ایوانوں میں اپنی مشکلات اور مسائل کے حل کی خاطر بھیجتے ہیں۔ ایک عام رکن اسمبلی بھی بھاری تنخواہ اور گراں قدر مراعات سے مستفید ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایوان کے اجلاسوں سے غیر حاضر رہ کر اپنے ذاتی کاروبار یا دیگر مشاغل میں مصروف رہنا پوری قوم کی حق تلفی، خیانت اور بد عنوانی کی بد ترین شکل ہے۔
سینیٹ خواب خرگوش کے مزے لیتی رہے اور نااہلی اہلیت میں بدل، قومی اسمبلی کا کورم تب پورا ہو جب نا اہل کو بچانا ہو اور حلف نامے کو چھیڑتے ہوئے سب سوئے رہیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہمارے ملکی منظر نامے پر دکھ رہا ہے، اگر جمہوریت کی مضبوطی خالی باتوں سے ہوپاتی، اگر جمہوریت پارلیمنٹ میں تقریریں کرنے اور ایک جمہور گلی بنادینے سے مضبوط ہوسکتی تو پاکستان آج برطانیہ سے بڑا جمہوری ملک ہوتا، مگر کیا کریں جمہوریت قول سے نہیں فعل سے مضبوط ہوتی ہے، جمہوریت قربانی مانگتی ہے اپنے نفس کی، اپنی میں کی۔
جبھی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے اور جمہوریت اسی وقت مضبوط ہوگی جب جمہوریت پسند رائے ونڈ، بلاول ہاؤس اور بنی گالہ کے نہیں پاکستان اور عوام کے وفادار ہوںگے، جمہوریت تب مضبوط ہوگی جب جمہوریت پسندوں کو نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کی ذاتوں سے آگے بھی کچھ دکھائی دے گا۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی قومیں اور سلطنتیں اس وقت تک دنیا میں باوقار رہیں جب تک انھوں نے اپنے عقائد و نظریات اور عزائم سے روگردانی نہ کی۔ جہاں بھی افتراق پیدا ہوا اس نے انتشار کو جنم دیا اور سلطنت ملک یا قوم کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ المیہ یہ ہے کہ آج بھی بیرونی عناصر ہمیں ہدف بنائے ہوئے ہیں۔
ہمارے ارباب اختیار کو جان لینا چاہیے کہ سیاست کا تخت مقامی ہو یا بین الاقوامی مفاد طاقت، اختیار اور اقتدار کو ہر اصول اور نظریے پر فوقیت حاصل ہوتی ہے اس لیے کہاجاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ آج کی عالمی اور سفارتی حقیقت میں اخلاقیات، اصول اور جواز صرف کمزور اقوام کے لیے رہ گئے ہیں۔ ہم امریکی اور بھارتی جاسوسوں کو رہا کرکے کتنی خوش اخلاقی کا دنیا کے سامنے مظاہرہ کرچکے ہیں اس کے نتیجے میں ہمیں آج تک کیا ملا؟
آج کی دنیا اسی کی ہے جو اپنی قوت اور وقار کا مظاہرہ کرلے۔ ہم نے اپنے ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھنے کی بجائے اپنے غلط فیصلوں کا ہمیشہ اخلاقی، اصولی، انسانی اور اسلامی پاسداری کے نام پر جواز پیش کیا۔ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلے بھی مہنگائی، بے روزگاری، صحت و صفائی، پانی بجلی کے مسائل، تخریب کاری یا دہشت گردی کے خلاف کئی مرتبہ مہم چلائی گئی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ ان مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہاہے اور جب متعلقہ حکام اور ادارے عوامی مسائل حل اور لوگوں کی مشکلات کے ازالے میں مطلوبہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے تو لا محالہ عوام کی نظریں کسی مسیحا کی تلاش میں ہوتی ہیں تاہم عملی زندگی کے تجربات شاہد ہیں کہ اپنے دامن میں لگی آگ خود ہی بجھانی پڑتی ہے لکیر پیٹنے سے اگرچہ کچھ حاصل نہیں لیکن ماضی کی غلطیوں کو پیش نظر رکھاجائے تو مستقبل میں ان کے اعادے سے بچا جاسکتا ہے۔
کڑوی سچائی یہی ہے کہ پاکستان کا عالمی سطح پر امیج دن بدن خراب سے خراب تر ہوتا چلاجارہاہے اور ہمارے داخلی حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات کو روکنے کی جن کوششوں کے خدشات پچھلے کئی ماہ سے محسوس کیے جارہے تھے وہ اب تیزی سے منظر عام پر آرہے ہیں۔
سیاسی و جمہوری قوتوں ہی کو نہیں بلکہ طاقتور حلقوں کو بھی اس حقیقت کا احساس کرنا چاہیے کہ ایسا ہوا تو یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ ملک ایک بار پھر غیر معینہ مدت کے لیے آئینی اور جمہوری نظام سے محرومی کا شکار ہوجائے گا، عوام میں مایوسی پھیلے گی اور پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو ملک کے مختلف حصوں میں احساس محرومی اور علیحدگی پسندی کے رجحانات کو فروغ دینے کے بھرپور مواقعے حاصل ہوجائیں گے اور اس کے نتیجے میں ملک کی بقا اور سلامتی داؤ پر لگنے کے خدشات پیدا ہوجائیںگے۔ ہم سب کو اس حقیقت پر ایمان لے آنا چاہیے کہ پاکستان کا مستقبل آئینی و جمہوری نظام کے تسلسل ہی سے محفوظ بنایاجاسکتا ہے، غیر جمہوری ادوار نے ملک کو بے اطمینانی اور مشکلات میں اضافے کے سوا کچھ نہیں دیا۔