پاک بھارت سیریز سیاسی کشیدگی کی بھینٹ چڑھ گئی

پاکستان نے ہمیشہ دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا، پڑوسی ملک نے اسے کمزوری سمجھا۔


Sayed Abbas Raza March 17, 2013
پاکستان نے ہمیشہ دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا، پڑوسی ملک نے اسے کمزوری سمجھا۔ فوٹو: فائل

عرصہ گزرگیا، پاکستان ہاکی کا برا وقت نہ گزر سکا، میلبورن میں آئی ایچ ایف چیمپئنز ٹرافی میں برانز اور بعد ازاں ایشیائی ٹائٹل کی صورت میں امید کی جو کرن نظر آئی تھی ایک بار پھر ناکامیوں کے اندھیرے میں گم ہوتی نظر آرہی ہے۔

اذلان شاہ کپ ٹورنامنٹ کو ورلڈ کپ کی تیاریوں کا نکتہ آغاز قرار دیتے ہوئے4 سینئرز پلیئرز کو کو ڈراپ کرتے ہوئے نیا ٹیلنٹ آزمانے کا فیصلہ کیا گیا، ٹیم کا کمبی نیشن خراب ہونے سے ملائیشا کے شہر ایپوہ میں ٹائٹل کیلئے مہم کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی، پہلے میچ میں نیوزی لینڈ کیخلاف 4-3 سے فتح کے دوران کپتان محمد عمران کی ہیٹ ٹرک نے آس دلائی کہ پنالٹی کارنز میں پاکستان حوصلہ افزا نتائج حاصل کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے، مستقبل کے سہانے خواب آسٹریلیا کیخلاف میچ میں یوں بکھرے کہ ٹیم کو سنبھلنا مشکل ہوگیا۔

گوری ٹیموں کے مقابل اکثر دباؤ کا شکار ہوجانے کے عادی گرین شرٹس نے 6-0 سے شکست کے سفر میں بار بار ٹھوکریں کھائیں، دفاع کی کمزوریوں کا نزلہ گول کیپر عمران بٹ پر گراتے ہوئے بھارت کیخلاف عمران شاہ کو آزمانے کا فیصلہ کرلیاگیا، لاہور میں سخت ٹریننگ کے باوجود قابل بھروسہ نہ رہنے والے ایک کھلاڑی کی تبدیلی بھی ٹیم کا مقدر نہ بدل سکی، ایونٹ کی کمزور ٹیموں میں شمار ہونے والے بلو شرٹس نے بھی 3-1 سے مات دیتے ہوئے پہلی کامیابی کامزا چکھ لیا، ملائیشیا سے مقابلہ بقا کی جنگ تھا، صرف ایک فتح کے سہارے اعزاز حاصل کرنے کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا تھا، ٹائٹل کی دوڑ میں شامل رہنے کیلئے کامیابی کی ضرورت تھی۔

گرین شرٹس اس بار بھی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے اور مقابلہ 2-2 سے برابر رہا۔ ٹورنامنٹ میں کارکردگی کا گراف گرنے کی وجوہات پر نظر ڈالی جائے تو مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں، آسٹریلیا کے خلاف میچ میں ہی قومی ٹیم کی تیاریوں اور کمزوریوں کا پول کھل گیا تھا، کوکا بوراز نے دفاع میں خامیوں کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے کامیاب حملوں سے گرین شرٹس کو بے بس کیا تو دوسری طرف فارورڈز نے گول کرنے کے4 یقینی مواقع ضائع کرتے ہوئے حریف ٹیم کا دبائو کم کرنے کی نوبت نہ آنے دی، بھارت کیخلاف میچ میں بہتر کھیل پیش کرنے کے باوجود پنالٹی کارنر کا شعبہ غیر موثر ثابت ہوا،9 مواقع ملنے کے باوجود ایک پر بھی گول نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ کیخلاف محمد عمران کی فتح گر پرفارمنس کے بعد فکر مندی میں مبتلادیگر ٹیموں نے ہوم ورک کرتے ہوئے ان کا توڑ کرلیا جبکہ ہمارے تھنک ٹینک کے پاس کوئی متبادل پلان ہی نہیں تھا، ملائیشیا نے بھی پاکستانی کھلاڑیوں کے اعصاب اور فٹنس کا خوب امتحان لیا، اہم ترین میچ کا ڈرا ہوجانا بھی میزبان ٹیم کے حق میں تھا جبکہ گرین شرٹس فتح کو ترستے میدان سے باہر گئے، تھکے ماند ے نظر آنے والے پاکستانی کھلاڑی بعدازاں کوریا کو بھی زیر کرنے میں ناکام رہے، حریف ٹیم حد سے زیادہ دفاعی حکمت عملی کے ساتھ کھیلنے کی عادی نہ ہوتی تو ایک اور شکست مقدر بنتی۔

وطن واپسی پر ایک بار پھر سابق اولمپئنز کی تنقید، پی ایچ ایف کی جوابی وضاحتوں کاسلسلہ شروع ہوگا، نئے لڑکوں کی شمولیت اور تجرباتی بنیادوں پر مقابلوں میں شرکت کی باتیں کی جائیں گی، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی کھلاڑی کو قومی ٹیم میں شمولیت کا اہل سمجھتے ہوئے ہی موقع دیا جاتا ہے، انٹرنیشنل سطح پر صلاحیتوں کے اظہار کے قابل سمجھ کر ہی اسے میدان میں اتارا جاتاہے۔ حالیہ کارکردگی کے پیش نظر دو باتیں کہی جاسکتی ہیں یا تو ٹیم کا انتخاب میرٹ پر نہیں ہوا یا پھر دستیاب کھلاڑیوں میں صلاحیت ہی اتنی ہے کہ وہ میگا ایونٹس میں کارکردگی نہیں دکھا سکتے، دونوں صورتوں میں قصور وار پی ایچ ایف ہی کہلائے گی، میرٹ کی عملداری اور نئے ٹیلنٹ کی تلاش دونوں ذمہ داریاں فیڈریشن کو ہی نبھانا ہوتی ہیں، سابق اولمپئنز کی ناچاقی بھی ہاکی کی المنا کی بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔

دھڑے بندی اور بیان بازی کرنے کے بجائے کھیل کے ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کو اپنا تجربہ نوجوان نسل تک منتقل کرنے کیلئے خلوص کے ساتھ میدان عمل میں اترنا ہوگا، موجودہ صورتحال میں بڑی فتوحات کے خواب دیکھنے اور عوام کو دکھانے کے بجائے ملکی سطح پر ہاکی کو عالمی معیار کے مطابق لانے کی ضرورت ہے، سلسلہ چند سال تک جاری رہنے کے بعدہی ایک پوریشن کیلئے کئی متبادل کھلاڑی دستیاب ہوسکتے ہیں، جونیئر ٹیموں کو سال میں متعدد بارغیر ملکی ٹورز کا موقع فراہم کیا جائے تو پلیئرز کو انٹرنیشنل مقابلوں سے قبل مطلوبہ اعتماد حاصل ہوچکا ہوگا، سفارشی سسٹم، اقربا پروری، پسند ناپسند کے باوجود کوئی باصلاحیت کھلاڑی ملک کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر بھی لے تو اسے اپنے مستقبل کی فکر لاحق رہتی ہے۔

ڈومیسٹک ڈھانچہ مضبوط اور ملک میں سخت مقابلے کی فضا ہی ایسے پلیئرز سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے جو حالات کے ساتھ مضبوط حریفوں کو بھی شکست دینے کیلئے ذہنی اور اعصابی طور پر تیار ہوں۔ بھارتی ہاکی لیگ کے طرز پر ایونٹ نئے کھلاڑیوں کی صلاحیتیں نکھارنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں مگر پاکستان میں سیکورٹی مسائل ایسے مقابلوں کے انعقاد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اس ضمن میں پاک بھارت سیریز بھی ایک اچھا قدم تھی مگرسیاسی کشیدگی کی بھینٹ چڑھ گئی، چند روز قبل ہمسایہ ملکوں کی ہاکی فیڈریشنز نے معاہدہ کرکے کھیل میں بہتری کے امکانات تلاش کئے۔

مقابلوں کے انعقاد سے ماضی کی سپر پاورز کو مستقبل کیلئے تجربات اور تیاری کرنے کا اچھا موقع ملتا مگر سرحدوں پر ناخوشگوار واقعات اور سیاسی اختلافات کو کھیلوں کے میدانوں میں اتارنے کا شوق رکھنے والی بھارتی حکومت نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے عوام کے جذبات سے کھیلنے کی روش برقرار رکھی، لیگ مقابلوں کے دوران 9 پاکستانی کھلاڑیوں کی حفاظت کرنے کی بجائے گھر بھجوانے کا عجیب وغریب فیصلہ کرنے والے بھارت نے سنوکر سیریز کے بعد ہاکی مقابلوں سے بھی انکار کرکے اپنے طور پر ملکی وقار بچانے کی جنگ جیت لی ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ دوستی کا ہاتھ آگے بڑھایا، پڑوسی ملک نے اسے کمزوری سمجھا، بی سی سی آئی نے گرین شرٹس دورہ سے اپنے خزانے بھرے، جواب میں دورہ سے صاف انکار کیا، خود مختاری اور خوداری کا تقاضا ہے کہ باہمی مقابلوں کیلئے درخواست گزاری کے بجائے برابر ی کی سطح پر فیصلے کئے جائیں، کھلاڑی امن کے سفیر ہوتے ہیں لیکن بھارت سیاسی کشیدگی کا نزلہ کھیلوں پر گرانے کا سلسلہ جاری رکھے تو پاکستان کو بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے اور ملکی سطح پر انفرا سٹرکچر مضبوط کرکے اپنا وجود منوانے پر توجہ دی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |