پیداواری شعبہ سکڑ رہا ہے پاکستان بزنس کونسل کا انتباہ

ڈی انڈسٹریلائزیشن ملک میں طبقاتی فرق وبیروزگاری کا باعث بن رہی ہے، رپورٹ۔


Kashif Hussain December 29, 2017
عالمی برآمدات میں پاکستان کا حصہ 14سال میں کم،حریف ملکوں کا بڑھ گیا، فیصلہ ساز اداروں اورعوام کوجھنجھوڑنے کیلیے رپورٹ جاری۔ فوٹو: فائل

FAISALABAD: پاکستان بزنس کونسل نے فیصلہ ساز اداروں اور پاکستان کے عوام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی درآمدات اور برآمدات کے مسلسل گرنے سمیت صنعتی سرگرمیوں میں کمی کے بارے میں چشم کشا اعدادوشمار پر مبنی تجزیاتی رپورٹ جاری کردی ہے۔

پاکستان بزنس کونسل نے کہا ہے کہ مذکورہ رپورٹ نہ صرف پاکستان کے فیصلہ سازوں بلکہ عوام کو بھی غفلت کی نیند سے جھنجھوڑکر اٹھانے کے لیے جاری کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت موجودہ تجارتی اور مالیاتی خسارے کی متحمل نہیں ہوسکتی، درآمدات کی صورتحال جوں کی توں برقرار ہے، مالی سال 2016-17 میں درآمدات کی مالیت 13.63 فیصد کے اضافے سے 55ارب 63 کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جس میں مشینری کی درآمد میں 37فیصد، پٹرولیم مصنوعا ت کی درآمد میں 30 فیصد، ایگری کلچر اور دیگر کیمیکلز کی درآمد میں 5فیصد، فوڈ گروپ کی درآمدات میں 14فیصد، دھاتوں کی درآمد میں 6.5 فیصد، ٹرانسپورٹ کی درآمد میں 11.66 فیصد اور متفرق درآمدات میں 13.63فیصد تک اضافہ ہوا، 10 آئٹمز مجموعی درآمدات کا 670 فیصد ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی برآمدات میں 2011 کے دوران 25 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح چھونے کے بعد مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے اور مالی سال 2016-17تک برآمدات 20.44ارب ڈالر کی سطح پر آچکی ہیں۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی 80فیصد برآمدات کا انحصار موسم پر ہوتا ہے جن میں ٹیکسٹائلز اور فوڈ گروپ کی ایکسپورٹ شامل ہیں، مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا حصہ 61 فیصد جبکہ فوڈ گروپ کا حصہ 18.16فیصد ہے، عالمی برآمدات میں پاکستان کا حصہ 2003 میں 0.16فیصد تھا جو 2016تک مزید کم ہوکر 0.13فیصد رہ گیاہے، اس کے برعکس بنگلہ دیش کا حصہ 0.09 سے بڑھ کر 0.24 فیصد، بھارت کا حصہ 0.80فیصد سے بڑھ کر 1.64فیصد، ویتنام کا حصہ 0.27فیصد سے بڑھ کر 1.35فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کسی بھی معیشت کی ترقی میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے تاہم پاکستان میں صنعتی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کا حصہ بھی 2007-08 سے مسلسل کم ہورہا ہے جو ڈی انڈسٹرلائزیشن کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے، سالانہ 1500ڈالر فی کس آمدنی کا حامل ترقی پذیر ملک جس میں 30فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہو اس رجحان کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ زیادہ تر آبادی ناخواندہ اور غیرہنرمند ہے اور انہیں صنعتوں کے ذریعے ہی بڑے پیمانے پر روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے جب کہ اس رجحان کا نتیجہ طبقاتی فرق اور بیروزگاری میں اضافے کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔

پاکستان بزنس کونسل کے مطابق دوست ملکوں کے ساتھ موثر بھاؤ تاؤ کے بغیر آزاد تجارتی معاہدوں نے بھی تجارتی خسارہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، ان معاہدوں کی موثر نگرانی کا بھی فقدان ہے۔

رپورٹ کے مطابق سری لنکا واحد ملک ہے جس کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو خسارہ نہیں، چین کے ساتھ تجارتی خسارہ آزاد تجارت کے معاہدے کے بعد 3.22ارب ڈالر سے بڑھ کر 15.32ارب ڈالر، انڈونیشیا کے ساتھ تجارتی خسارہ 1.25ارب ڈالر سے بڑھ کر 1.86ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ملائیشیا کے ساتھ تجارت کا خسارہ 1.59ارب ڈالر تھا جو اب 0.99ارب ڈالر جبکہ ماریشس کے ساتھ تجارتی خسارہ 0.035 ارب ڈالر سے 0.29ارب کی سطح پرآچکا ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان میں ان پٹ لاگت بھی بنگلہ دیش بھارت، سری لنکا اور ویتنام سے زیادہ ہے، پاکستان میں گیس کی قیمت بنگلہ دیش سے 1.9گنا، بھارت سے 2.8گنا، سری لنکا سے 2.6گنا اور ویتنام سے 1.1گنا زائد ہے، اسی طرح لیبر کی لاگت بھی بنگلہ دیش سے 2گنا، بھارت سے 2.3 گنا، سری لنکا سے 1.9گنا جبکہ ویتنام سے 1.1گنا زائد ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں