شہری ہوشیار رہیں پوائنٹ آف سیلز مشینیں اے ٹی ایم سے بڑا خطرہ ہیں

پی او ایس کے ذریعے کارڈز کے ذریعے ادائیگی کے وقت صارفین کی خفیہ معلومات باآسانی چرائی جاسکتی ہیں، ماہرین


Business Reporter/Kashif Hussain December 08, 2017
لوگ دکانوں، مارکیٹوں، ہوٹلوں میں ادائیگی کے وقت بے فکر ہو جاتے ہیں، ایسے ہی وقت چند سیکنڈوں میں تفصیلات چرائی جا سکتی ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: رقوم کی وصولی کیلیے استعمال ہونے والی پوائنٹ آف سیلز مشینیں اے ٹی ایم سے بڑا خطرہ بن گئی ہیں۔

ملک بھر میں اے ٹی ایم مشینوں کی تعداد 12 ہزار جبکہ POS مشینوں کی تعداد 53 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ آئی ٹی ماہرین کے مطابق پوائنٹ آف سیلز مشینوں کے ذریعے کارڈز کے ذریعے ادائیگی کے وقت صارفین کی خفیہ معلومات باآسانی چرائی جاسکتی ہیں۔

ملک میں الیکٹرانک ادائیگیوں کا رجحان بڑھنے کے ساتھ پلاسٹک منی (کارڈز) کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ اب زیادہ تر صارفین پیٹرول پمپس، ریسٹورانٹس، شاپنگ سینٹرز میں پوائنٹ آف سیلز مشینوں کے ذریعے ادائیگی کرتے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ادائیگی کے وقت پوائنٹ آف سیلز مشینوں سے خفیہ معلومات چرائے جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کے بڑے اسلامی بینک کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ اے ٹی ایم کے مقابلے میں پوائنٹ آف سیلز مشینوں کے ذریعے اکاؤنٹ کی خفیہ معلومات کارڈز کے کوڈز چرانا زیادہ آسان ہے،اس مقصد کے لیے ہیکرز جعلی ڈیوائس ساتھ رکھتے ہیں۔ زیادہ تر صارفین مشینوں سے کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرتے وقت کارڈ کیشیئر کو دے کر بے فکر ہوجاتے ہیں لیکن اسی وقت چند ہی سیکنڈز میں کارڈ کا تمام ڈیٹا اور کوڈز جعلی ڈیوائس پر پھیر کر چرائے جاسکتے ہیں جو بعد میں اکاؤنٹ سے رقوم نکلوانے کے لیے کام آتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بینک صارفین اکاؤنٹس کی خفیہ معلومات اور پن کوڈز معلوم کرنے کے لیے ہیکرز کے حربوں سے ہوشیار رہیں۔ اے ٹی ایم، پوائنٹ آف سیلز مشینوں کے علاوہ بینک اور مالیاتی اداروں جیسی نظر آنے والی جعلی ویب سائٹس، جعلی فون کالز اور ایس ایم ایس کے ذریعے بھی کارڈ کے کوائف اور کوڈ چوری کیا جاسکتا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں پوائنٹ آف سیلز مشینوں سے ماہانہ17ارب روپے کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں لگنے والی بلیک فرائیڈے اور سائبر منڈے آن لائن سیل بینک صارفین کے کارڈز کا ڈیٹا چرانے اور آن لائن فراڈ کے سب سے بڑے مواقع ہیں۔

آن لائن ادائیگیوں اور خریدوفروخت کے اعدادوشمار اور رجحانات پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے Nilsonکی رپورٹ کے مطابق آن لائن ہیکرز نے 2015میں کھاتے داروں اور بینکوں کو 21.64 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگایا۔ 2017میں یہ نقصانات 28ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جبکہ 2020تک آن لائن فراڈ کی عالمی مالیت 32ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2015میں عالمی سطح پر ڈیبٹ، کریڈٹ، پیشگی ادائیگی والے کارڈز سے کیے گئے مجموعی لین دین کی مالیت 31ہزار ارب ڈالر سے زائد رہی جس میں آن لائن فراڈ کا تناسب 7فیصد رہا۔ الیکٹرانک پے منٹس کی خدمات فراہم کرنیوالے عالمی ادارے ACIکی تحقیق کے مطابق دنیا میں 30فیصد صارفین کو گزشتہ 5 سال کے دوران کسی نہ کسی طرح آن لائن دھوکا دہی کا سامنا کرنا پڑا۔

دنیا بھر میں آن لائن فراڈ کے واقعات سب سے زیادہ میکسکو، برازیل، امریکا، آسٹریلیا اور بھارت میں ریکارڈ کیے گئے۔ میکسیکو میں فراڈ کی شرح 56فیصد، برازیل میں 49فیصد، امریکا میں 47 فیصد، آسٹریلیا میں 40فیصد جبکہ بھارت میں 37فیصد رہی۔

آئی ٹی اور بینکاری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بینک کھاتوں سے دھوکا دہی کے ذریعے رقوم نکلوانے کیلیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ الیکٹرانک ٹرانزیکشن کرنے والے صارفین کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن اکائونٹس اور انٹرنیٹ بینکنگ بھی ہیکرز کا آسان ہدف ہیں۔کسی بھی پوائنٹ آف سیلز مشین پر ادائیگی کرتے وقت اپنی نظروں کے سامنے کارڈ سوئپ کروائیں کارڈ ادائیگی کے لیے ویٹر، سیلز مین یا منیجر کے حوالے نہ کریں کیونکہ اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ صارف کا کارڈ حقیقی مشین کے علاوہ ڈیٹا چوری کرنیو الی فرضی مشین پر بھی سوئپ نہ کرلیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں