پاکستان ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی راہ میں بڑی رکاوٹ

سابق اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو اگرکسی سے خطرہ ہے تو وہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک پاکستان ہے


حسیب اصغر November 30, 2017
اسرائیل وہ ملک ہے جسے پاکستان نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔ تصویر: انٹرنیٹ

تقسیمِ ہند کا اصل محرک بنا۔ یعنی مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں جن کا مذہب، ثقافت، تاریخ، رہن سہن اورتہذیب وتمدن سب یکسر مختلف ہے، اس فلسفے کے تناظر میں مملکتِ خداداد پاکستان کی تشکیل کی گئی اور ہندوستان کو دو الگ الگ ملکوں میں بانٹ دیاگیا۔ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے فروری 1948ء میں امریکہ کے نام پیغام میں فرمایا تھا ''میں نہیں جانتا کہ پاکستان کے دستور کی آخری شکل کیا ہو گی، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار اور جمہوری انداز کا ہوگا۔ اسلام کے اصول آج بھی ہماری زندگیوں میں اسی طرح قابل عمل ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام نے ہمیں وحدتِ انسانیت اور عدل و دیانت کی تعلیم دی ہے''۔ یہ تھا وہ نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا۔
یہ کوئی نیا نظریہ نہیں بلکہ بنیادی طور پر یہ وہی نظریہ ہے جو رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے آج سے تقریباً 1500 سال قبل انسانیت کو دیا تھا۔ اس کی روشنی میں دیکھیں تو پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں، اس کے قیام کی نوید 1500 سال قبل سنائی گئی تھی۔ رسول کریم صلیٰ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو اہلِعرب صادق اور امین کہتے تھے اور یہود و نصاریٰ بھی اس بات پرمتفق تھے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم صادق بھی ہیں اور امین بھی، لیکن یہودیوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا نبی ماننے سے صرف اس لیے انکار کردیا تھا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم حضرت اسماعیل علیہ سلام کی آل میں سے تھے۔ یہودی خود کو اللہ کی مقرّب ترین اور بہترین قوم سمجھتے تھے، سارے انبیاء بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے لیکن خاتم النببین کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا جس کو یہود نے ماننے سے انکارکیا، ان کے رائے تھی کہ اللہ نے عزت و وقار صرف بنی اسرائیل کو بخشا ہے، لہٰذا جو بھی نبی مبعوث کیا جائے گا اس کا تعلق لازماً بنی اسرائیل سے ہی ہوگا۔ یوں مسلمانوں سے یہودیوں کی جنگ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔
قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی اسرائیل کے نام سے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کی جبری ریاست قائم کی گئی۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم اور صیہونی تنظیم کے سربراہوں میں سے ایک ڈیوڈ بین گوریان نے اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''ریاست اسرائیل کو اگرکسی سے خطرہ ہے تو وہ پاکستان ہے، کیوں کہ پاکستان اسلام کے نام پرمعرضِ وجود میں آیا ہے۔'' واضح رہے کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا اور 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کی گئی۔ پاکستان ابھی نومولود ہی تھا لیکن اسرائیل نے اس کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ڈیوڈ بین گوریان نے کہا کہ ''جس دن پاکستان ختم ہوجائے گا اس دن اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا۔'' یہاں تک بات بالکل واضح ہے اور ہر ذی شعور کو آسانی سے سمجھ آجاتی ہے۔



پاکستان ایک نظریے کہ تحت وجود میں آیا اور نظریہ کو ختم کرنا چونکہ بچوں کے کھیل جیسا آسان نہیں ہوتا تو یہاں دشمن نے سفاک چال چلی؛ ملک کو توڑنے کےلیے زبان، رنگ، نسل، قوم اور فرقوں کا سہارا لیا گیا۔ ہم میں موجود نادان لوگوں کے ذریعے مذہب کی غلط ترجمانی کی گئی۔ آج یہی غدار اور کچھ نادان غیروں کے ایجنڈے پر اس نظریاتی ملک کو توڑنے کی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ آج کوئی پاکستان میں کہہ رہاہے کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے، کوئی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ہم افغان پیدا ہوئے تھے اور افغان ہی ہیں اور اپنے بزرگوں کو پہلے ہی افغانستان میں دفن کیا ہے۔ کسی نے سندھو دیش کا نعرہ لگایا تو کوئی بلوچستان کو پاکستان کا حصہ ماننے کو تیار نہیں، کوئی لندن میں بیٹھ کر پاکستان کی موجودہ جغرافیہ کو تبدیل کرنے کا خواہاں ہے تو کوئی ملک کو اس قدرغیرمستحکم کررہا ہے کہ اس کے سنبھلنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ جرات و بہادری سے عبارت ہے، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جس قدرغدار اس قوم میں پیدا ہوئے، شاید ہی کسی دوسری قوم میں پیدا ہوئے ہوں۔ پاکستان کے گلی محلوں سے لے کر سیاسی ایوانوں تک میں ہمیشہ سے نادان اور غدار لوگ پائے جاتے رہے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں پاکستان کو انتہائی خطرات کا سامنا ہے۔ بھارتی سرحد ہمیشہ سے ہی پریشانی کا سبب رہی ہے، اب افغان سرحد اور ایران کی سرحد بھی انتہائی حساس ہوچکی ہے۔ ایک طرف فوج طویل ترین سرحدوں کی حفاظت پر معمور ہے تو دوسری طرف ملک میں انتہا پسند تنظیموں اور دہشتگردوں سے بھی نمٹ رہی ہے۔ جبکہ کوئی قدرتی آفت آجائے، حتیٰ کہ ابرِرحمت ہی کھل کر برس جائے تو بھی انتظامیہ کو مدد کےلیے فوج کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔

پاکستانی افواج ہمہ وقت متعدد محاذوں پر برسرِپیکار ہے۔ ایسے میں امریکہ بہادر کا پاکستان پرمزید دباؤ بلکہ دھمکیوں نے انتہائی گھمبیر صورتحال پیدا کردی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازش کا شاخسانہ ہے، امریکہ اسرائیل اور بھارت سے گٹھ جوڑ کرکے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ ہماری نااہل سول حکومت کرپشن کے مقدمات میں الجھی ہوئی ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ ملک کی داخلہ و خارجہ امور بھی اب فوج کو ہی دیکھنے ہونگے۔ دشمنوں نے افغان پالیسی کے اعلان کا جو وقت منتخب کیا وہ بھی انتہائی اہم ہے کہ جب پاکستان اندرونی بحران اور خلفشار کا شکار ہے، منتخب وزیراعظم کو اعلیٰ عدلیہ نے بدعنوانی کے کیس میں نااہل قرار دے کر ایوان وزیراعظم سے نکال دیا اور وہ گلی گلی جاکر پوچھ رہا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ سیاسی عدم استحکام بھی عروج پر ہے۔ ایک مذہبی جماعت کا دارالحکومت میں دھرنا دے کر بیٹھ جانا اور حکومت کا ان کے مطالبات کے آگے گھٹنا ٹیک دینا بھی عالمی سطح پر زیرِبحث ہے۔

اگر ہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو نظر آئے گا کہ امریکہ نے پاکستان کوہمیشہ ہی مایوس کیا ہے۔ اس تاریخی بحری بیڑے کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے جو امریکہ نے پاکستان کی مدد کےلیے بھیجنا تھا۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکہ کے بیشتر امور اسرائیل سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو امداد کے نام پر اتنی خطیررقم دیتا ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ 14 ستمبر2016 کو امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ 10 سالہ فوجی امداد کا معاہدہ سائن کیا جس کے تحت امریکہ اسرائیل کو 38 بلین ڈالر کی امداد دے رہا ہے، یہ وہی اسرائیل ہے جس نے پاکستان کو ریاست اسرائیل کےلیے سب سے بڑا خطرہ قراردیا۔ امریکہ کی سلامتی کی پالیسی سے لے کر انتظامی امور تک سب یروشلم سے ہی طے پاتے ہیں۔ اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے اسرائیل کے اختیار میں ہیں تو امریکہ کی پالیسیز پاکستان کے حق میں مفید کیسے ہوسکتی ہے؟

حالیہ افغان پالیسی بیان پر پاکستان کے ردعمل سے امریکہ بہادر تلملا گیا ہے اور جلد پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اپنی ممکنہ پالیسیز میں پاکستان کے جوہری اثاثوں کو غیرمحفوظ ظاہرکرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی جبکہ بین القوامی ماہرین کی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک دسترس حاصل کرنے کےلیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان پورے عالم اسلام میں واحد نیوکلیئر پاور ہے۔ یہی وہ بات ہے جو اسرائیل کو کسی طور ہضم نہیں ہوتی۔ 1981 میں اسرائیل نے بھارت کی مدد سے کہوٹہ نیوکلیئر ری ایکٹر پرحملے کی کوشش بھی کی جو کامیاب نہیں ہوسکی۔ ان تمام معلومات اور تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان اور مسلمانوں کا دوست ہو ہی نہیں سکتا۔افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن، مصر، مراکش، لبنان، تیونس اور فلسطین میں امریکہ اور اسرائیل کا کردار سب کے سامنے ہے۔ یہاں ہونے والی خونریزی کے پیچھے گریٹراسرائیل کا منصوبہ ہے اور گریٹراسرائیل کی راہ میں بڑی حد تک رکاوٹ پاکستان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ختم کرنے کےلیے ان ممالک کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں۔

برما میں ہونے والے حالیہ فسادات اور مسلمانوں کی بدترین نسی کشی بھی اسی منصوبے سے متعلق ہے۔ اگر آپ معاملات کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ عراق، افغانستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرنے والا امریکہ آج برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر انسانی حقوق کا واویلا اور وہاں امن فوج بھیجنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ کیا امریکہ واقعی برما میں ہونے والے قتل عام پر دکھی ہے؟ کیا واقعی وہ وہاں مسلمانوں کا تحفظ چاہتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! دراصل امریکہ کو اس خطے میں ایک محفوظ پناہ گاہ چاہیے جو اس کو افغانستان میں بدترین شکست کے بعد سے میسرنہیں آ سکا۔ اس نقصان کا ازالہ اور پاکستان سمیت شمالی کوریا کی نگرانی کےلیے اس سے بہتر جگہ اور جواز پورے خطے میں کہیں نہیں مل سکتی۔ یہ ایک طویل اور بحث طلب موضوع ہے جس پر تفصیلات پھر کبھی پیش کریں گے کہ برما میں امریکی اور اسرائیلی دلسچپی کی وجوہات کیا کیا ہیں؟

مختصراً یہ کہ آنگ سان سوچی امریکہ ہی کا پیدا کردہ ایک کردار ہے جو میانمار میں امریکہ کی راہ ہموار کررہا ہے۔ اس سارے منصوبے کے پیچھے اسرائیل کا دماغ ہے جو درحقیقت ''گریٹراسرائیل'' کی منزل کی طرف گامزن ہے۔ لیکن اس راہ میں اگر کوئی براہ راست رکاوٹ ہے تو وہ

کلمہ طیبہ پر قائم ہونے والا ملک پاکستان ہی ہے۔ رب کریم پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔