دیر آید درست آید

زرداری اب امریکا کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے گیس کی ضرورت ہے۔


Babar Ayaz March 17, 2013
[email protected]

اگرچہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب لگ بھگ اٹھارہ سال کی تاخیر سے منعقد ہوئی تاہم قومی اتفاق رائے اس منصوبے کے حق میں ہے۔ 'پرشین پائپ لائن' کا تصور 1950ء کے عشرے کے اوائل سے گردش میں رہا ہے تاہم پاکستان اور ایران کے درمیان ابتدائی سمجھوتے پر 1995ء میں دستخط ہوئے۔

بعد ازاں توانائی کے اس نہایت اہم پروجیکٹ کے بارے میں مجرمانہ غفلت برتنے سے پائپ لائن کے ذریعے ایران سے گیس کی درآمد اور مایع قدرتی گیس (LNG) دونوں کی درآمد میں تاخیر ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک توانائی کی شدید کمی سے دو چار ہے، جس سے اقتصادی سرگرمیوں کی رفتار سست ہو رہی ہے اور گھریلو صارفین ہنگامہ آرائی پر اتر آئے ہیں، جنھیں ایندھن کے اس سستے ذریعے کا عادی بنا دیا گیا ہے۔

اس منصوبے کی تجویز کے مطابق پائپ لائن جنوب میں ایران کے اسالویہ انرجی زون سے شروع ہو گی اور ایرانی حدود کے اندر 1,100 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہو گی۔ پاکستان میں 785 کلو میٹر طویل پائپ لائن بلوچستان اور سندھ سے گزرے گی مگر اب سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اگر چین بھی اس پروجیکٹ پر آمادہ ہو گیا تو ہو سکتا ہے اس کا روٹ تبدیل ہو جائے۔ پاکستان کے اندر جو پائپ لائن بچھے گی، اس کی مجموعی لاگت 1.5 بلین ڈالر ہے جس میں سے ایران نے 500 ملین ڈالر قرضے کے طور پر دینے کی پیشکش کی ہے۔

اب فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پروجیکٹ ملک کے لیے اتنا اہم تھا تو اس کو شروع کرنے میں 18 سال کی تاخیر کیوں ہوئی۔ اس تاخیر کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ 1995ء کے بعد آنے والی حکومتیں امریکی اور سعودی حکومتوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں، جو ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو توسیع دینے کے خلاف تھیں۔ مشرف دور میں یہ سوچ کر اس پروجیکٹ کی تجدید کی گئی کہ پائپ لائن کو بھارت تک پھیلایا جائے گا۔ رجائیت پسندوں نے اسے 'امن کی پائپ لائن' کا نام دیا۔ مگر بھارت نے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے لیے اسے ایک چال کے طور پر استعمال کیا اور پروجیکٹ سے پیچھے ہٹ گیا۔ دوسری طرف امریکا پاکستان پر زور دیتا رہا کہ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان گیس پائپ لائن بہتر صورت ہو گی۔ اس پروجیکٹ کو بعض بڑی امریکی کمپنیوں کی تائید بھی حاصل تھی۔

1995ء میں اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے ساتھ معاشی صورت حال پر ایک نشست کے دوران میں نے کہا تھا کہ چونکہ افغانستان کا مسئلہ کم از کم اگلے پندرہ سال تک حل ہوتا نظر نہیں آ رہا، اس لیے ترکمانستان پائپ لائن پروجیکٹ ممکن نہیں ہو گا۔ ( میں نے وقت کا اندازہ کم لگایا تھا)۔ اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل نصیراﷲ بابر نے میرے خدشات سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے بارے میں فیصلہ نہ کرنے اور تاخیر کی بھاری قیمت یوں ادا کرنی پڑے گی کہ اب اس پروجیکٹ کو ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی اور متعدد دو طرفہ اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

زرداری حکومت نے اس پروجیکٹ کو اس وقت دوبارہ کھولا جب واضح ہو گیا کہ گیس کی قلت معیشت کو زوال کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس پروجیکٹ کو تیزی سے آگے بڑھانے کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ زرداری امریکی و سعودی دبائو کے سامنے ڈٹ جانے کا سہرا اپنے سر باندھنا اور اسے اپنی پارٹی کے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں جس کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ امریکی ایجنڈے پر چلتی ہے۔ ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اگر پی پی پی الیکشن ہار گئی تو وہ اپنے جانشین کے لیے ایک مشکل صورت حال چھوڑ جائیں گے۔ سفارتی دلیل یہ ہے کہ اسلام آباد کے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ چونکہ امریکا کو مشکل افغان مسئلے کا حل تلاش کرنے اور 2014ء کے آخر تک وہاں سے اپنی فوج کو نکالنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے اس لیے وہ سخت پابندیاں نافذ نہیں کرے گا۔

دوسری طرف پاکستان ایران سے مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے کیونکہ اس کی آمدنی میں بری طرح سے کمی آ رہی ہے۔ ایران کی 358 بلین ڈالر کی مجموعی قومی پیداوار کے 70 فیصد کا انحصار ایندھن کی برآمدات پر ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے ایرانی تیل کے بڑے درآمد کنندگان رفتہ رفتہ ایران سے درآمدات کم کر رہے ہیں۔ پچھلے دو ماہ کے دوران ایران کو ایندھن کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں 42 فیصد کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران، پاکستانی علاقے میں پائپ لائن بچھانے کے لیے سرمایہ کاری پر رضامند ہو گیا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کوئی غیر ملکی یا پاکستانی بینک، بین الاقوامی پابندیوں کے خوف کی وجہ سے اس پروجیکٹ میں ہاتھ نہیں ڈالے گا۔

زرداری اب امریکا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے گیس کی ضرورت ہے، اس لیے امریکا کو اس کی پوزیشن کا احساس کرنا چاہیے۔ ایران کے خلاف اقوام متحدہ اور دو طرفہ نئی پابندیاں وسیع معنوں میں اس طرح سے ہیں: اثاثوں اور کاروباری معاہدوں کو منجمد کرنے کے اقدامات، جوہری پھیلائو کی تشویش کی وجہ سے 98 نئے اداروں پر پابندی۔

یہ اقدامات ایران کو ان اشیا کی برآمد بھی روکتے ہیں: بحری جہاز سازی، معدنیات کی تلاش، کان کنی، دھاتوں کی تیاری اور ٹیلی کمیونی کیشنز کی صنعت میں استعمال ہونے والا مختلف قسم کا سامان، ایسے بحری جہاز جو خام تیل یا اس کی مصنوعات کی ترسیل یا ان کے ذخیرہ کرنے میں استعمال ہوں، 40,000 ڈالر یا اس سے زیادہ مالیت کی ہارڈ کرنسی، اور جوہری پھیلائو کی تشویش کا حامل نیا سامان۔

توسیع شدہ اقدامات، ایران سے قدرتی گیس اور پٹرولیم یا پیٹروکیمیکل مصنوعات کی درآمد بھی روکتے ہیں (جس پر میں توجہ دلا رہا ہوں)، بعض ممنوعہ اشیا کے ضمن میں مارکیٹنگ یا دوسری مالیاتی یا ان سے متعلق خدمات کی فراہمی، ایرانی تیل بردار یا مال بردار بحری جہازوں کو پرچم یا درجہ بندی کی خدمات کی فراہمی، اور کسی ایرانی یا ایران کے اندر کام کرنے والے ادارے کو انشورنس یا از سر نو انشورنس کی فراہمی۔ یہ جہاز رانی کے بیمہ کی ایک شق ہے جو ایرانی تیل کے روایتی درآمد کنندگان کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر رہی ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف پابندی کی خلاف ورزی کا اطلاق کس طرح کیا جائے گا کیونکہ ''توسیع شدہ اقدامات ایران سے قدرتی گیس، تیل، اور پٹرولیم یا پیٹرو کیمیکل مصنوعات درآمد کرنے کی بھی ممانعت کرتے ہیں۔'' ایران سے تیل درآمد کرنے پر ابھی تک کسی ملک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ چین اور بھارت جنھوں نے ایران کے خلاف پابندیوں کا دائرہ وسیع کرنے کی مخالفت کی تھی، اس استثنیٰ کے تحت بدستور ایرانی تیل درآمد کر رہے ہیں جو انھوں نے اقوام متحدہ اور امریکا سے حاصل کر رکھا ہے۔ تاہم یہ اطلاعات موجود ہیں کہ ایران سے تیل خریدنے والے تمام درآمد کنندگان آہستہ آہستہ اپنی درآمدات کم کر رہے ہیں، لیکن توقع ہے کہ یہ عمل 15 سے 18 ماہ پر محیط ہو گا۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ جو سمجھوتہ کیا ہے اس کے تحت 15 ماہ میں گیس پائپ لائن بچھا دی جائے گی۔ اتفاق سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا نظام الاوقات بھی یہی ہے۔

پاکستان 1980ء کی دہائی کے تجربے پر انحصار کر رہا ہے، جب امریکی انتظامیہ نے افغانستان میں شورش جاری رکھنے کے لیے پاکستان کی فوجی اہمیت کی وجہ سے اس کے جوہری پروگرام سے چشم پوشی اختیار کر لی تھی۔ پاکستان کو یہ امید بھی ہے کہ حال ہی میں الماتے میں ایران اور پانچ بڑے ملکوں کے مذاکرات ثمر آور ثابت ہوں گے اور اگر مزید بات چیت میں کچھ پیش رفت ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ اقتصادی پابندیاں نرم کر دی جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں