جوزف کالونی جیسے سانحات سے بچنے کے لئے مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے

ایکسپریس فورم میں سانحہ جوزف کالونی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر مقررین کا اظہار خیال۔


Shehzad Amjad March 20, 2013
مولانا عبدالخبیر آزاد۔ فوٹو: ایکسپریس

اسلام امن کا دین ہے ۔ یہ اخوت ، بھائی چارے ، رواداری اور برداشت کا درس دیتا ہے اور وہی معاشرہ صحیح معنوں میں ترقی کرتا ہے جہاں تحمل اور بردباری جیسی روایات مضبوط ہوں۔

پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اس میں مذہبی رواداری کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کے زیر اہتمام سانحہ جوزف کالونی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف مکتبہ فکر کے مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو قارئین کی نذر ہیں۔

سینیٹر کامران مائیکل (مرکزی جنرل سیکرٹری مسلم لیگ (ن) اقلیتی ونگ و چیئرمین تحفظ اقلیتی املاک کمیٹی پنجاب)

''جوزف کالونی کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ معاشرے کے تمام طبقات کو مل بیٹھ کر اس پرغور کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسیحی محب وطن پاکستانی ہیں، ریاستی دہشت گرد نہیں ہیں لیکن ہمیں ظلم وستم کی وجہ سے دیوار سے لگایا جارہاہے ۔ جوزف کالونی جیسے واقعات کو سلجھانے میں علماء کرام کا رول بہت اہم ہے۔ جب تک 295سی کے قانون کے غلط استعمال کو روکا نہیں جائے گا مسیحی قوم کے ساتھ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے، اس میں تمام مسیحیوں کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ اپنی اپنی پارٹی کے ساتھ ضرور تعلق رکھیں لیکن مسیحی ایشوز پر سب کو اکٹھے ہونا چاہیے۔

افسوس کی بات ہے کہ اس واقعہ کے بعد جوزف کالونی میںجتنے بھی ہمارے اقلیتی بھائی آئے ہیں انہوں نے وہاں کے متاثرین کیلئے کوئی عملی کام نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے اس واقعہ کا پورا نوٹس لیاہے اور ہم دن رات کام کررہے ہیں اور فوٹیج کے ذریعے لوگوں کو چیک کیاجارہا ہے جو بھی اس واقعہ میں ملوث ہوا اس کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے گا۔'' انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے بھی جو واقعات ہوئے اس میں ملزموں کو گرفتار کیاگیا لیکن مدعیوں کے ساتھ صلح ہونے کی وجہ سے ملزم عدالتوں سے رہا ہوگئے، اس میں پنجاب حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے۔

گوجرہ کے سانحہ میں لوگوں کو گرفتار کرکے چالان کئے گئے تھے لیکن مدعیوں کے ساتھ صلح ہونے کے بعد وہ ملزم عدالتوں سے رہا ہوگئے، اس میں حکومت کیاکرسکتی ہے۔ سانحہ جوزف کالونی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ حکومت نے سکیورٹی فراہم نہیں کی، ایسا نہیں ہے، ایس پی پولیس کے نیچے آٹھ تھانے ہوتے ہیں انہیں اضافی ریزرو منگوانے کیلئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ، وہ خود مختار ہوتاہے۔ اس طرح کے ایشوز کو حل کرنے کے لئے لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام لوگ مل بیٹھ کر سوچیں، کوئی اکیلا کچھ نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے ممبران اس واقعہ پر استعفے دینے کا ڈرامہ کررہے ہیں اگر ان کو اتنا ہی افسوس ہوا ہے تو جب اے پی ایم ایل کے چئیرمین شہباز بھٹی کاقتل ہوا انہوں نے اس وقت احتجاجاً استعفیٰ کیوںنہیں دیا ، اب یہ حکومت کے خاتمے کے چار دن پہلے استعفے دے رہے ہیں۔ مسیحی قوم کو بھگوڑے لیڈروں کی ضرورت نہیں ہے سب کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنے وعدے پورے کئے ہیں، لوگوں کو گھر بناکردیئے رہے ہیں، باقی نقصان بھی پوراکریں گے ، باقی لوگ صرف سیاست کررہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور ان معاملات کا حل صرف ڈائیلاگ ہے۔ ''

مولانا سید عبدالخبیر آزاد (خطیب بادشاہی مسجد)

''بادامی باغ میں جوکچھ بھی ہوا وہ اسلامی تعلیمات کے منافی تھا۔ اسلام کسی بھی جگہ کو جلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں تو ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف قراردیا گیا ہے۔ ہم نے بادشاہی مسجد میں بھی یوم رواداری کے حوالے سے بڑی تقریب منعقدکی جس میں مختلف مذاہب کے رہنمائوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ بادامی باغ جیسے واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ میں خود ڈیڑھ بجے وہاں پہنچا۔ پولیس اور انتظامیہ کا اپنا کام ہے تاہم اگر ہمیں بھی دعوت دیدی جاتی تو شائد اتنا بڑا سانحہ نہ ہوتا۔

ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو بچایا جائے ۔ اس وقت ملک کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں ۔ کوئٹہ اورکراچی کے واقعات میں جید علمائے کرام کی شہادتیں ہوئیں۔ یہ واقعات صرف مسیحیوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے خلاف بہت بڑی سازش ہیں جن سے ہم سب کو مل کر نمٹنا ہے۔ صدیوں سے مسلم مسیحی اچھا تعلق چلا آرہا ہے مگر چند شرپسند حالات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان شرپسندوں کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ تمام انبیاء کی تعلیمات میں ہمیں محبت پیار اور امن ملے گا۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے کا نفع سوچے اور دوسرے اس سے محفوظ رہیں۔

ساڑھے چودہ سو سال قبل نبی کریم ﷺ نے نجران کے غیر مسلم وفد کیلئے مسجد نبوی کے دروازے کھول دیئے تھے اور انہیں ان کے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت بھی دی تھی۔ ہمیں مقامی لوگوں نے بتایاکہ بادامی باغ میں باہر سے لوگ آئے جنہوں نے یہ کام کیا۔ ہم انسانیت کے ناطے سب بھائی ہیں ، یہ وطن ہمارا ہے اور لاکھوں انسانوں نے اس ملک کے لئے قربانیاں دیں۔ ہم ادھر ادھر جانے کی بجائے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ بڑی اچھی بات ہے کہ حکومت نے تعمیراتی کام مکمل کرلیا ہے۔ مسلم اور مسیحی مل کر مقامی سطح پر مصالحت کی کوشش کررہے ہیں اور ہماری کوشش ہے آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔ ''

فیصل میر (کنوینیر کرسچین مسلم اتحاد)

''میری رائے میں پاکستان کے تمام سکولوں کے نصاب میں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کیلئے صرف غیر مسلم کا لفظ استعمال کیا جانا چاہئے تاکہ مسلمان بچے ، بچیوں میں ابتدائی تعلیم کے دوان ہی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے خلاف جذبات ابھارنے کے عمل کو روکا جاسکے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ کسی شخص نے توہین رسالت کا جھوٹا الزام عائد کیا تھا تو اسے فوری طور پر توہین رسالت کے جرم میں سزا دی جائے ۔ یہ قانون بھی مسیحی برادری کی حفاظت کیلئے مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ فیروز پور روڈ پر سانحہ جوزف کالونی کے خلاف مظاہرہ میں پنجاب حکومت کے خلاف تقریر کرتے ہوئے مجھے پچاس کے قریب مسیحی نوجوانوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا جنہیں پولیس نے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔

گرفتاری کے بعد حوالات میں مجھے اندازہ ہوا کہ آج کا مسیحی نوجوان اپنے بزرگوں کے امن پسندی کی تعلیمات کے دائرے اور بندھن کو توڑ کر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے تیار ہوچکا ہے اس لئے مسیحی برادری کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوںکو روکنا ضروری ہے ۔ پنجاب میں مذہب کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال پاکستان کی بنیادوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت کے دوران گزشتہ پانچ برس میں پنجاب میں مسیحی برادری کے خلاف پانچ بڑے پرتشدد واقعات پیش آئے ان میں سے گوجرہ کے واقعے پر جسٹس اقبال حمیدالرحمن کی سربراہی میں بننے والے ٹریبونل نے دو سو اٹھاون صفحات پر مبنی رپورٹ میں پنجاب حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا، یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ ''

نجمی سلیم (کوآرڈنیٹر آل پاکستان مینارٹیز الائنس پنجاب ، پیپلزپارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی)

''جوزف کالونی کا واقعہ بہت بڑا ایشو ہے اورمسیحی قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ صر ف ایک واقعہ نہیں بلکہ مسیحیوں کے خلاف ہونیوالے واقعات کی سیریز ہے۔ گوجرہ شانتی نگر کے واقعات پہلے رونما ہو چکے ہیں، ایسے واقعات یقینی طور پر مسیحی قوم کے لئے تکلیف دہ عمل ہے۔ علماء کرام کو مل کر سوچناچاہئے اور ایسا لائحہ عمل مرتب کیاجائے جس میں مذہبی روا داری کو فروغ دینا شامل ہو۔ اس ایشو پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ جوزف کالونی واقعہ میں لینڈ مافیا بھی ملوث ہوسکتاہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو ختم ہوناچاہیے، صرف لفظوں کی بات نہیں ہونی چاہئے۔''

سردار محمد خان لغاری (سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان سواد اعظم)

''ایکسپریس نے تمام مذاہب کے افراد کو یوم رواداری کے حوالے سے اکٹھاکرکے اچھا اقدام کیا ہے۔ تمام مسائل کا حل گفتگوکے ذریعے نکالاجاسکتا ہے۔ ہم سب کو تلخیوں سے بچ کر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ مذاہب اور اپنے مسلک کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات ہیں کہ کوئی آپ کے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کے آگے کردو۔ مذاہب کا حلیہ اصل میں سرمایہ داروں نے بگاڑا ہے، یورپ میں چرچ اور ہمارے ہاں بھی مذہب پر سرمایہ داروں نے قبضہ کرلیا ہے۔ سب خرابی پیسے کی وجہ سے ہورہی ہے ، باہر سے آنے والا پیسہ وزارت مذہبی امورکے ذریعے اداروں کو ملنا چاہئے تاکہ پتہ چلے کہ مذہب کے لئے آنے والا یہ پیسہ کہیں کوٹھیوں پر تو نہیں لگایا جارہا۔ تعلیمی نصاب بناتے وقت دوسرے مذاہب کے ماہرین کو بھی بٹھایا جائے۔ بیرونی سازشوں کے نتیجے میں ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں جو الیکشن کی فضاء کو ختم کرنے کی کوشش ہیں۔''

مولانا عبدالمعید اسد (مرکزی رہنما مجلس علماء پاکستان)

''جوزف کالونی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہیں، یہ واقعہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام میں یہ واضح ہے کہ کسی ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، ہم نے اس واقعہ کے خلاف مسیحی برادری سے یکجہتی اور رواداری کے لئے بادشاہی مسجد میں یوم روادری منایا اور آئندہ بھی جو کوئی مسیحیوں اور مسلمانوں کو باہم ملانے کیلئے کوشش کرے گا ہم سب پوری طرح اس کا ساتھ دیتے رہیں گے اور اس کے لئے اﷲ کے حضور دعا کرتے ہیں۔''

پرویز سرویا (صدر پیپلزپارٹی مینارٹی ونگ لاہور)

''حسب روایت مسیحیوں کے ساتھ یہ واقعہ بھی ن لیگ کی حکومت میں پیش آیاہے، پنجاب میں جہاں پر مسیحیوں پر ظلم ہورہا ہے، اس میںسیا سی لوگ ملوث ہوتے ہیں، ہم چیف جسٹس آف پاکستان کے شکرگزار ہیں جنہوں نے اس پر نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کہ سیکشن 109 کے تحت اس واقعہ پر پنجاب کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے، وہ بھی برابر کے مجرم ہیں اور جن لوگوں نے بائبل مقدس کو جلایا ان کے خلاف بھی 295سی کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔ جوزف کالونی جیسے واقعات کو روکنے کے لئے مسلم اور کرسچین بھائیوں کومل کر ا یک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا ہوگا اور ان کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوںگی۔ ان واقعات کی تحقیقات کرتے وقت ان باتوں کی بھی تحقیقات کرنی چاہیے کہ اس کے پیچھے قبضہ گروپوں کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں جو قیمتی اراضی پر قبضہ کرنے کے لئے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں ۔''

سہیل جانسن (سماجی رہنما و سربراہ شیئرنگ منسٹری تنظیم)

''جوز ف کالونی کے واقعہ پر مسیحیوں کے گھروں میں ماتم ہے اور وہ افسردہ ہیں، اس طرح کے واقعات سے مسیحی کچھ اورسوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ جوزف کالونی کے واقعہ نے گوجرہ اور شانتی نگر کے زخم تازہ کردئیے ہیں۔ میں نے اس واقعہ کی پوری مانیٹرنگ کی ہے جب تک لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا، اس طرح کے واقعات جاری وساری رہیں گے اور اس طرح کے پر تشدد واقعات کی روک تھام نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ روا داری کی کوشش جاری رکھی جائے۔ مذہبی رواداری کے فروغ سے رویوں کو تبدیل کیا جاسکتاہے اس مسئلہ کا حل صرف ڈائیلاگ ہے تلخیاں بھلاکر تمام مذاہب کے لوگوں کو مل کر سوچنا ہوگا۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ اقلیتو ں کو انصاف فراہم کیا جائے ، اگر انصاف نہیںملے گا تو اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔''

جے پرکاش (ہندو رہنما)

'' پاکستان میں اقلیتیں استحصال کا شکار ہیں جس ملک کی معیشت خراب ہوتی ہے، جہاں بیروز گاری ہوتی ہے وہاں پر بیرونی طاقتیں لوگوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں اور جوزف کالونی کامعاملہ بھی اس طرح کا ہی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس واقعہ کو بھی زمین پر قبضہ کی کوشش کے لئے کیاگیا۔ یہاں کچھ ایسے قوانین ہیں جن سے دوسرے مذاہب کے بارے میں غلط تاثر جاتا ہے ، جیسے شراب ہندو مذہب میں بھی حرام ہے مگر پاکستان میں ہندوؤں کو شراب پینے کی اجازت ہے جس سے دوسرے لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہندو مذہب میں شراب جائز ہے، اس طرح کے قوانین کا خاتمہ ہونا چاہئے۔

اسی طرح دہشت گردی بھی تمام مذاہب میں حرام ہے اور تمام مذاہب محبت اور روا داری کا درس دیتے ہیں۔ دہشت گردی اور جوزف کالونی جیسے واقعات کو روکنے کے لئے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا ہوگی۔ بچوں کو ابتداء سے ہی مذہبی ہم آہنگی کی تعلیم دی جائے اور دوسرے مذہب سے نفرت کی بجائے محب سکھائی جائے اورقانون پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ اگر پاکستان سے اس طرح کے واقعات اور دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو قانون پر سب سے عملدرآمد کرانا ہوگا۔''

اسلم پرویز سہوترا (صدر مسیحا ملت پارٹی)

''جوزف کالونی کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی مسیحی برادری کے ساتھ بڑے بڑے واقعات پیش آئے ۔ اس سے پہلے گوجرہ میں زندہ لوگوں کو جلادیا گیا۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے واقعات کا ہونا تو ایک طرف ان کی روک تھام کے ذمہ دار انہیں روکنے کی بجائے ہونے کیوں دیتے ہیں۔ جوزف کالونی میں ساون مسیح پر الزام لگا تو پولیس اور ڈی سی او لاہور نے میرے سامنے اقرار کیا ہے کہ تمام واقعہ وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے نوٹس میں تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے مگر اس کے باوجود انتطامیہ نے غفلت برتی ہے۔

صوبائی حکومت اس واقعہ کی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ اب مسیحی قوم یہ چاہتی ہے کہ غفلت برتنے میں جن لوگوں نے کردار ادا کیا ان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں نے گھر جلائے ، ٹی وی فوٹیج میں وہ واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں جنہوں نے یہ کیا اور جنہوں نے انہیں نہیں روکا، سب کو سخت ترین سزا ملنی چاہئے۔ایسے ہی جب گوجرہ کا سانحہ ہوا تو اس سے دو گھنٹے قبل وہاں کے ایک مسیحی لیڈر نے مجھے فون کیا کہ وہاں تقریریں ہورہی ہیں اور خطرہ ہے کہ گھروں کو آگ لگائی جائے گی ، وہاں کی پولیس ناکام ہوچکی ہے آپ اس کی روک تھام کے لئے کچھ کریں۔

میں نے اس وقت کے آئی جی سلیم ڈوگر سے بات کرنے کی کوشش کی اور دو گھنٹے کی کوشش کے بعد ان سے بات ہوئی اور میں نے ان سے کہا کہ پولیس لوگوں کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے آپ وہاں رینجرز تعینات کریں ، تو انہوں نے جواب دیا کہ میری وزیراعلیٰ سے بات ہورہی ہے اور کامران مائیکل اور ذوالفقار کھوسہ موقع پر موجود ہیں جب تک وہ نہیں کہیں گے رینجرز نہیں بھیج سکتے۔ اس کے بعد سانحہ گوجرہ ہوگیا اگر وہاں بروقت رینجرز تعینات کردی جاتی تو سانحہ گوجرہ سے بچا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب مسلم، مسیحی، ہندو، سکھ اور دیگر مل کر طے کریں کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے کیا حکمت عملی بنائی جائے۔''

کمال چغتائی (ایم پی اے اقلیتی ونگ ن لیگ)

''پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لئے جس طرح دیگر مذاہب کے لوگ کام کرتے ہیں ہم مسیحیوں نے بھی بے انتہا کام کیا ہے، پاکستان بنانے میں مسیحیوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ 11 اگست 1948 کو قائداعظم نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے افراد کو مساوی حقوق حاصل ہیں ۔ اسلم پرویز نے جو یہ کہا کہ سانحہ جوزف کالونی میں صوبائی حکومت ملوث ہے تو یہ کہنا درست نہیں کیونکہ کسی ایک واقعہ میں صوبائی حکومت کو ملوث ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہے۔ جب گوجرہ کا واقعہ ہوا تو لوگوں کو کہا گیا تھا کہ اپنا گھر چھوڑ دیں کیونکہ وہاں خطرہ تھا۔

جن لوگوں نے گھر نہیں چھوڑے اور گھروں کے اندر ہی موجود رہے وہ دم گھٹنے سے مرے، کسی کو زندہ نہیں جلایا گیا۔ پنجاب حکومت نے جس طرح سانحہ جوزف کالونی کے بعد مسیحیوں کا ساتھ دیا اس پر ہم پنجاب حکومت کے شکر گزار ہیں جس طرح فوری طور پر متاثرین کا نقصان پوا کیا اور 5لاکھ روپے فی کس دیئے قابل تحسین ہے۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں مگر کسی اور حکومت نے کبھی توجہ نہیں دی تھی مگر پنجاب حکومت نے جو کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کراکے اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔''

خلیل طاہر سندھو (پارلیمانی سیکرٹری برائے اقلیتی امور پنجاب اسمبلی)

جوزف کالونی میں جو سانحہ پیش آیا وہ انتہائی قابل افسوس ہے، میں اس حوالے سے بات کروں گا کہ جب پاکستان بنا تو کئی اسلامی جماعتوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی مگر مسیحیوں نے پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے اس کے حق میں ووٹ دیا، اس وقت ملک خطرناک صورتحال کی طرف جا رہا ہے، شیعہ ہزارہ برادری اور مساجد پر حملے ہورہے ہیں ، یہ صورتحال بہت خطرناک ہے، اسلام امن کا مذہب ہے اور اولیاء کرام نے امن و امان کے ذریعے ہی اسلام پھیلایا تھا۔ اقبال حمیدا لرحمن نے گوجرہ واقعہ کی انکوائری میں ڈی سی او اور ڈی پی او احمد رضا طاہر کو کسی انتظامی پوسٹ کے لئے نااہل قرار دیا مگر ان افسران کو ترقی دی گئی کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے کہ اس طرح کے واقعات کا حل نکالاجاسکے۔''

بھاون داس (ایم این اے مسلم لیگ ن سندھ)

''ہمارا ملک پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے جن میں دہشت گردی سر فہرست ہے اس لئے مزید اس طرح کے واقعات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس وقت ملک کے اندر رواداری کا بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اس مسئلے کو مل بیٹھ کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔''

ڈاکٹر لیاقت قیصر (ایف جی چرچز آف پاکستان کے ترجمان)

''میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ میرا تعلق چرچ سے ہے اور جوزف کالونی کے مکینوں کے لئے پوری مسیحی قوم دعا کررہی ہے نہ صرف مسیحی بلکہ مسلمان بہن بھائیوں نے ان کے لئے جس رواداری کا مظاہرہ کیا اور ان کی مدد کے لئے آگے آئے اس سے پہلے کسی واقعے میں ایسا نہیں ہوا۔ یہ ایک مثبت عمل ہے اس سے ملک میں رواداری اور خوشحالی کو فروغ ملے گااور میں چاہتا ہوں کہ یہ امن کا عمل جاری رہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب بھی ملک میںکوئی بڑاسانحہ ہوتا ہے ہم متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد انہیں بھول جاتے ہیں اور جن لوگوں نے دکھ اٹھایا ہوتا ہے ان کا کوئی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ میری تجویز ہے کہ مذہبی ہم آہنگی کی اس گفتگوکو جاری رکھنا چاہئے اور پوری آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہئے۔

ڈائیلاگ کا مقصد اپنی بات منوانا نہیں بلکہ ایک دوسرے کا مؤقف سننا اور ایک دوسرے کے مذہب، عقیدے اور ایمان کو سمجھنا ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی جو روش چل پڑی ہے یہ خطرناک ہے ۔ صرف مسلمان مسیحی کو نہیں مسالک بھی ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ، پاکستان کسی ایک مسلک یا مذہب کا نہیں بلکہ مسلمان، عیسائی، ہندو اور سکھ سب کا ہے ۔ اگرچہ ہمارے مذہب الگ ہیں مگر ہم پاکستان پر اکٹھے ہوسکتے ہیں، مذہب ہر کسی کا انفرادی معاملہ ہے ہم قائداعظم کے وژن کو اپنا کر امن قائم کرسکتے ہیں۔''

شاہد معراج (پادری لاہور کیتھڈرل چرچ)

''تمام مذاہب امن اور رواداری کا سبق دیتے ہیںہم سب نے مل کر امن کے لئے کام کرنا ہے۔ صاحب اقتدار تو جوزف کالونی کے واقعہ کے بعد سامنے آئے چرچ اور منبر کے ذریعے ہم لوگ پہلے ہی امن کا درس دیتے رہتے ہیں ۔ جو لوگ مذہبی جذبات مجروح کرنے والے کام کرتے ہیں ان کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ وہ دنیا کو صرف فساد کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کسی گروہ، فرقے یا مذہب کا نہیں اور یہاں تب تک رواداری نہیں آئے گی جب تک دوسرے کو سمجھنا نہیں سیکھیں گے، یہ بہت اچھی بات ہے کسی کا عقیدہ چھیڑو نہ اور خود چھوڑو نہ۔

سیاسی لوگوں کی اپنی باتیں ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی پارٹی سے ہوتے ہیں اس لئے ان کا جھکاؤ ان کی طرف ہوتا ہے مگر الیکشن کمیشن کو یہ تجویز پیش کرنی چاہئے کہ جو لوگ کسی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں ان کو پابند ہونا چاہئے کہ ان کی اپنے علاقے اور کمیونٹی میں شہرت اچھی ہو، اس کے لئے اس کے اپنے علاقے میں اس کا الیکشن کرالیں۔ آئین پاکستان ایک مقدس کتاب ہے اس میں عہدوں کے حوالے سے لکھ دیا گیا ہے کہ فلاں شخص فلاں عہدے پر نہیں بیٹھ سکتا۔ ہم دہشت گردی کے خلاف بلاوجہ پیسے خرچ کررہے ہیں، امریکا کون ہوتا ہے ہماری پالیسی بنانے والا، ہمیں اپنی پالیسی خود بنانا چاہئے۔ امریکا نے خود مجاہدین تیار کئے اور جب ان کی ضرورت نہیں رہی تو ان کو دہشت گرد قرار دے دیا، مسیحی سب سے زیادہ پاکستان کے وفادار ہیں اور وقت یہ ثابت کرے گا۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں