آیندہ انتخابات اور عوام کے شبہات
امریکی چاہیں گے کہ وہ پاکستان میں ایک ہی کھڑکی پر تمام معاملات طے کریں۔
غیر یقینی کی کیفیت، سازشوں اور داغدار سیاسی تاریخ کی حامل اس سرزمین پر آباد لوگوں کے شبہات کچھ بھی ہوں مگر وہ سمجھ میں آتے ہیں۔ اکثر لوگ سوال کرتے ہیں ''کیا واقعی آپ سمجھتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہو جائیں گے؟'' جیسا کہ سب کو معلوم جو لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں اصل میں وہ آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ خود کس طرح سوچتے ہیں، اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ الٹا ان سے پوچھا جائے کہ ''اس بارے میں ان کی اپنی سوچ کیا ہے؟'' پچھلے کچھ ہفتوں میں شکی لوگوں سے میری جو گفتگو ہوئی وہ کچھ اس طرح تھی۔
شکی: میں نہیں سمجھتا کہ انتخابات وقت پر ہو جائیں گے۔
میں: کیوں؟
شکی: امریکی چاہیں گے کہ وہ پاکستان میں ایک ہی کھڑکی پر تمام معاملات طے کریں کیونکہ افغانستان سے نیٹو کی فوجوں کے انخلاء کا وقت شروع ہو گیا ہے اور انھیں اپنے پیچھے ایک نسبتاً مستحکم افغانستان چھوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ پاکستان میں ایک ایسی مضبوط ٹیکنو کریٹ حکومت سے معاملات کرنا چاہیں گے جسے فوج کی حمایت حاصل ہو۔
میں: کیا پاکستانی فوج بھی یہ چاہتی ہے کہ جب نگراں حکومت قائم ہو جائے تو انتخابات ملتوی کر دیے جائیں؟
شکی: بالکل۔ وہ ایک ایسی حکومت چاہتے ہیں جس کی کارکردگی بہتر ہو، جو رو بہ زوال مالیاتی حالات کو سدھار سکے، وہ ایک ایسی حکومت چاہتے ہیں جو خارجہ پالیسی کے معاملے میں اس کے تابع ہو۔
میں: کیا موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ نے فوج کو اس وقت سیاسی تحفظ فراہم نہیں کیا تھا جب اس کی ساکھ متاثر ہوئی تھی، مثال کے طور پر جب امریکی Seals نے اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے پاکستانی حدود کے اندر گھس کر کارروائی کی جس سے فوج کی سبکی ہوئی۔ یہ دو حوالوں سے فوج کی ناکامی تھی: انٹیلجنس کی ناکامی کہ اسامہ ان کی ناک کے نیچے رہ رہا تھا یا پھر انٹیلجنس نے اس بات کو چھپائے رکھا، کیونکہ انھوں نے اسامہ کو پناہ دینے کا اعتراف نہیں کیا؛ اور یہ کہ فوج امریکی ہیلی کاپٹروں کی در اندازی کا پتہ چلانے میں ناکام رہی جن میں تربیت یافتہ کمانڈوز تھے۔
انھوں نے ایک گھنٹے میں اپنا آپریشن مکمل کیا اور واپس چلے گئے، کوئی ان کو للکار نہ سکا۔ یا جب سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے 24 فوجی شہید کیے گئے تو پاکستان نے نیٹو سپلائی روک دی۔ اس سے امریکا کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، اور پھر کوئی بہتر سودے بازی کیے بغیر یہ سپلائی بحال کر دی گئی۔ ارکان پارلیمان اور حد سے زیادہ قوم پرست طفیلی میڈیا نے عوام کے غیظ و غضب کا رخ امریکا کی طرف موڑ دیا۔ اس نے مسلح افواج کی ناکامی سے توجہ ہٹا دی اور پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی بحث چھیڑ دی۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خارجہ پالیسی کے بارے میں تمام بڑے فیصلے فوج کرتی ہے اور چار سال قبل سویلین حکومت اس قسم کے معاملات پر فیصلہ کرنے کے اپنے حق سے اس وقت دستبردار ہو گئی تھی جب صدر زرداری کو بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی حمایت میں بات کرنے پر ناراضگی مول لینا پڑی تھی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ صدر زرداری نے بھی اسی وزیر خزانہ کے تقرر سے اتفاق کیا جس کی سفارش فوج نے کی تھی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب الیکشن چند ہفتوں کی بات رہ گئی ہے، جمہوری طور پر منتخب حکومت پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے پروجیکٹ پر ڈٹی رہی اور گوادر کو چین کے حوالے کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے جس پر امریکا سخت ناراض ہے؟ یہ دونوں منصوبے فوج کی سیکیورٹی پالیسی کا حصہ ہیں۔ منتخب حکومت کی حمایت کے بغیر وہ اسے آگے نہیں بڑھا سکتے تھے اور نہ امریکی دبائو کی مزاحمت کر سکتے تھے۔
اس لیے اگر امریکی حکومت ان اقدامات کو پسند نہیں کرتی جب کہ یہ دونوں منصوبے پاکستان کے مفاد میں ہیں، تو فی الحال ایک منتخب حکومت کا وجود فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حق میں ہے۔ ایک ادارے کی حیثیت سے انھیں سیاستدان نا پسند ہو سکتے ہیں مگر بحران کے وقت میں انھیں عوام کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ الیکشن ہو نے دیے جائیں۔
شکی: آپ نے یہ بات مان لی ہے کہ منتخب حکومت نے امریکا کی منشا سے انحراف کیا اور پاکستان میں ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، وہ کسی بھی حکومت کو ہٹا سکتے ہیں۔
میں: پاک امریکا تعلقات کے بارے میں یہ بات حد سے زیادہ سادگی پر مبنی ہے۔ پاکستان نے غلط یا صحیح اسباب کی بنیاد پر بارہا امریکا کے احکام سے انحراف کیا ہے۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں، پاکستان نے ویت نام کی جنگ میں امریکا کی حمایت نہیں کی تھی؛ وہ امریکا کی اسرائیل پالیسی سے انحراف کرتا ہے اور اس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا حالانکہ بعض مسلم عرب پڑوسیوں کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں؛ پاکستان نے امریکا سے خریدے ہوئے یا امداد کے طور پر حاصل کیے گئے ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال کر کے اس کی بات ماننے سے انکار کیا؛ اس نے جوہری بم بنا کر امریکا کی مرضی کے خلاف کام کیا اور یہ کام وہ ابھی تک کر رہا ہے؛ بھرپور دبائو کے باوجود افغان طالبان کی در پردہ حمایت کر کے وہ امریکا سے انحراف کر رہا ہے؛ اور وہ 2014ء کے بعد کی افغان حکومت کے ڈھانچے میں اپنے لیے اہم کردار مانگ رہا ہے اور جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے۔
تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ اس نے امریکی ناپسندیدگی کے باوجود گیس پائپ لائن اور گوادر بندرگاہ کے منصوبوں پر دستخط کیے۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران پاکستان میں امریکا کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے کیونکہ رائے عامہ اس کے خلاف ہے۔ امریکا کے بارے میں منفی سوچ پیدا کرنے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بھی کچھ حصہ ہے کیونکہ اس سے انھیں امریکی حکومت کو یہ بتانے میں مدد ملتی ہے کہ وہ عوام کے موڈ کے زیادہ خلاف نہیں جا سکتے۔ اس کے لیے انھوں نے منتخب پارلیمنٹ اور دفاع پاکستان جیسی تنظیموں کو استعمال کیا ہے تا کہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ امریکا کی خوشنودی کے لیے ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے۔ وہ امریکا کے ساتھ وہاں تعاون کرتے ہیں جہاں مفادات میں مماثلت ہو یا جہاں امریکا کے مطالبات مسلح افواج کی سیکیورٹی کی ترتیب سے متصادم نہ ہوں۔
تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی منظر نامے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اس علاقے میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً امریکی پالیسیوں کے بارے میں تشویش ہے۔ یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ امریکا بلوچستان کو، اس کی جغرافیائی و فوجی پوزیشن اور اس کے ساتھ ساتھ تیل کی گزرگاہوں اور ایران کی وجہ سے، عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہے گا۔ اس کے علاوہ یہ وجہ بھی ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں بھارت کا زیادہ اثر و رسوخ ہو گا۔
چنانچہ یہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں ہے کہ اس کی طرف سے تیار کی جانے والی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی کے لیے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر جمہوری طور پر منتخب حکومت ہو۔ جمہوری حکومت، عوام اور فوج، اور فوج اور امریکی دبائو کے درمیان بھی دفاعی پشتے کی حیثیت سے بہتر انداز میں کام کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ حکمران طبقات اور فوج بھی ان میں سے ایک ہے، ایسی پالیسیاں وضع کرتے ہیں جو ان کے طبقاتی مفاد کو آگے بڑھاتی ہیں۔ عوام کو حاصل ہونے والے فوائد فقط ثانوی مصنوعات ہوتی ہیں۔
شکی: الیکشن میں خون خرابہ ہو گا کیونکہ معاشرے میں ہتھیاروں کی بھرمار ہے اور دہشت گرد بعض اہم رہنمائوں کو قتل کر کے ان میں خلل ڈالیں گے۔
میں: یہاں میں آپ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، یہ خطرہ ہمیشہ موجود رہے گا۔ ریاست کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے سیکیورٹی ایجنسیوں کی مدد سے پوری قوت کے ساتھ سامنے آنا ہو گا۔ اور میرے خیال میں تمام اسٹیک ہولڈر اس پر متفق ہیں۔ انتخابات کے التوا سے صرف دہشت گردوں کو فائدہ ہو گا جو ووٹ کی پرچی کی بجائے بندوق کی گولی سے انقلاب لانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں نہیں آ سکتے۔