کراچی کی اصل آبادی کتنی ہے
پانی سپلائی کی اس قلت نے ٹینکر مافیا کو پرکشش موقع فراہم کیا ہے
لاہور:
اگرچہ ہم 21 ویں صدی میں جی رہے ہیں، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم شماریات کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔ یہ حقیقت اس وقت اور بھی کھل کر سامنے آتی ہے جب قومی مردم شماری کی بات ہو جو ملک میں ہر قسم کی منصوبہ بندی کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ حکومت نے 19 سال کے وقفے کے بعد بالآخر سپریم کورٹ کے دباؤ پر مردم شماری کرائی حالانکہ آئین کے مطابق یہ ہر دس سال بعد ہونی چاہیے۔ اس مردم شماری کے عبوری نتائج کو خاص طور سے سندھ حکومت کی جانب سے چیلنج کیا گیا ہے۔ اس مہم کی قیادت انتہائی محنت سے کام کرنے والے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کی۔کراچی میں رہنے والے کسی بھی شخص کے لیے اس مردم شماری کے اعداد وشمار کے درست ہونے پر یقین کرنا مشکل ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے عبوری اعداد وشمار کے مطابق کراچی کی دیہی اور شہری آبادی 16 ملین کے قریب ہے۔(کراچی کے دو اضلاع کو دیہی قرار دینے کا طریقہ کارکیا تھا، اس پر حیرت ہے۔بہر حال اس معاملے پر پھرکبھی بات ہو گی)
اگر کراچی کی مردم شماری کے عبوری نتائج کو مان لیا جائے تواس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے19 سال کے دوران شہر کی آبادی میں 2.5 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے،جس پر یقین کرنا مشکل ہے۔1947ء میں ملک قائم ہونے کے بعد سے کراچی کی آبادی میں اضافہ کی شرح3.5 فیصد سے کم نہیں رہی۔ اس شرح کے مطابق کراچی کی آبادی19 ملین ہو گی،16 ملین نہیں ہو سکتی جیسا کہ عبوری اعداد وشمار میں دکھایا گیا ہے۔ ایسے مضبوط عوامل موجود ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف دوسرے صوبوں اور سندھ کے دیہی علاقوں سے داخلی طور پرکراچی کی طرف نقل مکانی ہوئی، بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور میانمار جیسے بعض ملکوں کے لوگ بھی یہاں آ کر آباد ہوئے۔
یوں لگتا ہے کہ مردم شماری کرنے والوں نے پچھلے 19 سال کے دوران کراچی آنے والے تارکین کو شمار نہیں کیا۔کراچی کے سیاست دان دعویٰ کرتے ہیں کہ 2.6 فیصد کی شرح اضافہ قومی آبادی میں فطری شرح اضافے سے معمولی زیادہ ہے۔کراچی کی آبادی کو کم شمار کرنے کی ایک وجہ غالباً یہ ہے کہ خیبر پختونخوا،جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ سے کراچی آنے والے تارکین کے پاس جو قومی شناختی کارڈ ہیں ان پر ان لوگوں کے آبائی شہر کا مستقل پتہ درج ہے۔
چنانچہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ ان لوگوں کو ان کی مستقل رہائش والے آبائی شہر میں شمار کیا گیا ہو۔یہ درست ہے کہ کسی فرد کو دو مقامات پر شمار نہیں کیا جا سکتا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ داخلی تارکین اب کراچی کے تقریبا ًمستقل باشندے ہیںاور تمام بنیادی سہولتیں استعمال کر رہے ہیں۔چنانچہ منصوبہ بندی کے دوران صوبائی اور سٹی گورنمنٹ کو کراچی کی 19 ملین سے زیادہ آبادی کے لیے سہولتیں فراہم کرنا ہوتی ہیں۔یہ اعداد و شمار سٹی گورنمنٹ کے اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتے جو کہتی ہے کہ کراچی کو تقریباً22 ملین افراد کی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ شہری سہولتوں میں سرمایہ کاری کبھی بھی آبادی میں اضافے کی شرح کے مطابق نہیں رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایسے طبقے کو جو کچھ نہیں کرتا یا یہ کہنا چاہیے کہ مافیا کو غریب شہریوں کی قیمت پر اس خلا کو پرکرنے کے لیے کھلی گنجائش فراہم کر دی گئی۔ سہولتوں کی طلب اور رسد کے پچھلے مسائل اتنے زیادہ ہوگئے کہ اب ان کا پہاڑ بن گیا ہے۔
تین بڑے شعبوں؛ ہاؤسنگ ، ٹرانسپورٹ اور پانی کی طرف دیکھیے۔ ہاؤسنگ کی مانگ اور سپلائی میں ہر سال تقریباً200 یونٹس کے حساب سے خلا بڑھ رہا ہے۔
ہم نے پچھلے 30 سے40 سال کے دوران شہر میں غریب محنت کش طبقات کے لیے ایک بھی ہاؤسنگ اسکیم کے بارے میں نہیں سنا جب کہ امیر کبیر لوگوں کے لیے ہاؤسنگ اسکیموں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ کو بے دریغ طریقے سے فروغ ملا ہے جب کہ غریبوں کو قبضہ مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ایک موقر ذریعے کے مطابق،اس صورت حال کے نتیجے میں تقریباً ہر تیسرا فرد کچی آبادی میں رہتا ہے۔ یہ آبادیاں زمین پر قبضہ کرنے والوں کی طرف سے قائم کی جاتی ہیں جہاں شہری سہولتوں کا بہت برا حال ہوتا ہے۔ صوبائی اور سٹی گورنمنٹ، دونوں پانی کی مناسب مقدار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔1.18 ایم جی ڈی کی مانگ کے مقابلے میںسپلائی بہت کم ہے۔
پانی سپلائی کی اس قلت نے ٹینکر مافیا کو پرکشش موقع فراہم کیا ہے۔ یہ مافیا مقامی بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی ملی بھگت سے پنپتا ہے اور3000 گیلن پانی کے5000 روپے وصول کررہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر چلنے والے پانی کے بڑے ٹینکرز پر پاکستان کے بعض دور دراز شہروں کا رجسٹریشن نمبر ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ٹینکر شہرکی سڑکیں تو استعمال کرتے ہیںمگر اس شہر کو روڈ ٹیکس یا وہیکل رجسٹریشن ٹیکس ادا نہیں کرتے۔سوئم یہ کہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی مانگ اور سپلائی میں بہت بڑا خلا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ کی دستیابی 22 ہزار بسوں اور منی بسوںسے کم ہو کر صرف آٹھ ہزار رہ گئی ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ کی اس قلت کی وجہ سے شہر میں 50,000 کے قریب چنگچی رکشے اور1.5 ملین موٹر بائیکس سڑکوں پر ہیں۔ صوبائی حکومت گرین لائن بس سروس پر کام کر رہی ہے مگر یہ شیڈول سے پیچھے ہے اور سفرکرنے والے لوگوں کی بہت زیادہ ضروریات کو پورا نہیں کر پائے گی۔کئی سال سے مختلف حکومتیں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے بارے میں بہت کچھ کہتی رہی ہیں۔اب یہ خواب CPEC کی جادو کی چھڑی سے جوڑ دیا گیا ہے،چنانچہ اب انتظار کرنا چاہیے۔
شہری سہولتوں کی قلت نے،جیسا کہ اوپر ذکرکیا گیا ہے، بیوروکریسی، سیاست دانوں اور نجی شعبے کی مافیاکی بد عنوانی کے لیے ایک ایک بہت بڑی کھڑکی کھول دی ہے۔کیا اس سیوک کرائم کا ارتکاب ارادتاً کیا جا رہا ہے یا یہ محض ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی ہے جو اپنے فرائض ادا نہیں کرتے؟صورت حال کچھ بھی ہو،آبادی کے حقیقت پسندانہ اعداد وشمار کی غیر موجودگی میں کوئی معروضی منصوبہ بندی اور وسائل کی تخصیص ممکن نہیں ہے۔