تیز بخار جسم میں درد اور گلے خراب کرنے کا وائرس شدت اختیار کرنے لگا

بیشتر وائرل کی شناخت کرنا مشکل ہو رہا ہے، تیز بخار میں اینٹی بائیوٹک ادویات اثر نہیں کر رہی ہیں، ڈاکٹر سیمی جمالی


Tufail Ahmed December 26, 2017
متاثرہ مریض تیز بخار اور پلیٹ لیٹ اور کم ہونے والے سفید سیل کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ فوٹو؛ فائل

کراچی میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ مختلف وائرل بیماریاں حملہ آور ہیں تاہم وائرل انفیکشن لاحق ہونے کی صورت میں شہریوں کی بڑی تعداد تیز بخار، جسم میں درد، فلو،کھانسی اورگلے میں درد میں مبتلا ہے جبکہ بیشتر مریض تیزبخار اور نمونیہ کے ساتھ بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔

کراچی میں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ساتھ تیز بخار، جسم میں درد، گلے خراب کرنے کا وائرس شدت اختیار کرتا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے مختلف اقسام کی الرجی بھی عوام کو متاثر کررہی ہے، کراچی میں جناح اسپتال، سول اسپتال، عباسی اسپتال میں بڑی عمرکے ساتھ بچوں کو بھی مختلف وائرل انفیکشن میں لایاجارہا ہے۔

کراچی کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں وائرل کی تشخیص کیلیے لیبارٹری بھی قائم نہیں کی جاسکی جس کی وجہ سے متاثرہ مریضوں کی اکثریت نجی اسپتالوں میں مہنگا علاج کرانے پر مجبور ہوگئی، بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے مختلف اقسام کی الرجی کے مسائل بھی سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ناک بند، فلو، ہونے کی صورت میں گرم پانی میں ویکس ڈال کربھاپ لی جائے، جبکہ ٹھنڈی اشیا سے مکمل پرہیز کیاجائے، فلو ہونے کی صورت میں گرم مشروبات استعمال کیے جائیں۔

ادھر محکمہ صحت کا پبلک ہیلتھ ونگ غیر فعال ہوجانے کی وجہ سے شہریوں کو مختلف امراض سے آگاہی دینے والا ونگ بند کر دیا گیا جبکہ محکمہ صحت کی جانب سے عوام کو کسی بھی امراض سے بچاؤ کے حوالے سے کوئی گائیڈ لائن بھی فراہم نہیں کی جاسکی۔

دریں اثنا جناح اسپتال کی انتظامی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ کراچی مختلف وائرل کی زد میں ہے ، اسپتال میں یومیہ 100سے زائد مریض تیز بخار، گلہ خراب کھانسی، فلو اور پلیٹ لیٹس کی کمی کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں انھوں نے کہاکہ بیشتر مریضوں کو تیزبخار کے ستاھ نمونیہ کے مرض میں بھی لایا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بعض وائرل کی شناخت میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے، بعض مریضوں کے جسم پر دانے اور بخار کی کیفیت ہو رہی ہے۔ وائرس کراچی میں اپنی شدت کے ساتھ حملہ آور ہیں جس کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد تیز بخار، نزلہ، زکام، کھانسی اور جسم میں شدید درد کی شکایت کر رہے ہیں۔

ادھر ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب انصاری نے بتایا کہ کراچی میں 2008 میں پہلی بار ڈنگی وائرس رپورٹ ہوا تھا جس کے بعد چکن گنیا، کانگو سمیت دیگرو ائرسس رپورٹ ہونے لگے تاہم امسال سرد موسم میں اچانک تیز بخار، گلے خراب، جسم میں درد کے ساتھ مریضوں کی بڑی تعداد مختلف سرکاری ونجی اسپتالوں میں تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہی ہے، انھوں نے کہا کہ بیشتر مریضوں کو پلیٹ لیٹس اور سفید سیل کی کمی کے ساتھ اسپتالوں میں لائے جا رہے ہیں ، کراچی میں کم عمر کے بچوں میں بھی تیز بخار کی وبا پھیل رہی ہے جب کہ وہ بچے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے ان پر مختلف وائرس حملہ آور ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا تھاکہ 2008کے بعد سے مسلسل کراچی کے عوام مختلف وائرل کی زد میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کراچی میں نامعلوم وائرس کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد متاثر ہو رہی ہے۔

محکمہ صحت کے ذمے دار افسر کے مطابق صوبائی محکمہ صحت نے رواں مالی سال 16 ارب روپے مختص کیے لیکن کراچی میںکسی بھی وائرس کی تشخیص کے لیے لیبارٹری قائم نہیں کی جا سکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں