آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا…

بہت جلد تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں عوام کی عدالت میں حاضر ہونے والی ہیں۔


نجمہ عالم March 15, 2013

گزشتہ ایک ہفتے کے اخبارات پر نظر ڈالیے، بلکہ صرف سرخیوں کو ہی دیکھ لیجیے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی خوبیاں گنوانے اور اپنے گن گانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے عیب تشت ازبام کرنے میں نہ صرف مصروف ہیں بلکہ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں ان کی مصروفیات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔

ہر پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اللہ کے فضل وکرم سے وہ اقتدار میں آگئے تو ملک وقوم کی تقدیر اور ملک کی تصویر ہی بدل ڈالیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک سے زیادہ بار اقتدار میں آنے والے پہلے بھی یہی وعدے کرچکے ہیں۔ پہلے کیا کیا تھا؟ اور اب کیا کرلیں گے، یہ سمجھنا عوام کی عقل و دانش پر منحصر ہے۔

اپنے اپنے راگ الاپنے کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں مختلف انداز سے سیاسی جوڑ توڑ میں بھی مصروف ہیں، کس کس انداز کے اتحاد بن رہے ہیں اور کون کس کو چھوڑ کر کس سے ہاتھ ملارہا ہے، آپ سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کھیل جو ہر انتخاب سے پہلے کھیلا جاتا ہے اب بھی میدان سیاست میں جاری و ساری ہے۔

الیکشن کمیشن بدعنوان اور نااہل افراد کو ایوان میں جانے سے روکنے کی مقدور بھر کوششیں کر رہا ہے۔ خدا کرے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو۔ مگر سیاسی بازی گر بھی کچھ کم ہوشیار نہیں، ان کی ساری ذہانت، صلاحیت اور ہنر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ تک ہی محدود ہے، اگر وہ یہ تمام صلاحیتیں ملک و قوم کی بھلائی پر واقعی صرف کرتے تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا جو آج ہے۔ اخبارات کے مطالعہ سے جو بات عیاں ہوتی ہے وہ یہ کہ تمام سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کی تگ و دو میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ یہ جو تمام لیڈران قوم کے پیٹ میں عوام کے مسائل کا مروڑ اٹھ رہا ہے تو کیا واقعی یہ عوام ہی کا ہے، اقتدار کے حصول کا نہیں؟ اقتدار بھی ذاتی مفاد کا، ملک و قوم کی بھلائی جیسے عمل کا نہیں۔

بہت جلد تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں عوام کی عدالت میں حاضر ہونے والی ہیں۔ جلسے جلوس، اشتہارات اور دوسرے تشہیری ذرایع پر لاکھوں نہیں کروڑوں خرچ کرنے والے اپنے ان ذرایع کا حساب عوام کو دیں گے۔ مگر عوام بھی کون بے کس، مجبور، بے سہارا، جاہل، کم عقل، جن کو ایک پلیٹ بریانی اور شاید دس پندرہ روپے دے کر ان کے ووٹ حاصل کیے جاتے رہے ہیں وہ بھلا ان گھاگ سیاستدانوں سے کیا حساب طلب کریں گے؟ (خدا کرے اس بار ایسا نہ ہو اور الیکشن کمیشن ان انتخابات کو صاف شفاف اورغیرجانبدار بنانے میں کامیاب ہو جائے)۔ الیکشن کمیشن اپنی نیک نیتی کے باعث کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو ایوان میں کون جائے گا؟ وہی بار بار کے آزمائے ہوئے ابن الوقت جو موقع محل دیکھ کر اپنی وفاداری بدلنے کے ماہر،اپنے سیاسی پیشروؤں کو ہر رنگ اور ڈھنگ سے آزمانے کے لیے مشہور ہیں۔

صورت حال کچھ بھی ہو بڑے بڑے انقلابی دعوئوں کے باوجود اگر باپ نہیں تو اس کا بیٹا نہیں تو بھائی بھتیجا ہی ایوان میں رونق افروز ہوگا۔ پہلی پارٹی کے بجائے کسی اور پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہی سہی۔ مقصد یہ ہے کہ یہ جو انتخابی مہم پر بے دریغ خرچ کیا جارہا ہے یہ کوئی نقصان کا سودا تو ہے نہیں، اگر خرچ کی گئی رقم کا کئی گنا نہیں تو کم سے کم منافع تو ضرور حاصل کرنا ہے اور نقصان کو پورا کرنے کے لیے ایوان میں پہنچ کر کوئی وزارت بھی حاصل کرنی ہے تاکہ جتنا ممکن ہو اتنا لوٹ کھسوٹ کر اپنا خرچ پورا کیا جاسکے۔

77 کے انتخابات میں ہم اپنی آنکھوں سے وہ مناظر بھی دیکھ چکے ہیں کہ جب ایک جماعت کے کارکنان نے بانس کی لمبی لمبی سیڑھیاں لگاکر زنانہ پولنگ اسٹیشنوں میں اپنی برقعہ پوش خواتین ہی نہیں بلکہ اپنے اسکواڈ کے جوانوں کو بھی اندر پہنچاکر ووٹر خواتین کی پٹائی کروادی تھی، اس جماعت کی جیالی خواتین نے دوسری خواتین کے کپڑے تک پھاڑ ڈالے تھے (مزید تفصیلات کے لیے اس دور کے اخبارات موجود ہیں) قانون نافذ کرنے والے بالکل بے بس بلکہ خود بھی غیر محفوظ ہوگئے تھے۔

نو ستاروں کے اتحاد نے نتائج نہیں بلکہ پولنگ شروع ہونے سے قبل ہی دھاندلی کے الزامات لگاکر انتخابات کے عمل کو سبوتاژ اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے ملکی تقدیر پر جو بھٹہ لگایا، سرکاری، نجی املاک کو زبردست نقصان پہنچانے کے علاوہ بھٹو کو پھانسی کے تختے تک پہنچا کر ہی دم لیا (پھر کہاں کی جمہوریت، کہاں کے انتخابات؟) اس بدنما داغ کو شاید کبھی بھی یہ سیاسی جماعتیں اپنے دامن سے نہ دھو سکیں، نتیجتاً جمہوریت کو پٹری سے یوں اتارا گیا کہ برسوں جمہوریت بحال نہ ہوسکی، بھٹو کی کوئی بات نہ ماننے والے مارشل لاء کی چھتری تلے سکون سے بیٹھ گئے اور جب برسوں بعد جمہوریت بحال ہوئی تو ملک کلاشنکوف کلچر، مہنگائی، مذہبی تعصب، تنگ نظری اور نہ جانے کن کن مسائل کی آماجگاہ بن چکا تھا۔

موجودہ جمہوری حکومت نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کرلی۔واقعی بڑا کارنامہ ہے، مگر اس جمہوریت نے عوام کو کیا دیا؟ لاشیں، لوٹ کھسوٹ، چوری، ڈاکے۔۔۔۔۔! آج کے حکمران بزعم خود بھٹو کے جانشیں اور جمہوریت کے زبردست حامی ہیں، انھوں نے جمہوریت کی کیا خدمت کی؟ یہ جمہوریت تو ڈکٹیٹر شپ سے بھی بدتر ثابت ہوئی، آنے والے وقت میں دیکھیے کیا رنگ ڈھنگ سامنے آتے ہیں۔

بہرحال ہر سیاسی جماعت دعوے تو بہت کر رہی ہے ، مگر کیا یہ وعدے پورے بھی ہوں گے؟ امید تو رکھنی چاہیے کیونکہ مایوسی کفر ہے، مگر بقول شاعر:

وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا

ہم تو بس دست بہ دعا ہیں کہ جو کچھ ہو ملک و قوم کے حق میں بہتر ہو۔

مگر چلتے چلتے ایک اور بات یہ کہ جو ہر سیاسی پارٹی مسند اقتدار کے ہی خواب دیکھتی ہے تو کیا سیاسی جماعتیں صرف اسی مقصد کے لیے تشکیل دی جاتی ہیں؟ میرے خیال سے تو جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتوں کے کچھ اور بھی فرائض ہوتے ہیں مثلاً عوام کی خدمت، ان کی فلاح و بہبود کے لیے عملی جدوجہد کے علاوہ عوام کی سیاسی تربیت کرنا، ان کو ووٹ کی اہمیت کا احساس دلاکر ووٹ کا درست استعمال سکھانا، نچلی سطح سے لیڈر شپ کے امکانات پیدا کرنا وغیرہ۔ اگرچہ یہ فہرست کافی طویل ہے مگر ہمارے یہاں اتنا بھی ہوجائے تو بہت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔