سرکاری اسپتالوں میں شام کی او پی ڈی بند کر دی گئی

حکومت ڈاکٹروں کو شام کی اوپی ڈی میں تعینات نہیں کر رہی، ہیلتھ کمیشن بل پر عمل درآمد نہیں کیا گیا


Tufail Ahmed December 13, 2017
موسمی بیماریاں ہولناک صورت اختیار کر گئیں ، شہر کے نجی اسپتالوں اور کلینکوں میں مریضوں کا غیر معمولی رش۔ فوٹو: راشد اجمیری/ایکسپریس/فائل

کراچی سمیت صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں شام کی اوپی ڈی کی سہولتیں میسر نہ ہونے سے مریضوں کی بڑی تعداد نجی اسپتالوں اور کلینکوں کا رخ کرنے پر مجبور ہے،ج ہاں عوام اپنی صحت کے حوالے یومیہ کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔

نجی کلینکوں واسپتالوں میں یونیفارم فیسیں مقرر نہ کرنے سے بھی عوام معاشی اضافی بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں، دوسری جانب حکومت سندھ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کو نان پریکٹس الاؤنس بھی باقاعدگی سے ماہانہ ادائیگی کررہی ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری ڈاکٹروں کو شام کی اوپی ڈی میں تعیناتیاں نہیں کی جاتی۔

صوبائی محکمہ صحت 30سال قبل بعض سرکاری صحت کے مراکز میں شام کی اوپی ڈی قائم کر رکھی تھی تاہم غیر اعلانیہ طورپر بند کردی گئیں جس کی وجہ سے شام کے اوقات میں نجی اسپتالوں اور کلینکوں میں مریضوں کا غیر معمولی دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے، نجی اسپتالوں اور کلینکوں کو ریگولیٹ کرنے کیلیے ہیلتھ کمیشن بل کی بھی منظوری دی تھی تین سال گزرنے کے بعد ہیلتھ کمیشن بل پر عمل درآمد نہیں کیاجاسکا۔

ہیلتھ کمیشن بل کے تحت تمام نجی اسپتالوں وکلینکوں کوضابطہ قانون میں لانا تھا،کمیشن کے غیر فعال ہونے سے نجی اسپتالوں وکلینکوں میں مریضوں کا غیر معمولی رش بڑھ گیا ہے، کراچی میں ماحولیاتی آلودگی،جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں نے غلاظت پھیلا رکھی ہے جس کی وجہ سے موسمی بیماریاں ہولناک صورت اختیار کرگئیں ہیں۔

علاوہ ازیں نزلہ، زکام ، الرجی سمیت دیگروائرل بھی کراچی میں ہولناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں بھی ہولناک اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں مریضوں کو نجی اسپتالوں سے علاج ومعالجہ حاصل کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، نجی اسپتالوں میں یکساں فیسوں کے تعین نہ ہونے سے مریض مزید معاشی ناہمواریوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

اس صورتحال کے پیش نظرکراچی کے عوام نے وزیر اعلیٰ سندھ ،سیکریٹری صحت سے مطالبہ کیا ہے کہ شام کے اوقات میں سرکاری اسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز میں اوپی ڈی شروع کی جائے، ڈاکٹروں کی تعیناتیاں عمل میں لائی جاسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں