وقت بچایئے لیکن کیسے

وقت میں تعصب نہیں، لالچ نہیں اور وفا نہیں۔ یہ امیر غریب سب کو یکساں ملتا ہے۔


وقت میں تعصب نہیں، لالچ نہیں اور وفا نہیں۔ یہ امیر غریب سب کو یکساں ملتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

DERA GHAZI KHAN/ MULTAN/ FAISALABAD: وقت، عقیدے کے بعد زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اِسے بڑی منصوبہ بندی اور احتیاط سے خرچ کرنا چاہیے۔ آدمی کو وقت کے بارے میں بڑا بخیل ہونا چاہیے۔ بغیر کسی وجہ اور ضرورت کے کسی کو نہ دے۔ اِنسان کی کامیابی و ناکامی کے پیچھے ایک بڑا ہاتھ اس وقت کی درست تنظیم اور خرچ کا بھی ہے۔

بہت سے لوگوں نے فیس بُک پر پوچھا کہ ٹائم مینجمنٹ پر کچھ لکھ دوں مگر کبھی ہمت نہ پڑی۔ اللہ کو یہ بات بڑی ناپسند ہے کہ وہ کہو جو کرتے نہیں ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ زندہ شخص کی مثال نہ دو کیونکہ وہ ابھی مرا نہیں اور ہمیں نہیں پتا کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں۔ تو بہت ہی ڈر لگتا ہے کہ آدمی اپنی مثال دے کہ میں نے یوں کیا اور ایسا کیا اور ویسا کیا۔ اپنی مثال تو صرف وہ دے جِسے مرنا نہ ہو، باقی سب کو تو ڈرنا ہی چاہیے۔

وقت میں تعصب نہیں، لالچ نہیں اور وفا نہیں۔ یہ امیر غریب سب کو یکساں ملتا ہے۔ نہ کسی کےلیے تیز، نہ کسی کےلیے سُست، ایک ہی رفتار سے چلتا ہے۔ نہ ہی اسے پیسوں سے خریدا جا سکتا ہے کہ آپ لاکھوں روپے دے کر زندگی کا ایک دن بڑھالیں اور نہ ہی اس میں وفا ہے۔ یہ بڑا بےنیاز ہے۔ آپ چنگیز خان ہیں تو بھی آپ کو آپ کے مقدر کا وقت ملے گا اور اگر آپ عبدالستّار ایدھی ہیں تو بھی یہ ایک دن ختم ہو کر رہے گا۔ یہ کسی کا دوست نہیں۔

جیسے ہر شئے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے اسی طرح وقت کا نصب العین فنا ہے۔ یہ بنا ہی اِس لیے ہے کہ چیزوں کو، لوگوں کو، اداروں کو، اِرادوں کو، نیز سب کو فنا کی جانب ہانکے۔ ہر وہ چیز جِس سے وقت کا پالا پڑ گیا، مٹ کر رہے گی۔ وہ شداّد کی جنت ہو، نمرود کی بادشاہت، یا فرعون کا غرور۔ وقت سب کو چاٹ جاتا ہے۔ یہ نظریہ ہی غلط ہے کہ ہم وقت کو سنبھال سکتے (مینیج کرسکتے) ہیں۔ یہ تو وقت ہے جو ہمیں مینیج کرتا ہے۔

آپ کو پتا ہے کہ وقت کی ضِد کیا ہے؟ بقاء۔

وقت فنا ہے اور اِس کی ضِد بقاء ہے۔ آپ اللہ کا ذکر کرتے چلے جائیے اور اسی کی ذات میں فنا ہوجائیے۔ یہی آپ کی بقاء ہے اور وقت کو مات کرنے کی واحد ترکیب۔ اہلِ کشف بتاتے ہیں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی گئی مسنون دعائیں موقع کے حساب سے مانگی جائیں تو آدمی وقت کے شکنجے میں اُلٹا سفر کرتا ہے اور زندگی میں برکت آجاتی ہے۔ اللہ ایک نیکی کا کم ازکم دس گنا لوٹاتا ہے۔ جو وقت اللہ کی یاد میں لگا وہ بھی نیکی ہے تو یقین جانیے قدرت آپ کا وقت کئی گنا کرکے لُوٹادے گی۔ اِسے ہم برکت کہتے ہیں۔ کوئی آدمی زندگی میں جتنا کچھ لکھ جاتا ہے، اگلا پڑھ بھی نہیں پاتا۔ یہ ہوتی ہے برکت۔

وقت موت کا آلہ کار ہے۔ جب تک یہ اپنا کام پورا نہ کرلے، موت نہیں آتی۔ 70 سال کی اوسط عمر میں ہر شخص کو 25,550 دن، 613,200 گھنٹے یا 36,792,000 منٹ ملتے ہیں۔ ہر شخص کے پاس دن میں 24 گھنٹے، 1,440 منٹ یا 86,400 سیکنڈ ہوتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ وقت نہیں کہ فضول کاموں میں اُڑا دیا جائے۔ ہم میں سے ہر شخص کم ازکم آٹھ گھنٹے تو سوتا ہی ہے، بچے زیادہ اور بوڑھے کم۔ اگر ہم روزانہ اوسط آٹھ گھنٹے بھی سولیں تو زندگی کے 23 سال سوتے میں گزر گئے۔ 8 گھنٹوں کا آفس، 23 سال وہاں چلے گئے۔ صرف 2 گھنٹے بھی روز سوشل میڈیا اور ٹی وی کی نذر ہوجائیں تو یہ کوئی لگ بھگ 6 سال بنتے ہیں۔ نہانے اور باتھ روم میں روز کا ایک گھنٹہ، لو بھئی زندگی کے 3 سال وہاں نذر ہوگئے۔ دوست احباب، رشتہ دار، شوق، کھیل کود، بیوی بچے، سفر اور گھومنا پھرنا، بمشکل تمام ایک سے تین سال پوری زندگی میں ملتے ہیں کہ کوئی ڈھنگ کا کام کرکے بقاء کی طرف سفر کریں۔

آئیے! دیکھتے ہیں کہ ہم کس طرح ایک عام دن میں سے تھوڑا تھوڑا وقت بچا کر بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ میں ایسے کچھ لوگوں کو جانتا ہوں جو اِن پر روزانہ عمل کرکے بڑا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ آپ بھی کوشش کرکے کچھ نہ کچھ وقت بچا ہی لیں گے۔

1۔ ''ٹو ڈو (To-Do) لسٹ بنائیے

روز رات کو یا صبح سویرے دن کی ایک فہرست بنا لیجیے کہ کون کونسے کام کرنے ہیں۔ مثلاً کسی کو ای میل کرنی ہے، فیس بک دیکھنی ہے، کچھ پڑھنا ہے، لکھنا ہے، سمجھنا ہے، گھر کا کوئی کام وغیرہ۔ اب کوشش کیجیے کہ اس فہرست پر ڈٹے رہیں۔ کوئی دوست، کوئی لطیفہ، کوئی واقعہ آپ کو اس پر سے ہٹا نہ سکے اِلّا یہ کہ کوئی ناگہانی آجائے۔ طوفان ہو یا بارش، ہڑتال ہو یا چھٹی، آپ کو اپنے کام کرنے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ بتدریج آپ کے کاموں کی فہرست اور ان کو وقت پر کرنے کی اِستعداد میں بہتری آتی جائے گی اور آپ ایک دوسرے آدمی کے مقابلے میں کم ازکم چار گُنا کام کر سکیں گے۔

2۔ چھوٹا رکھ لیجیے

ہماری زندگی میں، خصوصاً پاکستان میں رہتے ہوئے، درجنوں چھوٹے بڑے کام آتے ہیں۔ مثلاً بجلی کا بل جمع کروانا ایک کام ہے۔ انٹرنیٹ نہ چلنے کی شکایت درج کروانا، گاڑی میں پیڑول ڈلوانا، پارکنگ ڈھونڈنا، فوٹو کاپی کروانا، گھر کی گروسری لانا، کپڑے اِستری کرنا وغیرہ۔ خواہ آپ کی تنخواہ کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو آپ کوئی نہ کوئی ''چھوٹا'' تو افورڈ کر ہی سکتے ہیں۔ جتنے چھوٹے آپ، اُتنا چھوٹا آپ کا چھوٹا۔ جتنے بڑے آپ اُتنا بڑا آپ کا چھوٹا۔ آپ 30 ہزار کماتے ہیں تو 8 ہزار میں رکھ لیجیے۔ 20 ہزار کماتے ہیں تو 5 ہزار والا رکھ لیجیے۔ لاکھ کماتے ہیں تو 15 ہزار والا رکھ لیجیے۔ نہ صرف یہ کہ آپ کسی اور کےلیے رزق کا دروازہ کھول رہے ہیں اور اسے ساتھ ساتھ کام سکھا کر معاشرے کا ایک بہتر فرد بنا رہے ہیں بلکہ آپ کو وقت ملے گا جس کی مدد سے آپ ایک سے دو اور دو سے چار لاکھ کمانے والے بن سکیں گے۔ آپ خود فیصلہ کرلیجیے کہ آپ کو قطار میں لگ کر بجلی کا بل جمع کروانا ہے یا کورسیرا پر کوئی آن لائن کورس پڑھنا ہے۔

بڑی اچھی کہاوت ہے کہ اللہ رزق کھولے تو دسترخوان لمبا کر دو، دیواریں نہیں۔ متقی شخص اپنے کام خود کرتا ہے مگر جب تک متقی نہ بن جائیں تب تک تو چھوٹے سے کام چلائیے۔

3۔ وقفہ پریشانی

آپ صبح صبح اُٹھ کر ''ٹو ڈو لسٹ'' بنا رہے تھے یا آفس جارہے تھے کہ کوئی بُری خبر آگئی۔ کسی کا انتقال ہوگیا یا جھگڑا یا بچے کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آگیا تو پورا دن غارت۔ اب آپ اسی پریشانی میں اگلے 24 گھنٹے برباد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ گھر میں کوئی نمبر ایمرجنسی کےلیے رکھ دیجیے مثلاً ڈرائیور کا یا لینڈلائن نمبر تاکہ فون آف کرکے سو سکیں۔ پورے دن میں کوئی آدھ ایک گھنٹہ وقفہ پریشانی کےلیے رکھ چھوڑیئے۔ اِس میں کال کرکے خاندان والوں اور دوست احباب سے اپ ڈیٹ لے لیجیے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ بقیہ 23 گھنٹے فوکس کے ساتھ گزر جائیں گے۔ آپ اِسی گھنٹے میں مسائل سنیے اور اسی میں جو کچھ حل کرسکتے ہیں وہ کر دیجیے۔ میرا ایک دوست ہے عبداللہ، وہ روز رات کو 9 سے 10 بجے اپنی بیگم سے بات کرتا ہے۔ بالکل صحیح نام دیا ہے ناں، وقفہ پریشانی!

4۔ مل جل کر کام کیجیے

روم ایک دن میں نہیں بنا تھا۔ آپ بھی اکیلے دنیا چھوڑ اپنی خود کی زندگی کا بوجھ نہیں اُٹھاسکتے۔ بہت سے کام ہم مل جل کر کرسکتے ہیں۔ دیکھیے کہ کن کاموں میں آپ اپنی بیگم، بچوں، گھر والوں، دوست احباب اور آفس کولیگز کو شامل کرسکتے ہیں۔ انہیں بڑا بنا دیجیے خود چھوٹے بن جائیے۔ پاکستان میں ہر کام ممکن ہے اگر ایک آپ کو یہ فکر نہ ہو کہ کریڈٹ کون لے جائے گا۔ اپنے کام دوسروں کے حوالے کرنے کا ہنر سیکھیے، بہت زیادہ کام آسانی سے ہوجائیں گے۔ مثلاً اگر آپ کا ڈرائیور آپ کے ساتھ ہے تو کھانے پینے، پیٹرول اور اشیاء کی ادائیگی وہ کرتا رہے۔ آپ مہینے میں ایک بار حساب کتاب چیک کر لیجیے۔ اب نہ آپ کو پیسوں کی ٹینشن، نہ ہی پرچیاں سنبھالنی پڑیں گی۔

5۔ اکیلے کھانا کھائیے

عموماً آفس میں کام کے دوران ورکنگ لنچ کا انتظام ہوتا ہے کہ آپ کھانا کھاتے رہیں اور بات بھی کرتے رہیں یا کولیگز کے ساتھ لنچ کر لیجیے۔ آپ رات کا کھانا گھر میں فیملی کے ساتھ ضروت کھائیے مگر یہ لنچ اکیلے ہی کرلیں۔ ایک آدمی 7 سے 12 منٹ میں بہ آسانی ایک وقت کا کھانا کھا سکتا ہے۔ گروپ کے ساتھ یہی 7 منٹ بڑھ کر ایک گھنٹہ ہوجاتے ہیں، نہ بندہ خُدا کا شکر ادا کرکے کھانا کھا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کام کی بات ہوتی ہے۔ اکیلے کھانا کھانے سے آپ کے روز کوئی 50 ایک منٹ تو بچ ہی جاتے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ رش ٹائم سے بچا جائے۔ اگر سب ایک بجے کھانا کھا رہے ہیں تو آپ 12 بجے کی روٹین اپنا لیجیے یا 2 بجے کی۔ اس سے بھی وقت بچتا ہے۔

آپ کو شاید یہ تمام باتیں مضحکہ خیز لگ رہی ہوں مگر یقین جانیے کہ یہی کچھ منٹ ادھر ادھر پورے دن میں بکھرے ہوتے ہیں جنہیں جمع کرکے آپ کسی کام میں لگا سکتے ہیں۔

6۔ اپنے باڈی کلاک کو پہچانیے

ہر شخص کی سونے، کام کرنے، فوکس رہنے اور آرام کرنے کی صلاحیتیں اور استعداد مختلف ہے۔ غور کیجیے اور اپنے باڈی کلاک کو پہچانیے۔ اگر آپ کو رات 12 بجے نیند آتی ہے تو بستر میں رات 9 بجے لیٹ کر ایک آنکھ سے 3 گھنٹوں تک فیس بک براؤز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تھوڑی سی ہمت کرکے تھوڑا جاگ لیں اور 9 سے 12 کوئی کتاب پڑھ لیجیے۔ کوئی ذکر کرلیجیے۔ 100 نفل بہ آسانی 3 گھنٹوں میں ہوجاتے ہیں۔ اس سے جسم تھکے گا بھی اور کھانے کے بعد تھوڑی بہت ورزش جو آپ کبھی نہیں کرتے، اس کی کچھ کسر بھی پوری ہو جائے گی۔ یاد رکھیے جس کی کمر جھکتی رہتی ہے وہ آخری عمر میں بھی سیدھی رہتی ہے۔

غور کیجیے کہ آپ کا سب سے پروڈکٹیو وقت کب ہوتا ہے۔ صبح سویرے، شام یا رات؟ اس وقت کو ذہنی کاموں کےلیے مختص کر لیجیے۔ میرا دوست عبداللہ پڑھنے اور لکھنے کے اوقات میں موبائل فون بند کرکے، لیپ ٹاپ کو بیگ کے ساتھ دوسرے کمرے میں چھوڑ آتا ہے کہ یکسانیت میں خلل نہ پڑے۔

7۔ خاموش جگہ ڈھونڈیئے

کوشش کیجیے کہ آپ کے کمرے میں یا آس پاس شور نہ ہو۔ آپ پڑھنے بیٹھیں اور باہر سے مسلسل گانوں کی آوازیں آتی رہیں یا لاؤڈ اِسپیکر یا گاڑیوں کا شور، تو ہو گیا کام۔ کوشش کیجیے کہ گھر ایسی جگہ بنائیں جو شہر یا کاروبار سے ہٹ کر ہو اور کام کے وقت فیملی والوں کو بتا دیجیے کہ آپ کو ڈسٹرب نہ کریں۔ کوئی مرجائے تو الگ بات ہے ورنہ آپ کو اپنے کام سے مطلب ہے۔ دنیا میں کیا ہورہا ہے؟ آپ کی بلا سے۔

8۔ ہر شئے اور کام کی جگہ متعین کیجیے

ایسا کرنے سے بہت سے منٹ بچ جاتے ہیں۔ ورنہ 5 منٹ روز صبح بٹوہ ڈھونڈنے میں، 3 منٹ موبائل اور اس کے چارجر کو ڈھونڈنے میں، 2 منٹ جوتے موزے، کچھ منٹ ادھر تو کچھ منٹ اُدھر۔ نہانے گئے تو شیمپو اپنی جگہ پر نہیں۔ پھر رومال، ٹوپی غائب اور گاڑی کی چابی تو روز کا مسئلہ۔ ہر شئے اور کام کی جگہ متعین کرنے سے نہ صرف آپ کو ذہنی کوفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ وقت بھی بچے گا۔

9۔ بال چھوٹے رکھیے

نہ تو روزانہ کنگھا کرنے میں وقت برباد ہوگا نہ شیمپو میں۔ ہفتے میں 2 بار استعمال کرلیں گے تو بھی کافی ہے۔ ایک آدمی بہ آسانی 7 منٹ میں نہا سکتا ہے۔ وقت نوٹ کیجیے اور اس درد سے خرچ کیجیے جیسا کہ آپ پیسے کو کرتے ہیں۔

10۔ ہر کام کا وقت طے کیجیے

مثلاً شام 3 سے 3:30 تک فیس بک، صبح 9 سے 10 تک ای میلز اور شام 6 سے 7 جو آسانی ہو۔ عصر سے مغرب الله کا ذکر وغیرہ۔ ایسا کرنے سے فوکس بھی آئے گا اور باقی وقت بھی بچ جائے گا۔ یقین جانیے یہ بچے ہوئے منٹ ہی ہیں جو آخرت میں بچانے کا کام کریں گے۔

11۔ ڈیڈ لائن طے کیجیے

ہر کام کی ایک مدتِ اختتام متعین کر لیجیے اور پوری کوشش کریں کہ وہ اس میں ہو جائے۔ مثلاً آپ کو کوئی آرٹیکل لکھنا ہے جو آج رات تک ہوجانا چاہیے۔ اب کوئی دوست آن دھمکے کہ چلو مٹر گشت کرنے تو آپ آرام سے معافی مانگ لیجیے کہ ڈیڈ لائن نکل جائے گی۔

12۔ آپ کی بریکنگ نیوز

اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کی آج کی بریکنگ نیوز کیا ہے تو زندگی میں کوئی تو ایسا کام روز کا ہو جو گنوا سکیں۔ کوئی پڑھنا، لکھنا، سیکھنا، سکھانا، توبہ، نماز، دعا کچھ تو۔ اس کے بارے میں ضرور سوچیے گا۔

13۔ سیکھا، سکھایا، جمع کیا

روز کم ازکم ایک نئی چیز سیکھیے، ایک سکھائیے اور ایک کام اپنے کسی طویل المدت منصوبے کےلیے جمع کردیجیے۔ جیسے ہم گُلک میں پیسے جمع کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے طویل المدتی منصوبے ہماری کاوشوں کا گُلک ہوتے ہیں۔

14۔ آڈیوز سے سیکھیے

آڈیو کتابیں نہاتے وقت بہ آسانی سنی جاسکتی ہیں، واش روم میں بیٹھے ہوئے بھی، سونے کی تیاری کرتے ہوئے، کپڑے اِستری کرتے ہوئے بھی۔ اس طرح بڑا وقت بچ جاتا ہے۔

15۔ کاموں کے جوڑے بنائیے

مثلاً واک کرنے جائیں تو فون کے کام ساتھ نمٹا لیجیے۔ نماز پر جائیں تو تھوڑا تھوڑا قرآن بھی پڑھ لیجیے۔ سفر میں ہوں تو تسبیح یا ملّا علی قاریؒ کی حزب الاعظم پڑھ لیجیے۔ نہاتے ہوئے نیوز سُن لیجیے؛ اور دوست سے ملنے گھر سے نکلیں تو گروسری لیتے آئیے۔ درجنوں ایسے کام ہیں جنہیں ملایا جاسکتا ہے۔ بس توحید و نبوت کو خالص رکھیے، باقی کاموں میں جتنی چاہیں ملاوٹ کر دیجیے۔

16۔ انتظار کو کارآمد بنائیے

ایک عام آدمی زندگی میں کوئی 3 سال انتظار میں گزار دیتا ہے۔ اسکول کی چھٹی کا انتظار، بس کا، ٹرین کا، جہاز کا انتظار۔ بیگم کا بیوٹی پارلر سے نکلنے کا انتظار، بچوں کی شاپنگ سے واپسی کا انتظار، ڈاکٹر کا انتظار وغیرہ۔ آپ ایک عدد کتاب ہمیشہ ہاتھ میں رکھیے۔ کم ازکم آپ کی زندگی میں 3 سال کی پڑھائی تو بڑھ ہی جائے گی۔

17۔ سوچتے ہوئے سوئیے

اگلے دن کے تمام کاموں کی فہرست بنا کر ذہن میں رکھیے اور سوجائیے۔ اب خواب میں بھی وہی کام آئیں گے اور صبح اُٹھنے تک دماغ انہیں منظم کرکے مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کرچکا ہوگا۔ میرا دوست عبداللہ رات کو کمپیوٹر پروگرام سوچتے ہوئے سوجائے تو صبح تک وہ مکمل ہوچکا ہوتا ہے۔ سارے مشکل کام، ہوم روک اسائنمنٹ کرنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی اور نہیں۔

18۔ آٹومیٹ کیجیے

زندگی میں جہاں ممکن ہو، کاموں کو آٹومیٹ کیجیے یا آٹو پائلٹ پر چھوڑدیجیے۔ مثلاً مالی ہر ہفتے کے دن آکر باغ کی صفائی کردے، مہینے کے آخر میں اسے اکاؤنٹ سے شیڈولڈ تنخواہ مل جائے۔ آپ کا یہ کام آٹو پائلٹ پر ہو رہا ہے۔ ہوٹ سوٹ سے سارا سوشل میڈیا آٹو اسکیجول ہو جاتا ہے۔ درجنوں ایپلی کیشنز ہیں جو یہاں آپ کی مدد کر سکتی ہیں۔ میرے دوست عبداللہ نے تو اپنی بیگم کو ہر کچھ گھنٹوں میں آئی لو یو، کیسی ہو، بچے کیا کر رہے ہیں وغیرہ جیسے ایس ایم ایس بھیجنے کےلیے بھی پروگرام بنا رکھا ہے۔

19۔ رش سے بچیے

یہ بہت وقت برباد کرتا ہے۔ آپ آفس آنے جانے کے اوقات، بریک اور کھانے کے اوقات لوگوں سے تھوڑے مختلف کردیں تو خوب وقت بچتا ہے۔

20۔ دوستوں کو خدا حافظ کہہ دیجیے

کام کرنے کی عمر میں صرف دو قسم کے دوست ہونے چاہئیں: جن سے آپ سیکھ سکیں (استاد) یا جن کو آپ سکھا سکیں (شاگرد)۔ باقی سب کو بڑھاپے تک کےلیے خدا حافظ کہہ دیجیے۔

21۔ اپنے آپ سے ملاقات

دن میں کچھ وقت اپنے آپ سے ملاقات کا بھی رکھیے جس میں اپنا محاسبہ کرسکیں کہ ابھی تک کیا کیا؟ اور بقیہ دن میں کس طرح کسی رہ جانے والی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس ذاتی ملاقات کی اہمیت کسی ملک کے صدر یا وزیراعظم سے ملاقات جتنی رکھیے۔

22۔ کچرے دان بڑے رکھیے

ہر کمرے میں ایک چھوٹا سا کچرہ دان رکھا ہوتا ہے۔ سارے کمروں سے روز جمع کرکے گھر سے نکل کر کوڑے کے ڈرم تک جانے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ اگر آپ تھوڑی بڑی ڈسٹ بِن یا باسکٹ رکھ لیں تو آپ ہفتے میں ایک بار کچرا پھینک سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے روزانہ کے کوئی 13 منٹ بچ جاتے ہیں۔ آس پاس غور کریں تو آپ کو ایسے درجنوں رخنے مل جائیں گے جو آپ کے وقت کو ضائع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

23۔ ٹی وی بند کر دیجیے

اس منحوس اور وقت کے ضیاع کی سب سے بڑی مشین کو گھر سے نکال دیجیے۔ ایسی کوئی خبر جو آپ تک پہنچنا ضروری ہے، آپ تک کہیں نہ کہیں سے پہنچ ہی جائے گی۔

24۔ کسی بڑے موقع پر فون بند کر دیجیے

ہم جب میسج فارورڈ کرنے پر آتے ہیں تو جب تک فون بک میں موجود ہر نمبر پر نہ بھیج دیں، ہمیں چین ہی نہیں آتا۔ 14 اگست، بارہ ربیع الاول، عید، بقرعید، نئے سال، ویلنٹائن پر فون بند کر دیا کیجیے ورنہ پیغامات کے سیلاب میں عقیدہ بہے نہ بہے، وقت ضرور بہہ جائے گا۔

25۔ اللہ سے ڈریئے

یاد رکھیے جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اس کے وقت کی تنظیم خودبخود بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ برکت بھی ہوتی ہے۔ ٹائم مینجمنٹ کےلیے اللہ سے ڈرنے سے بہتر شئے اور کوئی نہیں۔ دن میں پانچ نمازیں اعراب کی طرح ہمارے وقت کو بخوبی بانٹ دیتی ہیں۔ اللہ کے ڈر سے وقت کا مطلب اور مصرف دونوں سمجھ میں آجاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو وقت کو بہتر طور پر گزارنے کا ہنر سکھائے، آمین!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں