ایک سانحہ…تین روپ

یہ الجھے ہوئے دھاگے ایک ایسے جال کی صورت اختیار کرچکے ہیں جس سے باہر نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔


Amjad Islam Amjad March 13, 2013
[email protected]

ہمارے حالات اور میڈیا کی بریکنگ نیوز کی سنسنی خیزی کے طفیل اب خیر کی خبر نہ صرف کم کم ملتی ہے بلکہ اسے خبر کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا کہ یہ لفظ بھی اب ''تنقید'' اور ''سیاست'' کی طرح اپنے اصل معنی کھوچکا ہے۔ یعنی ''تنقید'' اب تنقیص اور عیب جوئی اور ''سیاست'' چالاکی اور دھوکے بازی کے معنی اختیار کرچکی ہے اور ''خبر'' سے مراد ہمیشہ ''بری خبر'' ہی لی جاتی ہے یہ تبدیلی دراصل اس بیمار ذہنیت کا عکس ہے جو آہستہ آہستہ ہمارا معاشرتی رویہ بنتی جارہی ہے۔

گزشتہ دو ماہ میں تین ایسی خبریں بہت نمایاں ہوکر سامنے آئی ہیں جن کے مرکزی واقعات کو اگر ''سانحے'' کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری، کراچی میں عباس ٹائون اور لاہور میں بادامی باغ کی جوزف کالونی میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں کیے جانے والے سیاسی تجزیے اور تحقیقی رپورٹیں اپنی جگہ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ بحیثیت قوم یہ ہمارے دامن پر لگنے والے ایسے داغ ہیں جنہوں نے ہمیں اپنوں اور غیروں، دونوں کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔

اس میں شک نہیں کہ یہ صورت حال اس مشہور شعر سے ملتی جلتی ہے کہ؎

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار

اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

قیام پاکستان سے اب تک وطن عزیز اپنی جغرافیائی پوزیشن اور قدرتی وسائل کی وجہ سے طاقت ور بین الاقوامی قوتوں اور ہمارے نزدیکی ہمسایوں کے لیے ایک ایسا خطہ رہا ہے جہاں تین باقاعدہ جنگوں کے علاوہ مختلف طرح کی Proxy wars کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی ہیں اور اس پر مستزاد ہماری وہ حکومتیں ہیں جن میں اگرچہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان کم و بیش برابر کے حصہ دار رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان مسائل کو سمجھنے اور ان سے عہدہ برأ ہونے کی سنجیدہ، ہمہ گیر اور مثبت حوالے سے نتیجہ خیز کوشش نہیں کی۔

سو اب یہ الجھے ہوئے دھاگے ایک ایسے جال کی صورت اختیار کرچکے ہیں جس سے باہر نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا لیکن اگر اس مرکزی گرہ کو دریافت کرنے کی کوشش کی جائے جس کے گردا گرد یہ سارا جال بُنا گیا ہے تو وہ یقینا وہ مذہبی انتہا پسندی، عدم برداشت، تشدد پسندی اور اسلام کے نام پر پھیلائی جانے والی وہ جہالت ہے جس نے پہلے ایک خدا ایک رسولؐ اور ایک کتاب کے ماننے والوں کو مختلف مسالک میں تقسیم کیا اور اس کے بعد ہر مسلک کے نمایندوں کو دوسرے مسالک سے نفرت اور انھیں کافر قرار دینے پر مامور کردیا۔

''آغاز میں یہ سلسلہ مذہب اور عقیدے تک محدود تھا لیکن پھر یہ اندرونی اور بیرونی سیاسی سازشوں کا محور بنتا چلا گیا جس کا نتیجہ اگرچہ کئی برسوں سے مختلف افسوس ناک واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا رہا ہے لیکن اب ان کی شدت، تسلسل اور پھیلائو میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ اس کے سدباب میں مزید تاخیر کی گنجائش تقریباً ختم ہوچکی ہے یعنی پانی اب خطرے کے نشان کے اوپر سے چھلکنا شروع ہوگیا ہے۔

پاپوش کی کیا فکر ہے دستارِ سنبھالو

پایاب ہے جو موج، گذر جائے گی سر سے

کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے ساتھ تشدد انگیز واقعات کا سلسلہ گزشتہ چند مہینوں میں رونما ہونے والے دو عظیم سانحوں سے بہت پہلے کا جاری ہے۔ بدقسمتی سے وہاں کی صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ رئیسانی صاحب اور مرکز میں رحمان ملک اور دیگر ذمے داروں نے اسے سمجھنے اور حل کرنے کے بجائے ہمیشہ روایتی غفلت یا تاویلوں، وضاحتوں اور اس نوع کی سیاسی موشگافیوں سے ہی کام لیا ہے۔ جن کا مقصد اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں پوائنٹ اسکورنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ رحمن ملک جس انداز میں آیندہ متوقع واقعات کی خبر قوم کو دیتے ہیں انھیں دیکھ اور سن کر پرانے وقتوں کے اخبارات کے ضلعی نامہ نگاروں کی وہ خبریں بہت یاد آتی ہیں جو وہ صرف اپنی حاضری لگوانے کے لیے تراشا یا بھجوایا کرتے تھے مثال کے طور پر ایک خبر کچھ یوں تھی کہ

''آج کل شہر کے فلاں علاقے میں چوریاں بہت ہورہی ہیں، مقامی پولیس اس سلسلے میں خاموش تماشائی بنی کھڑی ہے اور چوروں کو پکڑنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔ واضح رہے کہ ابھی اس علاقے میں مزید چوریاں ہوں گی''۔

''واضح رہے'' کہ اس محلِ استعمال کی داد رحمن ملک صاحب جیسے سخن دان ہی دے سکتے ہیں۔

یہ تینوں سانحات جنھیں ایک ہی سانحے کے تین روپ بھی کہا جاسکتا ہے بظاہر مقامی اور ملکی سطح کی مذہبی انتہا پسندی کے مظہر نظر آتے ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ تینوں واقعات کے پس منظر میں کارفرما بیرونی قوتیں اگرچہ ایک ہی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کہ بہر صورت پاکستان کو معاشی، معاشرتی، تہذیبی، سیاسی اور عملی لحاظ سے کمزور اور انتشار کا شکار رکھا جائے جس کے لیے وہ کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ مذہب اور مسلک کے نام پر فروغ پانے والی وہ ذہنیت ہے جو ان ڈرون حملوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جن پر اب ہم نے رسمی احتجاج کرنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ یہ بم دھماکے، دہشت گردی کی وارداتیں، کفر کے فتوے اور اجتماعی بے حسی مل کر ہمیں ''جانوروں'' کی اس سطح پر واپس لے جارہے ہیں جس سے رب کریم نے اپنی خاص رحمت کے ساتھ ہمیں بلند کیا تھا اور یہ ذمے داری ہم پر اس لیے شائد زیادہ ہے کہ ہم آخری رسول کی امت اور ان کے نام لیوا ہیں جنھیں ہدایت یافتہ انسانوں کی آخری اور بہترین شکل قرار دیا گیا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا کی کچھ خرابیوں پر میں اکثر تنقید کرتا رہتا ہوں جن میں اس نوع کے سانحوں کی کوریج میں سنسنی خیزی پر ضرورت سے زیادہ زور دینا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اب ہمارا میڈیا ہر سانحے کی صرف لمحہ بہ لمحہ صورتحال ہمارے سامنے لاتا ہے بلکہ اس کے پس پردہ عوامل اور اصل مجرموں کی نشان دہی میں بھی بہت محنت اور تحقیق سے ان حقائق کو سامنے لاتا ہے جنھیں اس سے قبل سرکاری فائلوں میں لپیٹ کر چھپا دیا جاتا تھا۔ سو بین الاقوامی سازشیں اور مقامی محرکات اپنی جگہ لیکن اب لوگ ''جذبات'' اور ''مسلکی اختلافات'' کی آڑ میں کیے جانے والے ان جرائم کی تہہ اور پس پردہ حقائق سے بھی آگاہ ہونا شروع ہوگئے ہیں جن سے بلاشبہ اب ان دہشت گردوں کو وہ عوامی سپورٹ آسانی سے نہیں مل سکے گی جو ان کے لیے تقویت کا باعث بناکرتی تھی اور انشاء اللہ یہ مثبت رویہ یقینا بہتر اور مثبت نتائج کا حامل ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں