زیر لب پہلا حصہ
21 جنوری کا خط صفیہ اور جاں نثار اختر کے باہمی تعلق کے اعتبار سے اہم ہے۔
''زیرلب'' ان خطوط کا مجموعہ ہے جو صفیہ اختر نے دسمبر 1949 سے دسمبر 1952 تک تین سال کے دوران جاں نثار اختر کو لکھے۔ یہ تین سال صفیہ کی زندگی کے آخری سال تھے اور جیسا کہ سلمیٰ شان الحق حقی کہتی ہیں کہ ''یہ وہ داستان غم ہے جو وہ سلسلہ وار لکھتی گئی اور سپرد ڈاک کرتی رہی۔ جو غم وہ کسی سے نہ کہنا چاہتی تھی، جو صدمے وہ کسی سے بیان کرنا مناسب نہ جانتی تھی، وہ اسے تو سنانے کا حق رکھتی تھی جو ان صدموں کا سبب تھا۔''
صفیہ اور جاں نثار اختر کی رفاقت کو سات سال ہوئے تھے۔ دونوں بھوپال میں تھے۔ حمیدیہ کالج میں پڑھاتے تھے۔ دو چھوٹے چھوٹے بیٹے گھر کی رونق تھے۔ دسمبر 1949 میں جاں نثار اختر فلم نگری میں قسمت آزمانے بمبئی چلے گئے اور وہاں سے استعفیٰ لکھ کر صفیہ کو بھیج دیا کہ کالج کے پرنسپل کو دے دیں۔ جاں نثار اختر کے نام صفیہ کا پہلا خط 22 دسمبر کا ہے۔ لکھتی ہیں ''تم نے استعفیٰ دے دیا، اچھا کیا۔ میرے دوست! میں تم سے علیحدگی کے دن پوری ہمت اور استقامت سے گزار لوں گی۔ کالج کی دنیا اور گھر کی دنیا سبھی کچھ تو مرے لیے اجڑ گیا۔ اپنے غم کو طول نہیں دوں گی۔''
پھر یکم جنوری 1950 کے خط میں صفیہ اختر لکھتی ہیں ''سارے شہر میں اس خبر (استعفیٰ) کی رسوائی بری طرح ہوچکی ہے۔ بعض لوگ سوچتے ہیں مری تمہاری ان بن ہوگئی، غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ تمہاری ہنگامہ پسندی کی تسکین کا موقع اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا تھا۔'' جنوری کے آٹھ مکتوب ہیں۔ سب ہی میں صفیہ اختر کا یہ تقاضا ہے کہ ''مختصر ہی سہی خط لکھتے رہو۔ اس تنہائی میں تمہارا خط میرے زندہ رہنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔''
صفیہ اختر اپنے خطوں میں جس شدت سے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔ اس کا جواب ان کو نہیں ملتا تو آزردہ ہوجاتی ہیں۔ ایک خط 17 فروری کا ہے۔ لکھتی ہیں ''تمہارا پچھلا خط دیکھ کر کیسا جی کڑھا، ایک بھی پیار کی بات تم نے نہ لکھی میرے لیے۔ جی چاہا کہ تمہارے سینے پر سر رکھ کر اتنے آنسو بہاؤں کہ تمہارے دل کی دھڑکن تیز ہوجائے۔''
جاں نثار اختر نے اسی سال مئی میں آنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ 14 اپریل کے خط میں صفیہ لکھتی ہیں۔ ''تم مئی میں میرے پاس ضرور آجاؤ۔ میں ترس گئی ہوں۔ تم آجاؤ گے تو میری اجڑی دنیا ایک بار پھر آباد ہوجائے گی۔'' صفیہ مئی میں اپنی ماں کے پاس لکھنو چلی گئیں۔ جاں نثار اختر حسب وعدہ وہاں آگئے۔ یہ آٹھ دس دن کا قیام تھا۔ صفیہ کی خواہش تھی کہ وہ خود بمبئی جائیں۔ تجدید ملاقات ہو۔ جاں نثار اختر پر اس کا کیا ردعمل ہوا۔ ایک خط میں لکھتی ہیں ''اختر! میں بمبئی آنے کی اپنی خواہش کا اظہار قطعی جذباتی طریقے پر کردیتی ہوں۔ تم اس کا اثر مت لیا کرو۔ تم اگر چودہ برس مجھے الگ رکھنا چاہو گے تو میں صبر و شکر سے یہ چودہ برس بھی تمہارے ہی انتظار میں کاٹ دوں گی۔'' اپنے بچوں اویس اور جادو کا ذکر کرتے ہوئے صفیہ لکھتی ہیں۔ ''دونوں تم کو ہر روز ہر وقت یاد کرتے ہیں اور تمہارے تذکروں سے میرا جی بہلا لیتے ہیں۔ ان کا پیار تمہیں حاصل ہے اور میرا پیار انھیں۔ آؤ ہم سب گھل مل کر ایک لمحے کے لیے اسی طرح ہوجائیں جیسے کبھی تھے۔''
صفیہ کے خطوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاں نثار اختر گاہے گاہے انھیں کچھ رقم بمبئی سے بھیجتے تھے ایک خطے میں لکھتی ہیں ''تمہارے بھیجے ہوئے پیسے کس قدر غنی بنادیتے ہیں، میرے غرور کی حد نہیں رہتی۔'' ایک بار اختر نے بمبئی سے باہر جانے کے ارادے کا اظہار کیا تو صفیہ نے فوراً لکھا، ''نہ جاؤ میری جان! مجھے رشک کی آگ پھونک کر رکھ دے گی۔''
اسی جدائی کے پہلے سال میں اختر کے دونوں بچے بہت بیمار ہوگئے۔ صفیہ نے اختر کو لکھا۔ ''دعا کرو میری پریشانی دور ہو۔ بعض وقت تو کشتی ڈوبتی نظر آتی ہے اختر! یہ بچے ہی میری لنگڑی لولی زندگی کے لیے بیساکھی کا کام کرتے ہیں۔'' 23 ستمبر کو عید تھی، اسی دن اختر کو خط لکھا۔ ''آج عید ہے۔ مرد کے بغیر عورت کی عید ہی کیا۔''
صفیہ اختر اکتوبر کے آخر میں بچوں کے ساتھ بمبئی گئیں ، پندرہ بیس دن رہ کر بھوپال واپس آگئیں۔ وہی حالات، تنہائی اور احساس جدائی۔ نومبر گزر گیا، دسمبر آگیا۔ 25 دسمبر کو جاں نثار اختر کو یوں مخاطب کرتی ہیں ''آج کی تاریخ سے کچھ یاد وابستہ رکھتے ہو ساتھی؟ آج سات سال ہو رہے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے سے وابستہ کیا گیا تھا اور ہم نے امیدوں اور اندیشوں کے ساتھ زندگی کا جوا اپنے شانوں پر سنبھال لیا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ سے کھویا نہیں پایا ہے۔ آؤ! آج پھر اپنے عہد کی تجدید کریں۔ آؤ! میں تمہارے گلے میں مضبوطی سے بانہیں ڈال کر تمہارے سینے میں اس طرح منہ چھپاؤں جیسے درخت کے تنے پر بیل چڑھ جاتی ہے، تم میرا سہارا ہو، میری زندگی، میری جان۔''
صفیہ اور اختر کی جدائی کو ایک سال گزر گیا۔ یکم جنوری 51ء کے خط میں صفیہ لکھتی ہیں ''آؤ! نیا سال اس طرح شروع کرو کہ تم مجھ پر اعتماد پیدا کرو اور خود پر بھی۔ تمہارا حوصلہ دگنا ہوجائے گا، تمہاری محبت کے لازوال سرچشمے ابل پڑیں گے۔ تم جاگ جاؤ گے اور میرا سال!''
21 جنوری کا خط صفیہ اور جاں نثار اختر کے باہمی تعلق کے اعتبار سے اہم ہے۔ صفیہ لکھتی ہیں ''تم جانتے ہو میں اپنی خواہش، اپنی پسند اور اپنے ارادے سے تم سے منسوب ہوئی۔ میری ایک 'نہیں' بھی اس سلسلے کو ختم کرسکتی تھی۔ پھر تمہاری ہچکچاہٹ اور تمہارے تذبذب پر تمہارے قدموں میں استقلال پیدا کرنے میں میرا حصہ رہا۔ اگر میں اپنے شوق فضول اور جرأت رندانہ کو استعمال کرکے تمہیں خط لکھنے میں خود کو اقدام نہ کرتی تو ہماری زندگیاں نہ جانے کہاں بھٹک رہی ہوتیں۔''
دسمبر 50ء کے آخر سے ہی صفیہ کی بیماری کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ یہ اس مرض کی ابتدا تھی جو جان لیوا ثابت ہوا۔ 6 فروری 1951 کے خط میں وہ لکھتی ہیں ''اختر! میں نے تمہیں نہیں بتایا ایک ڈیڑھ مہینے سے بالکل ایک گٹھیا سی قسم کی تکلیف پیدا ہوتی رہی۔ گھٹنوں کے کھلنے میں ایسی تکلیف ہوتی تھی کہ چکر سا آجاتا تھا۔ اب بھی سو کر اٹھتی ہوں تو مٹھیوں پر ایسا ورم آجاتا ہے کہ بند نہیں ہوتیں۔'' پھر 17 فروری کو لکھتی ہیں ''میری طبیعت کا رنگ ابھی ٹھیک نہیں ہوا ہے۔ تمہاری ہدایت کے مطابق ڈاکٹر سلطان کو دکھا دیا ہے۔ اب ان کی دوا لی رہی ہوں۔ بازوؤں، پنڈلیوں اور چہرے پر ہلکا سا ورم ہوگیا۔'' اگلے کئی خطوں میں اپنی بیماری کا ایسے ذکر ہے جیسے وہ جاں نثار اختر کو پریشان کرنا نہیں چاہتیں۔ علاج تو ہو رہا تھا لیکن مرض کی اب تک تشخیص نہیں ہوئی تھی۔ مارچ میں ایک خط میں لکھتی ہیں ''ساڑھیاں جو تم نے میرے لیے خرید ڈالی ہیں، چاہو تو بھیج دو۔ بلاؤز کے کپڑوں کی جلدی ہی کیا تھی۔ میرے ہاتھ ہی سلائی کے قابل نہیں رہے۔''
اپریل میں جاں نثار اختر نے صفیہ کو بمبئی بلالیا اور یہ ڈیڑھ ماہ وہاں رہ کر اپنی ماں کے پاس لکھنو چلی گئیں۔ 28 جون 1951 کے خط میں وہ لکھتی ہیں ''ایک پورا ہفتہ ہو رہا ہے تم سے رخصت ہوئے۔ کل میڈیکل کالج کے پرنسپل بھاٹیہ کو دکھایا۔ انھوں نے فیس وصول کرنے کے بعد یہی کہا کہ مرض پیچیدہ ہے اور اس کا علاج گھر پر ممکن نہیں چنانچہ مجھے فوراً اسپتال میں داخل ہوجانا چاہیے۔'' صفیہ کے اس خط سے یہی معلوم ہوا کہ وہ جب بمبئی میں تھیں تو وہاں بھی سات آٹھ دن اسپتال میں گزرے تھے۔ 2 جولائی کو لکھنو میں وہ پھر اسپتال پہنچ گئیں۔ پرائیویٹ وارڈ مل گیا۔ اگلے خطوط میں ان مسائل کا ذکر ہے جو یہاں علاج اور رہائش کے سلسلے میں پیش آرہے تھے۔ ایک خط میں لکھتی ہیں ''اسپتال میں ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے۔ پر مرض جہاں تھا وہیں ہے اور مزید کرید ہونے سے ذہن کو پریشان کرنے والی باتیں نکل آتی ہیں۔''
(جاری ہے)