عابد بٹ بغیر ٹرینر کے عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے والا تن ساز
عابد بٹ جو کئی سال سے باڈی بلڈنگ کر رہے تھے نے 1959ء میں ملتان میں مسٹر ملتان کے مقابلہ میں شرکت کی۔
1961ء سے آج تک جنوبی پنجاب سے کوئی بھی تن ساز مسٹر پاکستان نہیں بن سکا۔ فوٹو: فائل
ملتان شہر میں پہلوانی کی روایت قدیم ادوار سے چلی آرہی ہے ملتان کے قدیم ناموں میں ایک نام ''مسلھ استھان'' بھی ہے لفظ ''مسلھ'' کا سنسکرت اور ہندی زبان میں تو کچھ اور مفہوم ہے لیکن مقامی ملتانی زبان میں ''مسلھ'' کشتی کو ہی کہتے ہیں اسی نسبت سے ملتان کو پہلوانوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔
تاریخ کے ہر دور میں ملتان میں نامور شہ زور رہے ہیں لیکن شہ زوروں کے اس تاریخی شہر میں روایتی پہلوانی کو چھوڑ کر ایک پہلوان تن سازی کی طرف آیا اور ایسا آیا کہ اس فن میں ایک تاریخ رقم کر گیا، ان دنوں ملتان ایسے شہر میں نہ تو تن سازی کی روایت تھی نہ ہی یہاں اس فن سے متعلق لوگوں میں کسی قسم کی آگاہی تھی لیکن قدرتی صلاحیتوں سے آراستہ تن ساز جن کا نام استاد عابد بٹ تھا تن سازی کے حوالے سے ایک جنون میں مبتلا ہو گئے تھے۔
انہوں نے ایک سال میں ہی باڈی بلڈنگ کے حوالے سے مسٹر جونیئر ملتان، مسٹر پنجاب، مسٹر پاکستان اور مسٹر اولمپیا پاکستان کے ٹائٹل اپنے نام کیے اور اس کے بعد باڈی بلڈنگ کے دو عالمی مقابلوں میں بھی شرکت کی، 28 نومبر 2017ء کی شام ملتان کا یہ نامور سپوت اس جہان فانی سے کوچ کر گیا ، ملتان کے اس کلاسیکل تن ساز نے باڈی بلڈنگ کے حلقوں کو بہت سی حیرتوں سے ہمکنار کیا ان کی جیون کہانی بھی کئی حیرتوں کے در وا کرتی ہے:
استاد عابد بٹ کے والدین کا تعلق امرتسر کے کشمیری بٹ خاندان سے تھا، عابد بٹ1944ء میں امرتسر میں ہی پیدا ہوئے، 1947ء میں جب ان کی عمر تین سال تھی تو یہ اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے ملتان آگئے، ان کے والد صادق بٹ کو پہلوانی اور ورزش کا بہت زیادہ شوق تھا، وہ روزانہ ورزش اور اکھاڑا تو کرتے لیکن باقاعدہ کشتی نہیں لڑتے تھے، ان کے خاندان میں بھی پہلوانی کی روایت پہلے سے ہی موجود تھی بھولو برادران بھی ان کے عزیز تھے، یہ لوگ بھی اکثر و بیشتر ملتان آیا کرتے اور شاہ رسال کے اکھاڑے میں زور کیا کرتے تھے۔
عابد بٹ کو اپنے شہ زور والد کو دیکھ کر ہی ورزش اور پہلوانی کا شوق ہوا، یوں یہ باقاعدہ اکھاڑے میں جا کر زور کرنے لگے، ان دنوں ملتان میں بہت زیادہ کشتیاں ہوا کرتی تھیں، یوتھ سنٹر دولت گیٹ، پیر روڑہ پاک مائی اور قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ہر ہفتے شہ زوری کے مقابلے ہوتے تھے، ابتداً عابد بٹ نے بھی کشتیاں لڑیں لیکن پہلوانی میں کشتی گرانے کے بعد کھڑے ہوکر تماشائیوں سے پیسے لینے والی بات انہیں اچھی نہیں لگی، اس لئے انہوں نے پہلوانی کو خیر باد کہہ دیا اور تن سازی کی طرف آگئے۔
یہ 50 کی دہائی کے ابتدائی سال تھے، جب عابد بٹ تن سازی کی طرف آئے، اس دور کے ملتان کو اگر دیکھا جائے تو اس وقت شہر میں کرکٹ، فٹ بال اور ہاکی جیسے مقبول کھیل موجود تو تھے لیکن ان مقبول کھیلوں کے لئے بھی اس وقت شہر میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں، ہاں اس دور کے ملتان میں پہلوانی کا فن اپنے عروج پر تھا شہر میں سینکڑوں اکھاڑے آباد تھے۔
عابدبٹ جب تن سازی کے فن کی طرف آئے تو ملتان شہر کے چند نوجوانوں نے اپنی اپنی سطح پر باڈی بلڈنگ کلب بنائے ہوئے تھے جنہیں اس دور میں باڈی بلڈنگ کلب کے بجائے ہیلتھ کلب کہا جاتا تھا، یہ ہیلتھ کلبز ان دنوں پارکوں اور باغوں میں بنائے جاتے تھے۔ عابد بٹ نے بھی سٹی ریلوے سٹیشن کے قریب سیٹھ کلیان داس کے باغ میں اپنا یونیورسل ہیلتھ کلب قائم کیا اور صبح و شام محنت شروع کر دی۔
عابد بٹ جو تن سازی کے حوالے سے ایک جنون میں مبتلا ہو چکے تھے، کئی سال تک بغیر کسی ٹرینر اور سہولیات کے اپنی محنت میں لگے رہے، 1952ء سے پاکستان میں مسٹر پاکستان کے مقابلوں کا آغاز ہو چکا تھا اور لاہور کے اقبال بٹ پاکستان کے پہلے مسٹر پاکستان منتخب ہو چکے تھے۔
استاد عابد بٹ جو کئی سال سے باڈی بلڈنگ کر رہے تھے نے 1959ء میں ملتان میں مسٹر ملتان کے مقابلہ میں شرکت کی اس مقابلہ میں ملتان ہی کے ایک معروف تن ساز عمر خان مسٹر ملتان بنے جبکہ عابد بٹ جونیئر مسٹر ملتان بنے ۔ باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن ملتان ڈویژن کے جنرل سیکرٹری افضل بدر بتاتے ہیں کہ 1959ء میں جب عابد بٹ جونیئر مسٹر ملتان بنے تو لاہور اور دیگر تن سازی کے حلقوں میں بھی ایک طرح کی تھرتھلی مچ گئی، ان کا یک دم ابھر کر سامنے آنا بڑے بڑے تن سازوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بن گیا تھا۔
باڈی بلڈنگ کے حوالے سے عابد بٹ کو ابتدائی رہنمائی ان کے والد صادق پہلوان کی طرف سے ملی، والد کے بعد انہوں نے لاہور جا کر استاد اشرف گجر کو باڈی بلڈنگ کے حوالے سے اپنا استاد بنایا، استاد شفیع گجر کا کلب رنگ محل لاہور میں ہوا کرتا تھا، ان کے ساتھ رہ کر عابد بٹ نے بہت زیادہ ایکسرسائز کی جس کا انہیں بعد میں بڑا فائدہ ہوا۔
استاد عابد بٹ کی فتوحات کا آغاز 1959ء میں جونیئر مسٹرملتان بننے سے ہوا یہ ٹائٹل جیتنے کے بعد انہوں نے اور زیادہ محنت کی اور 1961ء میں مسٹر پنجاب کے مقابلہ کیلئے لاہور پہنچ گئے۔ خیر مقابلہ ہوا تو مسٹر پنجاب کا ٹائٹل عابدبٹ کے حصے میں آگیا، لاہور والے حیران تھے کہ ملتان سے ایک لڑکا آیا اور لاہور کے نامور تن سازوں کو ہرا کر مسٹر پنجاب بن گیا۔
مسٹر پنجاب بننے کے کچھ ماہ بعد ہی انہوں نے مسٹر پاکستان کا مقابلہ بھی لڑا یہ مقابلہ بھی 1961ء میں لاہور کے ریٹنر سینما میں ہوا، اس مقابلہ میں پاکستان کے وہ نامور تن ساز بھی شریک تھے جو اس سے پہلے بھی مسٹر پاکستان کا مقابلہ لڑ چکے تھے اسی طرح لاہور کے معروف تن ساز اشرف بٹ، مشتاق بٹ اور عمر بٹ بھی اس مقابلہ میں شریک تھے لیکن عابد بٹ ان سب کو شکست دے کر مسٹر پاکستان بن گئے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ جونیئر مسٹر ملتان سے مسٹر پاکستان بننے تک عابد بٹ کو نہ تو کسی قسم کی کوئی سرپرستی حاصل تھی نہ ہی ان کا کوئی ٹرینر تھا، انہوں نے صرف ملتان سے لاہور جاکر استاد شفیع گجر سے چند روزہ ٹپس لیں باقی سارا سفر اپنی انفرادی محنت اور لگن کی وجہ سے طے کیا۔ عابد بٹ مسٹر پاکستان بننے کے بعد ملتان آئے تو ملتان ریلوے سٹیشن پر ایک بہت بڑا جلوس ان کے استقبال کیلئے موجود تھا، ان کے شاگردوں اور دوستوں نے انہیں پھولوں سے لاد دیا اور انہیں کندھوں پر اٹھا کر گھر تک لائے، عابد بٹ کا مسٹر پاکستان بننا جنوبی پنجاب اور بطور خاص ملتان کیلئے ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔
مسٹر پاکستان بننے کے بعد استاد عابد بٹ کا خواب مسٹر ایشیا اور مسٹر یونیورس بننا تھا لیکن ان کے خواب کی راہ میں دیکھتے ہی دیکھتے بہت سی رکاوٹیں حائل ہوگئیں، مسٹر پاکستان بننے کے فوری بعد 1961ء میں ہی انہوں نے مسٹر اولمپیاء پاکستان کا مقابلہ لڑا اور یہ ٹائٹل بھی اپنے نام کیا، اس مقابلہ میں صرف وہی تن ساز شریک تھے جو اس سے پہلے مسٹر پاکستان بن چکے تھے۔ مسٹر اولمپیاء پاکستان بننے کے بعد انہوں نے مسٹر یونیورس کے مقابلہ کیلئے تیاری شروع کی، 1962ء میں پاکستان باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن نے انہیں مسٹر یونیورس کے مقابلہ کیلئے سلیکٹ کیا اور اس مقابلہ میں شرکت کیلئے یہ 1962ء میں انگلینڈ روانہ ہوئے، اس مقابلہ کی خاص بات عالمی شہرت یافتہ باڈی بلڈر اور فلمسٹار سٹیوریوز کی بطور جج شرکت تھی۔
اس مقابلہ میں عابد بٹ نے چوتھی پوزیشن حاصل کی لیکن جب یہ اس مقابلہ میں شرکت کے بعد پاکستان واپس آئے ان پر چار سال کی پابندی عائد کردی گئی بعد ازاں اس پابندی کو 4 سال کے بجائے 8سال پر محیط کر دیا گیا، اس حوالے سے پاکستان باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کا موقف تھا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کی وجہ سے ان پر پابندی عائد کی گئی لیکن استاد عابد بٹ نے ایک موقع پر اس پابندی کے حوالے سے بتایا تھا کہ ''میں نے ایک لڑکے کیلئے احتجاج کیا تھا ۔
جس کی وجہ سے مجھ پر پابندی لگی'' باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کے لوگ تو پہلے ہی چاہتے تھے کہ میں کسی طرح پکڑ میں آجاؤں سو انہوں نے ایسوسی ایشن کو میرے خلاف لکھنے کا کہا بہرحال یہ سب کچھ مجھے راستے سے ہٹانے کیلئے کیا گیا، بین مجھ پر چار سال کا لگا تھا لیکن اسے یہ لوگ کھینچ کر آٹھ سال تک لے گئے اس بین کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں لاہور کی طاقت ور لابی کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا وہ چاہتے تھے کہ یہ ٹوٹ جائے اور بددل ہوکر مقابلہ سے ہی آؤٹ ہو جائے لیکن میں ضدی تھا میں ضد کر بیٹھا کہ میں پھر آؤں گا، پھر مقابلہ کروں گا۔
میں اس دوران مسلسل ایکسرسائز کرتا رہا، 8 سال کے بعد جب دوبارہ مسٹر یونیورس کیلئے سلیکشن ہوئی تو میں پھر مقابلہ میں شریک تھا، مجھ پر پابندی کے اس عرصہ میں 8 باڈی بلڈرز مسٹر پاکستان بن چکے تھے لیکن میں نے ان سب کو شکست دی اور ایک بار پھر مسٹر یونیورس کے مقابلہ کیلئے سلیکٹ ہو گیا، مسٹر یونیورس کا یہ دوسرا مقابلہ 1971ء میں بلغراد میں ہوا تھا، اس مقابلہ کی خاص بات عالمی شہرت یافتہ باڈی بلڈر آرنلڈ شیوازینگر کی شرکت تھی۔
آرنلڈ اس وقت بالکل ینگ لیکن بڑا مشہور باڈی بلڈر تھا، اس وقت تک وہ مسٹر یونیورس نہیں بنا تھا صرف مقابلہ دیکھنے کیلئے آیا ہوا تھا میرا خیال ہے اور دو تین سال بعد مسٹر یونیورس بنا۔ مسٹر یونیورس کے اس مقابلہ میں میری پانچویں پوزیشن آئی تھی، انہی دنوں میری خواہش مسٹر ایشیا کا مقابلہ لڑنے کی بھی تھی جس کی میں نے تیاری بھی کی لیکن لاہور کی لابی مجھے بھیجنا ہی نہیں چاہتی تھی، انہوں نے اس وقت مسٹر ایشیا کے مقابلہ کیلئے لاہور کے مشتاق چھینہ کو بھیجا جسے میں مسٹر پاکستان کے مقابلہ میں ہرا چکا تھا۔''
استاد عابد بٹ جنہوں نے ملتان میں رہتے ہوئے نہ صرف اپنے بل بوتے پر تن سازی کے کھیل میں بہت سے میدان مارے بلکہ ملتان ایسے شہر میں تن سازی کی ایک مضبوط روایت بھی قائم کی۔ انہوں نے 1980ء میں کراچی میں منعقدہ سینئر باڈی بلڈرز کے مقابلہ ''ماسٹرز اولڈ ٹرافی'' میں بھی شرکت کی، اس مقابلہ میں بھی انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔
1961ء میں جب یہ مسٹرپاکستان بن کر ملتان آئے تو اس وقت کے ملتان میں انہیں ایک افسانوی شہرت حاصل ہوئی، ان کی ملتان میں عوامی سطح پر پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ عابد بٹ جہاں جہاں سے گزرتے لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر صرف انہیں دیکھتے تھے۔ ملتان میں استاد عابد بٹ کے ہیلتھ کلب باغ کلیان داس قلعہ کہنہ پر دمدمہ کے قریب اور چوک شہیداں میں ایک پرائمری سکول کے گراسی پلاٹ میں قائم رہے، مسٹر پاکستان بننے کے بعد انہوں نے پاک عابد ہیلتھ کلب کے نام سے ایک کلب قائم کیا جہاں یہ ایکسرسائز کیا کرتے تھے۔
ان دنوں پاک عابد ہیلتھ کلب کے سامنے سرشام لوگوں کے ٹھٹھ لگ جاتے تھے جو صرف عابد بٹ اور ان کے شاگردوں کو ایکسرسائز کرتے ہوئے دیکھتے تھے۔ استاد عابد بٹ نے اپنے چھوٹے بھائی زاہد بٹ کو بھی باڈی بلڈنگ کی ٹریننگ دی جو ان کے بعد مسٹر پنجاب بنے، زاہد بٹ نے مسٹر اولمپیاء پاکستان کے مقابلہ میں بھی شرکت کی اور رنر اپ رہے، بعد ازاں ان کا بھتیجا محمود بٹ بھی مسٹر ملتان، مسٹر ملتان ڈویژن اور مسٹر اولمپیاء ملتان رہا، استاد عابد بٹ نے ملتان میں باڈی بلڈنگ کے حوالے سے بہت سے شاگرد بنائے، ملتان میں آج بہت سے ہیلتھ کلب ان کے شاگرد ہی چلارہے ہیں۔
استاد عابد بٹ جب 1961ء مسٹر پاکستان کا اعزاز ملتان لائے تھے تو انہیں عوامی سطح پر بہت زیادہ شہرت اور پذیرائی ملی لیکن سرکاری سطح پر انہیں جو پذیرائی ملنا چاہئے تھی اس سے یہ زندگی بھر محروم رہے، 1961ء سے آج تک 50 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی ملتان اور جنوبی پنجاب سے کوئی بھی تن ساز مسٹر پاکستان نہیں بن سکا۔
ان کی اپنی زندگی میں یہ خواہش تھی کہ ملتان میں سرکاری سطح پر ان کے اعزاز میں کوئی تقریب کی جاتی اور ملتان کے اس نامور سپوت کو ان کے اعزازات کے مطابق خراج تحسین پیش کیا جاتا' استاد عابد بٹ کی دوسری خواہش یہ تھی کہ ملتان میں قلعہ کہنہ پر جہاں ملتان کی دیگر نامور شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں وہاں ان کی تصویر بھی آویزاں کی جائے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ استاد عابد بٹ یہ دونوں خواہشیں اپنے دل میں لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ 28نومبر کی شام ملتان کا یہ نامور سپوت سپرد خاک ہو گیا' ان کی وفات پر بھی انتظامی اور سماجی سطح پر انہیں کوئی خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا' اس سماج کی اس سے بڑھ کر اور بدقسمتی کیا ہو گی کہ یہ اپنے نامور لوگوں کو بھی ان کے حق سے محروم رکھتا ہے۔
امریکی ریسلر کنگ کانگ کو چیلنج
معروف پہلوان بھولو برادران عابد بٹ کے رشتہ دار تھے دیسی کشتی میں ان کا بڑا نام تھا، یہ لوگ اکثر ملتان آیا کرتے اور کئی کئی دن مقیم رہتے تھے۔ 60ء کی دہائی میں بھولو برادران نے ملتان میں ایک فری سٹائل دنگل کرایا جس میں امریکی ریسلر کنگ کانگ کو بھی بلایا گیا ۔ قلعہ کہنہ پر یہ دنگل ہونا تھا وہیں پہلوان ورزش بھی کرتے تھے۔ استاد عابد بٹ جانتے تھے' پہلوانوں کے یہ مقابلے زیادہ نورا کشتی کے ہی تھے۔
عابد بٹ نے سوچا میں ان پہلوانوں سے زیادہ بہتر کشتی لڑ سکتا ہوں۔ سو انہوں نے کنگ کانگ کو چیلنج کرنے کیلئے بھولو پہلوان کو ایک چٹ بھیجی، عین دنگل کے وقت انتظامیہ کو وختہ پڑ گیا۔ انہوں نے قلعہ کے چار اطراف لوگ کھڑے کر دیئے کہ عابد بٹ اندر نہ آنے پائے جیسے ہی یہ قلعہ کے قریب پہنچے تو لوگ انہیں پکڑ کر ایک طرف لے گئے کہ یار تم نے کشتی لڑنا ہی تھی تو ہمیں بتاتے ہم کسی اچھے پہلوان سے تمہاری کشتی رکھوا دیتے۔ عابد بٹ نے ان لوگوں سے کہا میں ایک نامور آدمی ہوں اور کسی نامور آدمی سے ہی کشتی لڑونگا۔ دراصل انتظامیہ چاہتی ہی نہیں تھی کہ عابد بٹ کسی پہلوان سے کشتی لڑے اگر یہ جیت گیا تو پہلوان کی بے عزتی ہو گی۔
اسٹیوریوز اور ٹانگوں کے غیر معمولی مسلز
استاد عابد بٹ کے جسم میں سب سے نمایاں حصہ ان کا سینہ تھا' انہوں نے مسٹر پاکستان کے مقابلہ میں بیسٹ چیسٹ کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی ٹانگوں کے مسلز بھی غیر معمولی تھے، جب یہ مسٹر یونیورس کے پہلے مقابلے میں شرکت کیلئے انگلینڈ گئے تو عالمی شہرت یافتہ باڈی بلڈر اور اداکار سٹیوریوز بھی بطور جج شریک تھا، پوزنگ کے وقت وہ عابد بٹ کی ٹانگوں کے مسلز دیکھ کر حیران تھا' کافی دیر تک وہ ان کی ٹانگوں کو غور سے دیکھتا رہا اسے کچھ شک ہوا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر عابد بٹ کے پاس آیا اور ان کی ٹانگوں کے مسلز کو باقاعدہ چھو کر دیکھا کہ کوئی جعلسازی تو نہیں کر رکھی' پھر مطمئن ہو کر اپنی جگہ بیٹھ گیا ۔