2017 سال بھر کی اہم سائنسی خبروں پر ایک نظر پہلا حصہ

سال 2017 میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی چند اہم اور نمائندہ خبروں کے خلاصے اور ہائپر لنکس


علیم احمد December 29, 2017
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ سال بھی ایجادات، اختراعات اور دریافتوں کے حوالے سے بھرپور رہا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس سال بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہر روز ہی نت نئی دریافتوں، ایجادات اور اختراعات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس ذیل میں اب تک بلاشبہ ہزاروں خبریں آچکی ہیں جو پورے سال کا احاطہ کرتی ہیں؛ اور ان میں سے معدودے چند کا انتخاب اپنے آپ میں دردِ سر سے کچھ کم نہیں۔ بہرکیف، کوشش کی ہے کچھ ایسی خبروں کا انتخاب کیا جائے جو اس سال کے دوران سائنسی پیش رفت کی نمائندہ ہوں، جبکہ قارئین کی سہولت مدنظر رکھتے ہوئے انہیں زمرہ جات (کٹیگریز) میں تقسیم بھی کردیا ہے۔

کسی بھی ایجاد، دریافت یا اختراع کا مختصر تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ خبر کا ہائپرلنک بھی دے دیا ہے تاکہ وہ قارئین جو مکمل خبر پڑھنے اور زیادہ جاننے سے دلچسپی رکھتے ہیں، وہ پوری طرح لطف اندوز ہوسکیں۔ تو جناب! انتخاب آپ کے سامنے ہے۔ اچھا لگے تو داد دیجیے گا، برا لگے دو بے داد کردیجیے گا؛ شکایت نہیں کروں گا۔

 

کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی


سب سے پہلے تو اس سال کے شروع میں خبر ملی کہ امریکا کی ایک کمپنی ''بلیٹیب'' (BLITAB) نے نابینا افراد کےلیے بریل سسٹم سے لیس ٹیبلٹ کمپیوٹر تیار کرلیا ہے جسے تین ہزار سے زائد افراد پر آزمایا جاچکا ہے۔ ویسے تو ہر سال نت نئے اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز سامنے آتے رہتے ہیں لیکن یہ ایجاد اپنے معاشرتی پہلو کے اعتبار سے بہت اچھی اور قابلِ تقلید ہے کیونکہ اس کے ذریعے نابینا افراد کو بھی جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے قابل بنایا گیا۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔



سنگاپور سے ایک اور خبر آئی کہ وہاں کے سائنسدانوں نے ریم کی ایک جدید قسم ''ری ریم'' (ReRAM) میں ترامیم کرتے ہوئے اسے اس قابل بنالیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر اسے (کمپیوٹر میموری) ہی کو مائیکروپروسیسر کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنے والے برسوں میں کمپیوٹر کی میموری بڑھا کر اس کی طاقت (پروسیسنگ پاور) میں بھی اضافہ کیا جاسکے گا۔ البتہ ابھی یہ پروٹوٹائپ ہے جسے مارکیٹ تک پہنچنے میں چند سال لگ جائیں گے۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چین نے اعلان جاری کیا کہ اس سال دنیا کا سب سے طاقتور سپر کمپیوٹر ''تیانہے 3'' مکمل ہوجائے گا۔ یہ سپر کمپیوٹر جسے چین کے ''نیشنل سپر کمپیوٹر سینٹر'' میں تیار کیا گیا ہے، دنیا کا وہ پہلا کمپیوٹر بھی ہے جو 1000 پی ٹا فلوپس کی رفتار سے کام کرسکتا ہے یعنی یہ ایک کوئنٹی لیئن (ایک ارب ارب) حسابات فی سیکنڈ لگا سکے گا۔ ایسے سپر کمپیوٹرز کو ''ایگزا اسکیل'' سپر کمپیوٹرز بھی کہا جاتا ہے اور اس میدان میں فی الحال صرف ''تیانہے 3'' ہی اکیلا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ اگر 3 گیگاہرٹز پروسیسر اسپیڈ والے 33 کروڑ کمپیوٹروں کی طاقت یکجا کردی جائے تو یہ اکیلا سپر کمپیوٹر اس سے بھی زیادہ طاقتور ہوگا۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔



لیکن بات صرف سپر کمپیوٹر پر ختم نہیں ہوئی بلکہ جاپان کی سونی کارپوریشن نے بھی دنیا کی سب سے تیز رفتار ایس ڈی میموری پیش کردی جس سے 300 میگا بائٹس فی سیکنڈ کی زبردست رفتار پر ڈیٹا پڑھا جاسکتا ہے جبکہ اس پر ڈیٹا لکھنے کی رفتار 299 میگا بائٹس فی سیکنڈ بتائی گئی۔ ان میموری کارڈز کو ''ایس ایف جی (SF-G) ایس ڈی کارڈز'' کا نام دیا گیا اور یہ 32 جی بی، 64 جی بی اور 128 جی بی کی گنجائش میں دستیاب ہیں جبکہ ان کی قیمت بھی بالترتیب 60 ڈالر سے لے کر 230 ڈالر تک مقرر کی گئی ہے۔ یعنی یہ تیز رفتار ترین ایس ڈی میموری کارڈز، دنیا کے مہنگے ترین میموری کارڈز بھی ہیں۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

مارچ کے مہینے میں ریسرچ جرنل ''سائنس'' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتا چلا کہ کولمبیا یونیورسٹی اور نیویارک جینوم سینٹر کے سائنسدانوں نے مشترکہ طور پر ایک اسٹوریج سسٹم وضع کیا ہے جس میں تجرباتی طور پر ایک پرانی فرانسیسی فلم، ایک ایمیزون گفٹ کارڈ اور دوسری ڈیجیٹل فائلوں پر مشتمل ڈیٹا کو ڈی این اے میں نہ صرف کسی خامی کے بغیر محفوظ کیا گیا بلکہ اسے کامیابی سے پڑھ بھی لیا گیا۔ اس کامیاب تجربے سے امید پیدا ہوئی کہ جلد یا بدیر وہ دن بھی آئے گا جب قدرتی سالمے یعنی ڈی این اے کو ڈیجیٹل ڈیٹا محفوظ کرنے اور خردبینی ہارڈ ڈسک وغیرہ بنانے میں استعمال کیا جاسکے گا۔ البتہ عملاً یہ منزل ابھی بہت دور ہے۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

مزید یہ کہ مئی کے مہینے میں عالمی رینسم ویئر حملہ بھی خبروں میں رہا جس کے باعث 100 ملکوں میں ہزاروں کمپیوٹروں کا ڈیٹا یرغمال بنایا گیا۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان اس حملے سے بہت ہی محدود پیمانے پر متاثر ہوا لیکن اب ہمارے سائبر سیکیورٹی اداروں اور متعلقہ ماہرین کو خبردار ہوجانا چاہیے کیونکہ آج کا معمولی حملہ، آنے والے برسوں میں شدید تر اور کہیں زیادہ نقصان دہ سائبر حملوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔



ان سب کے علاوہ اس سال کریڈٹ کارڈ جتنا مکمل کمپیوٹر ایجاد کیا گیا، جنوبی کوریا کی ''سام سنگ'' نے 34 فٹ چوڑی ایل ای ڈی اسکرین تیار کرلی جسے ابتدائی طور پر مقامی سنیما گھروں میں نصب کیا جارہا ہے، دل کی دھڑکن سے کمپیوٹر ان لاک کرنے کی ایک نئی اور دلچسپ تکنیک سامنے آئی، مشہور کرپٹو کرنسی ''بٹ کوائن'' کی قیمت اب تک 14 ہزار ڈالر سے بڑھ گئی لیکن معاشیات اور ٹیکنالوجی کے ماہرین مسلسل خبردار کررہے ہیں کہ بٹ کوائن میں سرمایہ کاری آپ کو کنگال کرسکتی ہے، برطانوی ماہرین نے جھوٹی خبروں کے اثرات سے بچنے کےلیے اچھوتی ''نفسیاتی ویکسین'' تیار کی جو بجائے خود ہلکی پھلکی جھوٹی خبروں پر مشتمل ہے، اور گوگل نے بھی ایک ایسا ہیڈ فون متعارف کروایا جو 40 مختلف زبانوں میں خودکار ترجمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 

روبوٹکس اور ڈرونز


اس سال امریکی سائنسدانوں نے روبوٹس کےلیے ایسی مصنوعی کھال تیار کرلی جو محسوس بھی کرسکتی ہے۔ اس کھال کی تیاری میں نینو ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس سے ایک ساتھ استفادہ کیا گیا۔ امید ہے کہ یہ مصنوعی کھال نہ صرف مستقبل کے روبوٹس میں چھونے کی حس پیدا کرسکے گی بلکہ اس کے ذریعے حساس مصنوعی اعضاء بھی تیار کیے جاسکیں گے۔ مکمل خبر اس لنک میں ملاحظہ کیجیے۔



اگرچہ ابھی مغرب میں روبوٹ پولیس اہلکاروں کا تذکرہ صرف سائنس فکشن فلموں تک محدود ہے لیکن دبئی میں دنیا کا پہلا روبوٹ پولیس اہلکار اس سال کام شروع کرچکا ہے۔ اس روبوٹ پولیس افسر کا قد 5 فٹ 5 انچ ہے جبکہ یہ لوگوں کے چہرے کے تاثرات سمجھ سکتا ہے۔ لوگ اس کے پاس آکر جرم کی رپورٹ لکھوا سکتے ہیں، البتہ فی الحال اس کا مقصد صرف ٹریفک چالان کرنا اور جرمانہ وصول کرنا ہے۔ دبئی پولیس کا منصوبہ ہے کہ 2030 تک دبئی پولیس کے 25 فیصد اہلکار روبوٹ بنائے جائیں جو مختلف زبانیں بول سکیں اور مختلف کام کرسکیں۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔



ویسے تو پورا سال ہی روبوٹس اور روبوٹکس کے بارے میں خبریں آتی رہیں لیکن امریکی کمپنی بوسٹن ڈائنامکس کا بنایا ہوا یہ روبوٹ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ کسی جمناسٹ کی طرح ہوا میں قلابازیاں بھی کھا سکتا ہے۔ اس کی یہ صلاحیت پیچیدہ ہائیڈرولک نظاموں اور خصوصی کمپیوٹر پروگراموں کی مرہونِ منت ہے۔ مزید تفصیل کےلیے یہ خبر ملاحظہ کیجیے جس میں ایک ویڈیو بھی موجود ہے جس میں اس روبوٹ کو ہوا میں قلابازیاں لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ابھی دبئی میں پولیس اہلکار روبوٹ کی خبروں پر بحث جاری ہی تھی کہ ایک خبر سعودی عرب سے بھی آگئی، جس میں بتایا گیا کہ سعودی عرب ایک ''خاتون روبوٹ'' کو اپنی شہریت دے کر وہ پہلا ملک بن گیا ہے جس نے کسی روبوٹ کو شہریت دی ہے۔ صوفیہ نامی یہ خاتون روبوٹ سعودی شہریت ملنے کے بعد کڑی تنقید کا نشانہ بنی رہی کیونکہ ایک طرف تو اس کے حجاب نہ کرنے پر اعتراضات کیے گئے تو دوسری جانب عرب خواتین نے بھی اس روبوٹ خاتون کو جیتی جاگتی خواتین کے مقابلے میں ''زیادہ انسانی حقوق'' دیئے جانے پر کڑی نکتہ چینی کی۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

اس سال کے اختتام سے ذرا پہلے جاپان سے بھی منفرد روبوٹ کے بارے میں خبر آئی جو خود کو ٹھنڈا رکھنے کےلیے پسینہ بہاتا ہے جبکہ انسانوں کی طرح ورزش بھی کرتا ہے۔ البتہ اس پیش رفت کا مقصد روبوٹس کو انسانوں جیسا بنانے سے زیادہ یہ ہے کہ روبوٹس خود کو ٹھنڈا رکھ سکیں اور شدید گرمی کا سامنا بھی کرسکیں۔

سپر کمپیوٹر کی طرح ڈرون کے میدان میں بھی چین نے امریکا کو اپنے دیوقامت روبوٹ کے ذریعے کرارا جواب دیا۔ چینی زبان میں اس ڈرون کو جو نام دیا گیا ہے، اس کا اردو ترجمہ ''تیز تلوار'' بنتا ہے۔ اسے ریڈار پر نہیں دیکھا جاسکتا یعنی یہ ''اسٹیلتھ ڈرون'' ہے۔ بظاہر یہ امریکی لڑاکا طیارے ''ایف 117 اے'' کی مانند دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ غیر انسان بردار طیارہ ہے۔ یہ 2000 کلوگرام (2 ٹن) وزنی اسلحے سے لیس ہو کر پرواز کرسکتا ہے اور دوبارہ ایندھن بھرے بغیر دو روز تک محوِ پرواز رہ سکتا ہے۔ چین کا ارادہ ہے کہ اسے 2019 سے 2020 تک اپنی فوج کے استعمال میں دے دیا جائے۔ مکمل خبر اس لنک میں ملاحظہ کیجیے۔



اس سال کا دوسرا قابلِ ذکر ڈرون امریکی بحریہ کی ''نیول ریسرچ لیبارٹری'' نے تیار کیا ہے جو نہ صرف فضا میں اُڑ سکتا ہے بلکہ آبی پرندوں کی طرح سمندر میں غوطہ بھی لگا سکتا ہے۔ اس ڈرون کا مقصد ایسے اہداف کی جاسوسی ہے جو زیرِ آب موجود ہوں۔ تاہم یہ تیل بردار بحری جہازوں سے رساؤ کی کھوج میں بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ اس منفرد ڈرون کو ''سی گلائیڈر'' کا نام دیا گیا ہے۔

 

تھری ڈی پرنٹنگ


جدید دور میں شہرت حاصل کرنے والا تھری ڈی پرنٹنگ کا میدان اس سال بھی اپنی اہمیت منواتا رہا۔ مثلاً اس سال کی ابتداء میں اسپین کے سائنسدانوں اور انجینئروں نے ایسا تھری ڈی بایو پرنٹر تیار کرلیا جس سے انسانی کھال کی نقل تک ''چھاپی'' جاسکتی ہے۔ یہ مصنوعی لیکن زندہ جلد متوقع طور پر جلد ہی مارکیٹ میں دستیاب بھی ہوجائے گی اور اس کی مدد سے کاسمیٹکس، کیمیکلز اور دواؤں کی جانچ پڑتال کےلیے انسانوں کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی۔ مکمل خبر اس لنک میں ملاحظہ کیجیے۔

اسی سلسلے میں ایک اور اہم خبر یہ ملی کہ میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ماہرین نے ایک عظیم الجثہ تھری ڈی پرنٹر تیار کرلیا ہے جو صرف 14 گھنٹے میں پورا مکان ''چھاپ'' کر تیار کرسکتا ہے۔ اس کا خاص مقصد غریب اور آفت زدہ علاقوں میں مکانات کی فوری تعمیر ہے کیونکہ اس سے مکان کی تیاری بہت کم خرچ بھی ہے۔



 

فلکیات اور کونیات


سال کی ابتداء میں انکشاف ہوا کہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ''ناسا'' کے خلائی جہاز ''نیو ہورائیزن'' نے پلوٹو کی سطح پر برف کے ایسے مینار دریافت کیے ہیں جو سینکڑوں میٹر بلند ہیں۔ لیکن یہ مینار عام برف کے نہیں بلکہ منجمد میتھین اور نائٹروجن سے بنے ہیں، جو اپنے آپ میں ایک دلچسپ اور حیرت انگیز دریافت ہے۔

البتہ یہ تو سال کی صرف ابتداء تھی کیونکہ فروری کے مہینے میں ماہرین فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے زمین سے 39 نوری سال دور ایک ستارے کے گرد زمین جیسے 7 سیارے دریافت کرنے کا اعلان کیا اور بتایا کہ ان سیاروں کا ماحول زندگی کےلیے سازگار ہوسکتا ہے۔ معروف و معتبر تحقیقی جریدے ''نیچر'' میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ''ٹریپسٹ 1'' (TRAPPIST-1) نامی بونے ستارے کے گرد 7 سیارے گردش کررہے ہیں جن کی کمیت ہماری زمین سے مماثلت رکھتی ہے جب کہ ان میں سے 6 سیارے ''معتدل علاقے'' میں واقع ہیں یعنی ان کی سطح کا درجہ حرارت صفر سے 100 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوسکتا ہے۔



قارئین کی معلومات میں اضافے کےلیے بتاتے چلیں کہ کسی ستارے کے گرد وہ علاقے جہاں زندگی وجود میں آسکتی ہو اور ارتقاء پذیر بھی ہوسکتی ہو، انہیں ''قابلِ رہائش علاقے'' (habitable zones) کہا جاتا ہے جبکہ ان کا دوسرا نام ''گولڈی لاکس زون'' (Goldilocks zone) بھی رکھا گیا ہے۔ ان سیاروں سے متعلق مکمل خبر پڑھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

جب بات سیاروں کی ہو تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس سال جون کے مہینے میں ماہرینِ فلکیات کی ایک اور بین الاقوامی ٹیم نے کائنات کا سب سے گرم سیارہ دریافت کیا جس کی سطح کا درجہ حرارت 4,327 ڈگری سینٹی گریڈ ہے، یعنی ہمارے سورج کے بیرونی درجہ حرارت سے صرف 2,000 ڈگری سینٹی گریڈ کم۔ ''کیلٹ 9 بی'' (KELT-9b) نامی یہ سیارہ ہماری زمین سے 650 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے یعنی روشنی کو اس سیارے سے ہم تک پہنچنے میں 650 سال لگ جاتے ہیں۔



کیلٹ 9 بی اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کیونکہ یہ اپنے ''سورج'' (مرکزی ستارے) کے گرد ایک پورا چکر صرف 36 گھنٹوں (ڈیڑھ دن) میں مکمل کرلیتا ہے۔ یعنی اس سیارے کا ایک سال، ہماری زمین پر گزرنے والے صرف ڈیڑھ دن کے برابر ہوتا ہے۔ مکمل خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

اس دریافت کے صرف چھ ماہ بعد ناسا نے اعلان کیا کہ اس کی خلائی دوربین ''کیپلر'' نے بھی زمین سے 2,545 نوری سال دوری پر ''کیپلر 90'' نامی ایک نظامِ شمسی دریافت کرلیا ہے جس میں کُل 8 سیارے ہیں۔ البتہ ان میں سب سے آخری یعنی ''کیپلر 90 آئی'' کہلانے والا سیارہ ہی اس پورے نظامِ شمسی کا واحد پتھریلا سیارہ ہے جو اپنے ستارے کے گرد 14.4 دنوں میں ایک چکر پورا کرلیتا ہے۔

بتاتے چلیں کہ کیپلر دوربین 7 مارچ 2009 کے روز خلا میں پہنچائی گئی تھی اور اس کا اصل مقصد ہی دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیارے دریافت کرنا ہے۔ یہ دوربین اب تک 2,341 سیارے دریافت کرچکی ہے جن میں سے 30 ایسے ہیں جو اپنی جسامت اور محلِ وقوع کے اعتبار سے زمین سے مماثلت رکھتے ہیں یعنی وہاں زندگی کے وجود میں آنے اور ارتقاء پذیر ہونے کے نمایاں امکانات موجود ہیں۔

1997 میں زمین سے سیارہ زحل کی جانب بھیجا جانے والا خلائی جہاز ''کیسینی'' اپنا 20 سالہ مشن مکمل کرنے کے بعد آخرکار 15 ستمبر 2017 کے روز اس دبیز گیسی سیارے کی فضاؤں میں ہمیشہ کےلیے گم ہوگیا۔ واضح رہے کہ یہ ساری کارروائی ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ تھی جس کے تحت کیسینی بتدریج سیارہ زحل کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا اور 20 چکر لگانے کے بعد زحل کی فضا میں داخل ہوگیا۔ اپنے بیس سالہ سفر کے دوران کیسینی نے 5 ارب میل کا فاصلہ طے کیا اور چار لاکھ سے زائد تصاویر ہمیں بھیجیں۔ کیسینی کے ''سفرِ آخرت'' کی خوبصورت تصاویر دیکھنے کےلیے یہاں کلک کیجیے۔



اکتوبر کے مہینے میں کائنات سے متعلق دو بڑی خبروں نے ہلچل مچائی۔ سب سے پہلے تو کششِ ثقل کی لہروں (گریوی ٹیشنل ویوز) کی دریافت میں کلیدی کردار ادا کرنے والے تین سائنسدانوں کو 2017 کے نوبل انعام برائے طبیعیات کا مشترکہ حقدار ٹھہرایا گیا۔ ان سائنسدانوں کا تعلق ''وِرگو/ لائیگو اشتراک'' سے ہے جس نے 2016 میں کششِ ثقل کی لہریں دریافت کرکے فلکیات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس بارے میں ایکسپریس کی ویب سائٹ پر حال ہی میں ایک خصوصی اور مفصل بلاگ بھی شائع کیا گیا۔



تاہم اسی ٹیم نے اکتوبر 2017 ہی کے مہینے میں دو نیوٹرون ستاروں کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہونے والی شدید ثقلی لہریں (گریوی ٹیشنل ویوز) نہ صرف دریافت کیں بلکہ یہ بھی بتایا کہ اب کی بار انہوں نے ''گیما رے برسٹ'' کا معما حل کرلیا ہے؛ اور یہ بھی پتا چلا لیا ہے کہ بعض بھاری عناصر (ستاروں کے اندر) کس طرح وجود میں آتے ہیں۔ تفصیلی خبر کےلیے یہاں کلک کیجیے۔

لیکن ٹھہریئے دوستو! یہ قصہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ پکچر ابھی باقی ہے مرے دوست...

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں