ناکام نہیں رہا اپنی زندگی ضائع نہیں ہونے دی مسعود احمد برکاتی

دنیا چھوڑ جانے والے بچوں کے معروف ادیب مسعود احمد برکاتی کا ایک یادگار انٹرویو


سید بابر علی December 17, 2017
مسعود احمد برکاتی نے ننھے منے ذہنوں میں علم و آگہی کے چراغ منور کرنے کے لیے پوری عمر لگا دی۔ فوٹو : فائل

بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے کو ہمارے ہاں عمومی طور پر کارِ زیاں سمجھا جاتا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے ننھے منے ذہنوں میں علم و آگہی کے چراغ منور کرنے کے لیے پوری عمر لگا دی۔ پاکستان کے ایسے قلم کاروں میں مسعود احمد برکاتی سرفہرست ہیں۔

بہ طور مدیر ''ہمدرد نونہال'' بچوں کی تہذیبی، اخلاقی اور لسانی تربیت اور انھیں ایک اچھا شہری بنانے کی سعی مسلسل کے حوالے سے ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے۔ تاہم یہ فقیر منش، درویش صفت انسان، ہمیشہ ستایش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہا۔ گذشتہ اتوار دس دسمبر کو دنیا چھوڑ جانے والے مسعود احمد برکاتی آج ہم میں نہیں، لیکن جب بھی نونہالانِ وطن کی تربیت، کردار سازی، ان میں علمی و ادبی ذوق پیدا کرنے کی بات کی جائے گی تو مرحوم کا نام ضرور لیا جائے گا۔ ان کی یاد ہمارے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔ یہاں ہم ان کا ایک انٹرویو پیش کررہے ہیں جو ''ایکسپریس'' سنڈے میگزین میں 4 مئی 2014ء کو شایع ہوا تھا۔ یہ انٹرویو ان کی چھے دہائیوں پر پھیلی خدمات، افکار اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔

ایکسپریس: پاکستان میں بچوں کے ادب کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟

مسعود احمد برکاتی: پاکستان میں بچوں کے ادب کا مستقبل تاب ناک نہیں۔ کئی اسباب ہیں جو ناامید کرتے ہیں۔ ہمارے حکم رانوں کو ذرا احساس نہیں ہے۔ حکم رانوں میں وہ دانشور اور اہل قلم اور ایسے اداروں کے سربراہ بھی شامل ہیں جو علم و ادب اور قومی زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے ہی قائم کیے گئے ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کی قدر نہیں کی گئی تو لکھنے والے کیسے پیدا ہوں گے۔ آپ بتائیے کہ بچوں کے لیے سال ہا سال سے لکھنے والے کسی ادیب کو کوئی اعزاز دیا گیا، جب کہ بچپن میں بچوں کے رسائل اور تحریریں پڑھنے والوں میں نواز شریف صاحب اور کئی وزرائے اعظم بھی شامل ہیں۔ کئی بڑی جماعتوں کے سربراہ اور کئی وائس چانسلر صاحبان بھی بچوں کے رسائل پڑھتے تھے۔

ایکسپریس: بچوں کے رسالوں کی تعداد دن بہ دن کم ہونے کی وجوہات؟

مسعود احمد برکاتی: بچوں کے رسائل کی مقبولیت میں کمی کی وجوہ میں الیکٹرانک ٹیکنالوجی کی سہولتوں کا عام ہونا بھی ہے۔ انٹرنیٹ اس دور کی ایک نہایت مفید پیش رفت ہے۔ یہ بھی رسائل و کتب کے مطالعے کی جگہ لے رہا ہے۔

ایکسپریس: بچوں کے ادیبوں کو حکومتی سطح پر پزیرائی نہ ملنے کا سبب کیا ہے؟

مسعود احمد برکاتی: اس کی وجہ قوم کے مستقبل سے بے پروا ہوکر حکم رانوں کا وقتی مسائل میں کھو جانا ہے۔ بچوں کے ادیبوں کو عملاً ادیب ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آج تک بچوں کے کسی ادیب کو کوئی بڑا ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ بچوں کے کسی ادیب کو صدر یا وزیراعظم کے ساتھ بیرونی دوروں پر نہیں لے جایا جاتا۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، البتہ اِن ادیبوں کی تحریریں پڑھنے والے قارئین اپنی محبت سے اِس بے نیازی کی بڑی حد تک تلافی کر دیتے ہیں۔

مطالعے کے رجحان میں آنے والی کمی اور الیکٹرانک میڈیا کا زور بھی لوگوں کو کتابوں سے دور کر رہا ہے۔ عام طور سے ادیبوں کو ان کی تخلیقات کا معاوضہ نہیں ملتا، حکومت ایسی تدابیر اختیار کرے، جس سے قلم کاروں کو معاوضہ ملنے کی صورت نکلے۔ اپنی کتابیں خود شایع کرنے والے ادیبوں کو رعایتی نرخ پر کاغذ مہیا کیا جائے۔ حکومت علمی، ادبی اور بچوں کے رسائل کو، قطع نظر ان کی تعدادِ اشاعت کے، زیادہ سے زیادہ اشتہارات دے۔

ایکسپریس: ہمدرد کے ساتھ چھے دہائیوں پر محیط سفر طے کرنے کے بعد خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟

مسعود احمد برکاتی: ہمدرد کے ساتھ چھے سے زاید دہائیوں تک علمی، ادبی فلاحی اور سماجی خدمات انجام دینے سے مجھے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی ضائع نہیں کی اور کوشش کی کہ اپنی بہترین ذہنی اور علمی صلاحیتوں سے شہید حکیم محمد سعید کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل میں حصہ لوں اور یکسوئی کے ساتھ اپنے قلم کی طاقت کو تعمیرِ ملت اور فروغ علم و اخلاق میں صرف کروں۔ میں ناکام نہیں رہا۔

ایکسپریس: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے۔

مسعود احمد برکاتی: میری تاریخ پیدائش 10 اگست 1933 لکھی جارہی ہے، لیکن صحیح نہیں ہے۔ اصلی تاریخ مجھے یاد نہیں، لیکن وہ اس سے چند سال پہلے کی ہے۔ معلوم نہیں یہ غلط تاریخ کیسے عام ہوگئی۔ میں ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوا۔ میں اپنے خاندان کا پہلا فرد ہوں جس نے انگریزی سیکھی اور پڑھی۔ میری والدہ محترمہ بشیرالنساء بیگم کی یہ بصیرت تھی کہ انھوں نے مولویوں کی شدید مخالفت کے باوجود گھر پر استاد (ٹیوٹر) رکھ کر انگریزی پڑھوائی۔ اس وقت ہمارے خاندان میں دینی تعلیم ضروری تھی۔ عربی، فارسی ضروری تھی۔ جاگیردار گھرانا ہونے کی وجہ سے تعلیم صرف علم کے لیے دی جاتی تھی۔ کسی سند کی ضرورت اور اہمیت نہیں تھی، لیکن علم میں گہرائی اور وسعت ہونی ضروری تھی۔ کھیلتا کودتا تھا، مگر بہت کم، میں نے کرکٹ کھیلی مگر زیادہ دن نہیں۔

ایکسپریس: اب تک کتنی کتابیں اور سفرنامے لکھ چکے ہیں؟

مسعود احمد برکاتی: اب تک لکھا تو بہت ہے۔ بڑوں کے لیے لکھنا شروع کیا تھا۔ نفسیاتی مضامین لکھے۔ متفرق موضوعات پر بھی لکھا، 1951 میں ماہنامہ ''معاشیات'' کراچی میں ''اشتراکیت''، ''کارل مارکس''، ''تاریخ کی مادی تعبیر''، ''طباقی نزاع''، ''اشتراکیت'' اور ''مذہب'' کے عنوانات سے علمی اور غیرسیاسی مضامین لکھے۔ رسالہ ''معاشیات'' بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انجمن ترقی اردو، پاکستان سے جاری کیا تھا۔ جناب محمد احمد سبزواری اس کے ایڈیٹر تھے۔

1953 میں شہید حکیم محمدسعید نے بچوں کا ماہنامہ ہمدرد نونہال میرے سپرد کیا۔ یوں مجھے بچوں کے لیے لکھنا پڑا۔ مسلسل 62 سال سے بچوں کے لیے لکھ رہا ہوں۔ ہر سال اس کا ایک ضخیم خاص نمبر نکالتا ہوں۔ حکیم صاحب بچوں کے مستقبل کو قوم کا مستقبل سمجھتے تھے اور ہمدرد نونہال کی ترقی اور وسعت کے لیے ہر تجویز اور تدبیر سے خوش ہوتے تھے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ حکیم صاحب کی شہادت کو 15 سال سے زاید کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ہمدرد نونہال اسی باقاعدگی اور پابندی سے نکل رہا ہے۔

محترمہ سعدیہ راشد (صدر ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان) بھی حکیم صاحب کی طرح دل چسپی لیتی ہیں۔ میری قابل ذکر تصانیف، تالیفات اور تراجم میں ''جوہر قابل'' (مولانا محمد علی جوہر کی کہانی اور کارنامے) ، ''صحت کی الف بے''،''حکیم محمد سعید کے طبی مشورے''،''دو مسافر دو ملک'' (اردو میں بچوں کا پہلا سفرنامہ)،''مونٹی کرسٹو کا نواب'' (الیگزینڈر ڈوما کے ناول کا ترجمہ)،''پیاری سی پہاڑی لڑکی'' (ترجمہ ناول)، ''ایک کھلا راز'' (مجموعہ مضامین)، ''وہ بھی کیا دن تھے'' (مرتبہ)، ''ہزاروں خواہشیں'' (چارلس ڈکنس کے ناول کا ترجمہ)، ''صحت کے 99 نکتے''، ''فرہنگ اصطلاحات طب'' (نظرثانی)، ''چور پکڑو'' (مجموعہ مضامین)، ''تین بندوقچی'' (ترجمہ) شامل ہیں۔

ایکسپریس: سفر نامہ ''دو مسافر، دو ملک'' لکھنے کا خیال کیسے آیا؟

مسعود احمد برکاتی: 1982 میں ماہنامہ ''یونیسکو پیامی'' (یونیسکو کوریئر) کی میٹنگ میں شرکت کے لیے ہمیں (شہید حکیم محمد سعید اور مجھے) پیرس جانا تھا۔ اس میٹنگ میں تمام دنیا سے رسالہ ''یونیسکو کوریئر'' کے مدیران آئے تھے۔ پیرس سے پہلے ہم لندن بھی گئے۔ پیرس کی میٹنگ بہت مفید اور کام یاب رہی۔ اس میں خاص طور پر چین اور ہندوستان کے مدیروں سے علیحدہ بھی ملاقاتیں رہیں۔ یہ دل چسپ اور مفید سفر خود اس بات کے متقاضی تھے کہ ان کو لکھا جائے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس سفرنامے کو اس طرح لکھا جائے کہ بچوں کے لیے بھی سبق آموز ہو۔ چناں چہ ''دو مسافر دو ملک'' کے نام سے اس سفر کے حالات ہمدرد نونہال میں قسط وار لکھنے شروع کردیے جو بچوں کے علاوہ بڑوں کے لیے بھی معلوماتی ثابت ہوئے اور پھر ان کو کتابی صورت میں شائع کرنا ضروری لگا۔

ایکسپریس: آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیے۔

مسعود احمد برکاتی: میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے کسی زبان پر عبور حاصل ہے۔ البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی اور روسی زبان پڑھی ہے۔ ان میں عربی اور روسی استعمال میں نہ آنے کی وجہ سے فراموش ہوتی جارہی ہیں۔ عربی تو پھر بھی ثقافتی تعلق کی وجہ سے اور اردو ادب پر اپنے اثرات کی وجہ سے آس پاس رہتی ہے، لیکن روسی زبان تو میں نے بڑے شوق سے سیکھی تھی اور اس کے لیے روز انہ فرینڈ شپ ہاؤس جاتا تھا۔ وہاں ڈاکٹر شریف صاحب روسی پڑھاتے تھے۔

ان کی خصوصی توجہ اور پڑھانے کے پُرخلوص انداز کی وجہ سے مجھ جیسے طالب علم کی دل چسپی اور لگن بڑھتی جاتی تھی۔ ڈاکٹر شریف صاحب نے ماسکو جاکر روسی زبان سیکھی تھی اور پی ایچ ڈی کیا تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ اس لیے میرا اتنا لحاظ بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ احترام کرتے تھے کہ مجھے شرمندگی ہونے لگتی تھی۔ کیا بات تھی اْن کی علم دوستی کی، شاگرد کی حیثیت سے میں پریشان ہوجاتا تھا۔ افسوس کہ ڈاکٹر شریف صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ ایک نادر انسان تھے۔ فارسی سے ذہنی ربط زیادہ ہے۔ فارسی اشعار آسانی سے یاد ہوجاتے تھے۔ اردو تو زندگی کا حصہ ہے، روزانہ سیکھتا ہوں اور احساس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔

ایکسپریس: جدید ٹیکنالوجی بچوں کو کتابوں سے دور کررہی ہے۔ ان میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہییں؟

مسعود احمد برکاتی: جدید ٹیکنالوجی یا سائنس اپنے عروج پر ہے جس کی بدولت آؔج انسان کو دنیا کی ہر نعمت، ہر راحت، ہر سہولت میسر ہے۔ سائنس بھی علم کا حصہ ہے۔ علم کی بدولت انسان پہلے خلا میں اور پھر چاند پر پہنچا۔ ہمیں جدید ٹیکنالوجی کو برا نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وہ زمانہ گیا کہ مولوی صاحبان ریڈیو کو برا سمجھتے تھے۔

لاؤڈ اسپیکر کا استعمال مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ اب یہ سب ایجادات انسان کو سہولتیں پہنچا رہی ہیں اور انسان آگے بڑھ رہا ہے۔ بے شک کتابوں سے بچوں کی رغبت کم ہوگئی ہے، لیکن کتاب کی اہمیت ہے اور باقی رہے گی۔ کتاب سے دل چسپی برقرار رکھنے میں ماں باپ اور استاد بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقی نے طباعت و اشاعت کی سہولتوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اب کتاب چھپنا پہلے کی طرح مشکل نہیں رہا۔ پہلے کتابت بھی ایک سخت مرحلہ تھا۔ اب کمپوزنگ اور نوری نستعلیق کی ایجاد نے طباعت و اشاعت کو بہت آسان کر دیا ہے۔ اب بچوں کی کتابوں کو بہت باتصویر، پرکشش اور خوب صورت بنایا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس: ہمدرد نونہال کی کام یابی کا سہر ا کس کے سر جاتا ہے؟

مسعود احمد برکاتی: بڑا مشکل سوال ہے۔ ہمدرد نونہال کی کام یابی کا سہرا سب سے پہلے تو نونہالوں یعنی رسالے کے قارئین کے سر بندھتا ہے۔ رسالے کو پسند کرکے انھوں نے ہمیں ہمت دی۔ شہید حکیم محمد سعید کو بچوں سے بڑا پیار تھا اور ان کی تعلیم و تربیت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ہمدردنونہال کے بانی وہی تھے اور نہ صرف بانی بل کہ اس کے معمار بھی وہی تھے۔ مجھے بچوں کے لیے لکھنے پر آمادہ بھی انھوں نے ہی کیا۔ پھر اُن سب ادیبوں اور شاعروں کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے جنھوں نے اس (نونہال) کے لیے لکھا اور اپنی تحریروں سے اس کو دل چسپ اور مفید بنایا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔