قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان

آج 70 سال گزرنے کے بعد جب ہم اپنے ماضی میں جھانکتے ہیں تو بہت سے ظالم چہرے ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔


Saeed Parvez December 25, 2017

LONDON: پاکستان بننے کے 70 سال بعد ایک اور سالگرہ کا دن آیا ہے اور یہ سالگرہ قائداعظم محمد علی جناح کی ہے۔ آج اپنے قائد کا ہی ذکر ہوگا، انھی کی یادیں ہوں گی۔

قائداعظم پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے، وہ سب کچھ انھوں نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں کہہ دیا تھا۔ اسمبلی میں کی جانے والی اس تقریر میں قائد نے صاف صاف یہ کہا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا، وہ اپنے مذاہب اور عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں گے، ان کی عبادت گاہیں محفوظ ہوں گی، جہاں وہ آزادانہ عبادت کرسکیں گے۔ قائداعظم سے پہلے ہی تمام باتیں دنیا کے سب سے بڑے انقلابی ہمارے نبی آخرالزماں حضرت محمدؐ بھی چودہ سو سال پہلے کہہ چکے، بلکہ انھوں نے ان اصولوں پر عمل کرکے بھی ساری دنیا کو دکھایا۔ مگر پاکستان میں نہ رسول کی بات مانی جا رہی ہے اور نہ قائداعظم کی۔ ابھی چند روز پہلے کوئٹہ کے زرغون روڈ پر واقع گرجا گھر پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ اس وقت گرجا گھر میں عبادت ہو رہی تھی، اللہ کے بندے اپنے رب کے سامنے باادب بیٹھے تھے۔

اپنی خطاؤں پر رب سے معافی مانگ رہے تھے، اپنی مشکلات بیان کرتے ہوئے رب کی مدد کے طالب تھے۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں سب جمع تھے اور دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ اگلے دن داعش نامی دہشت گرد تنظیم نے اس حملے کی ذمے داری بھی قبول کرلی۔ یہ داعش والے بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں، اسی نبیؐ کا کلمہ پڑھنے کے دعویدار ہیں، اﷲ کو ایک بھی مانتے ہیں، قرآن اور دیگر الہامی کتابوں کو بھی مانتے ہیں۔ یہ سب ماننے کے باوجود یہ داعش والے اﷲ اور رسول کے احکامات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ تو یہ کیسے مسلمان ہیں؟ یہ کیسے کلمہ گو ہیں؟

آج 70 سال گزرنے کے بعد جب ہم اپنے ماضی میں جھانکتے ہیں تو بہت سے ظالم چہرے ہمارے سامنے آجاتے ہیں، جنھوں نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی مسائل میں گھرے ملک اور اس کے عوام کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کی اور لوٹ کھسوٹ میں لگ گئے۔ ہندوستان نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرکے دم نہیں لیا اور اپنے ملک سے راجے، مہاراجے مار بھگائے، تمام راجدھانیاں، ریاستیں 1949 تک ختم کردی گئی تھیں۔ ادھر اپنے پاکستان میں یوں ہوا کہ ہمارے وزیراعظم لیاقت علی خان زرعی اصلاحات کا منصوبہ لے کر پنجاب گئے تو وہاں کے تمام بڑے زمینداروں نے ان اصلاحات کو رد کرتے ہوئے وزیراعظم کو واپس دارالخلافہ کراچی بھیج دیا۔ یہی گورمانی، ٹوانے، جھنگ کے کرنل عابد حسین، ممدوٹ، یہ سب اﷲ کی زمین پر قابضین، اپنا قبضہ چھوڑنے سے انکاری ہوگئے اور یوں یہ قبضہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

ہمارے حکمران بھی یہی ذمے دار ہوتے ہیں، ہمارے وزیر خارجہ، وزیر داخلہ، وزیر پارلیمانی امور، وزیر دفاع، وزیر تجارت، پانی و بجلی، مواصلات، تعلیم سب یہی ہوتے ہیں۔ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنر بھی یہی ہوتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف بھی یہی ہوتے ہیں اور ان زمینی خداؤں کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے مولوی، مجاور، مفتی صاحبان بھی اپنے فرائض انجام دینے کے لیے ہر دم حاضر ہوتے ہیں۔ یعنی ہم پہلے انگریزوں کے غلام تھے اور ان کے جانے کے بعد ان کے دربانوں کے غلام بن کر رہ گئے۔ محلوں کی روشنی، محلوں ہی میں بٹتی رہی اور غریب مزدور، ہاری، کسان کے گھروں میں اندھیرے رہے۔ آج 70 سال بعد بھی اﷲ کی زمین پر قابض لوگوں کا ظلم جاری ہے، اور غریب بھوک و ننگ سے مجبور خودکشیاں کر رہے ہیں۔

جاگیرداری ناسور ہے، اس کا مکمل خاتمہ ہی مسائل کا حل ہے۔ جب تک اس ناسور کا آپریشن کرکے صفایا نہیں کیا جائے گا مسائل موجود رہیں گے۔ یہ جو کچھ لوگ پڑھ لکھ گئے ہیں، یہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے پڑھ لکھ گئے۔ مگر ان غریبوں کے پڑھے لکھے بچوں کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ یہ راستے ہی ''نوکری کرتے رہے گئے'' وزارتوں کا حلف جاگیردار ہی اٹھاتے رہے۔

فیض آباد کے دھرنے کا انجام کیا ہوا، دو مولوی اقتدار کے لیے آپس میں الجھ گئے۔ یہ مولوی حضرات گالیاں بکتے رہے، اس شخص کے نام پر جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں، جس نے پتھر کھائے، جس پر کوڑا پھینکا گیا، جو سادگی کا پیکر تھا۔ یہ مولوی، اس عظیم انقلابی حضرت محمدؐ کا نام لیتے ہیں جس نے بلال کو سیدنا بلالؓ نام دیا۔

میں دسویں اردو عالمی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس آرٹس کونسل کراچی میں موجود تھا۔ کشور ناہید نے جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ''ہم جنرل ضیا الحق کے خلاف بھی نکلے تھے اور ہم آج جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے خلاف بھی نکلیں گے۔'' کانفرنس کی آخری مقررہ زہرہ نگاہ نے کشور ناہید کو بہادر قرار دیا۔ دراصل اس قسم کی حرکتوں سے قائداعظم کے تصور پاکستان کو غارت کیا جارہا ہے۔

آخر میں حبیب جالب قائداعظم کی سالگرہ پر کس طرح نظم سرا ہیں۔ یہ نظم 25 دسمبر 1980 کے دن کراچی پریس کلب میں حبیب جالب نے پہلی بار سنائی تھی، مگر آج بھی حالات وہی ہیں۔

تم نے کہا تھا، اب نہ چلے گا محلوں کا دستور

بنے گی وہ قانون جو ہوگی بات ہمیں منظور

ہر اک چہرے پر چمکے گا آزادی کا نور

لیکن ہم کو بیچ رہا ہے اک ظالم سلطان

قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان

کتنے سر کٹوا کر ہم نے ملک بنایا تھا

دار پہ چڑھ کر آزادی کا گیت سنایا تھا

اس دھرتی سے انگریزوں کو دور بھگایا تھا

اس دھرتی پر آج مسلط ہیں ان کے دربان

قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان

جنگ چھڑے تو ہم نردھن ہی ان کے بینک بچائیں

دولت والے مری میں بیٹھے تھر تھر کانپے جائیں

ملک کی خاطر ہم اپنے سینوں پر گولی کھائیں

پھر بھی بھوکے ننگے بابا ہم مزدور کسان

قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں