یوم پاکستان

گزشتہ 65 برس میں اس خواب کی جو تعبیر ہمارے سامنے آئی ہے اس میں بہت سے رنگ اس طرح سے نہیں ہیں جیسے سوچے گئے تھے۔۔۔


Amjad Islam Amjad March 23, 2013
[email protected]

آج سے تہتر (73) برس قبل اقبال پارک (سابقہ منٹو پارک) لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے زیراہتمام وہ تاریخی جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں ''قرارداد لاہور'' کے ذریعے پہلی بار مسلمانان ہند نے اپنی اکثریت کے علاقوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا جو آگے چل کر ''پاکستان'' کے مبارک اور خوبصورت نام کی صورت میں ایک ایسے نئے ملک کے قیام کی بنیاد بنا جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے نام سے ایک ہی ریاست 14 اگست 1947ء کو دو مختلف جغرافیائی خطوں میں ایک ہی پرچم اور آئین تلے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی۔

گزشتہ 65 برس میں اس خواب کی جو تعبیر ہمارے سامنے آئی ہے اس میں بہت سے رنگ اس طرح سے نہیں ہیں جیسے سوچے گئے تھے یا جیسا انھیں ہونا چاہیے بالخصوص مشرقی بازو کا الگ ہو جانا ایک ایسا سانحہ ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان بنانے والوں میں جذبے، ایثار، جرأت، قربانی اور حب الوطنی کے حوالے سے فراوانی کے باوجود اس تجربے اور صلاحیت کی کمی تھی جو کسی ملک کا نظام چلانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور جن کی پیدا کردہ الجھنوں کی وجہ سے آج پاکستان کو اس کے دشمن اور عالمی مبصر مسائلستان قرار دے رہے ہیں اور آئے دن اس کے ایک ''ناکام ریاست'' ہونے کی خبریں اڑائی جاتی ہیں۔

اگر قوموں کے عروج و زوال کے تاریخی پس منظر میں اس صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ صورت حال ہم پاکستانیوں کے لیے افسوسناک اور لمحہ فکریہ تو ضرور ہے مگر یہ کوئی بہت انوکھی یا بالکل نئی بات نہیں ہے۔ بے شمار قومیں اور معاشرے مختلف حوالوں سے ایسی ہی صورت حال سے گزر چکے ہیں اور اس میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو نہ صرف اس بھنور سے نکل آئے بلکہ آگے چل کر انھوں نے ہر میدان میں حیرت انگیز اور مثالی ترقی بھی کی۔ دور کیوں جائیے گزشتہ نصف صدی میں عوامی جمہوریہ چین، کوریا، ترکی اور ملائیشیا پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ ایسا کرتے ہیں اور نہ بوجوہ ہمیں ایسا کرنے دیا جاتا ہے۔

اس کی تفصیل خاصی طویل اور گنجلک ہے۔ چنانچہ ہم فی الوقت اس سے اغماص کرتے ہوئے صرف نتائج کو سامنے رکھتے ہیں اور اپنے معاشرے اور قوم کی تمام تر خرابیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی ان صلاحیتوں، کامیابیوں اور تخلیقی قوت کا ذکر کرتے ہیں جن سے یہ خطہ زمین اور اس میں بسنے والے لوگ مالامال ہیں، جن مثبت اقدار کی پاسداری کی وجہ سے دنیا کی ترقی یافتہ قومیں آج ہر میدان میں آگے دکھائی دیتی ہیں ان کے مقام تک پہنچنے کی امید اور خواہش اپنی جگہ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے معاشروں کی قوت کو کس طرح سے منظم کیا ہے اور اپنے عام آدمی کی زندگی میں کیا کیا آسانیاں کس کس طرح سے پیدا کی ہیں۔

ہم لوگ فوراً ''موازنوں'' پر اتر آتے ہیں حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کسی بھی میدان میں ''موازنہ'' کرنے سے قبل اپنی اجتماعی In put کو ان کے برابر لانے کی کوشش کریں کہ اس کے بغیر Out put کو جانچنے اور تولنے سے کبھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نیت اور سمت کو درست کریں، اپنی نوجوان نسل کو اعتماد میں لیں اور اس اتحاد، انصاف اور معاشرتی مساوات کے نظام کو بحال کریں جس کی صلاحیت انفرادی سطح پر تو ہم لوگوں میں مثالی حد تک موجود ہے مگر اجتماعی سطح پر ہم اس سے وہ کام نہیں لے رہے، جو لیا جا سکتا ہے اور لیا جانا چاہیے۔

گزشتہ دنوں جنگ 65ء کے واحد زندہ ہیرو ایم ایم عالم ہم سے جدا ہو گئے۔ مجھے کوئی تیس برس قبل پشاور ایئربیس پر ان سے ملنے کا موقع ملا تھا جس کی یاد آج بھی میرے دل میں محفوظ ہے۔ اگرچہ جنگ اچھی چیز نہیں مگر جب یہ آپ کے لیے ناگزیر کر دی جائے تو آپ پر لازم آتا ہے کہ بہادری اور شجاعت کے ساتھ اپنے اوپر کیے جانے والے ہر حملے کو پسا کریں اور ایم ایم عالم مرحوم کا یہی وہ حوالہ ہے جو انھیں ہماری قومی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں میں بھی ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ میں نے سات برس قبل یوم پاکستان کے حوالے سے ایک نظم لکھی تھی جو گنتی کے اعتبار سے چھیاسٹھواں برس تھا لیکن چونکہ تہتر (73) کا ہندسہ بھی وزن کے اعتبار سے درست بیٹھتا ہے اس لیے میں اسے اس تبدیلی کے ساتھ درج کر رہا ہوں۔

تہتر سال پہلے ایک دن ایسا بھی آیا تھا

جب اک سورج نکلنے پر

چمکتی دھوپ پھیلی تھی تو منظر جگمگایا تھا

اگرچہ میں نے وہ منظر بچشم خود نہیں دیکھا

مگر جب یاد کرتا ہوں تو سانسیں گنگناتی ہیں

کئی صدیوں سے صحرا میں بکھرتی ریت کی صورت

کروڑوں لوگ تھے جن کا

نہ کوئی نام لیتا تھا نہ کچھ پہچان تھی باقی

ہر اک رستے میں وحشت تھی

سبھی آنکھوں میں حسرت تھی

نہ آبا سی ہنر مندی نہ اگلی شان تھی باقی

کھلا سر پر جو اس اعلان کا خوشبو بھرا سایا!

ہلالی سبز پرچم کا وہ ٹھنڈا، دل کُشا، سایا

تو ان کی جاں میں جاں آئی

لہو میں پھر سے کوئی گمشدہ سی روشنی جاگی

دہن میں پھر زباں آئی

تہتر سال پہلے کا وہ اک احسان، مت بھولو

خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان، مت بھولو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔