قدیم انسان کی افریقا سے نقل مکانی

آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے اس ہجرت پر مجبور کیا تھا


Mirza Zafar Baig November 26, 2017
ریسرچ کرنے والے ماہرین نے سمندر کی ایک تہہ میں موجود تلچھٹ یا تہہ نشین کا بھی تجزیہ کیا۔ فوٹو: فائل

حال ہی میں کیے جانے والے ایک تحقیقی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ افریقی خطہ 70,000 سال قبل پہلے خشک ہوا تھا۔ یعنی اس سرزمین کی نمی اور گیلا پن ختم ہوگیا تھا جس کے بعد اس خطے میں ایک اور اہم تبدیلی یہ بھی آئی کہ یہ خطہ ٹھنڈا بھی ہونے لگا۔

موسم کے ان بدلتے ہوئے اثرات نے انسان پر بہت زیادہ اثر ڈالا تھا، جس نے اسے بری طرح خوف زدہ بھی کردیا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس خطے میں ایک بہت بڑی انسانی ہجرت واقع ہوئی اور اچھی خاصی بڑی تعداد میں یہاں طویل عرصے سے آباد انسان نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں کی طرف چلے گئے اور وہاں آباد ہوگئے۔

اس ضمن میں ہونے والی ایک تحقیقی ریسرچ کے بعد ماہرین اور تحقیق دانوں نے سمندر کی ایک مادی تہہ جو سمندری کچرے اور کوڑے کی تہہ پر مشتمل ہے، اس کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ سمندر کی اس تہہ میں جمع شدہ تلچھٹ یا بہت سے مادوں کا کچرا کوئی دو لاکھ سال پرانا ہے۔ گویا اس سے اس سمندری تہہ کے کچرے کی عمر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔

اس کے نتیجے میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ یہ خطہ کسی وقت یعنی ماضی بعید میں بالکل خشک ہوگیا تھا اور پھر سرد بھی ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے یہ جگہ اور بھی زیادہ خشک ہوگئی تھی، گویا نمی اور پانی سے بالکل خالی ہوگئی تھی۔ اب دو چیزوں نے اس پر اپنے منفی اثرات مرتب کیے اور یہ خطہ سرد بھی ہوتا چلا گیا۔ ماہرین اپنا خیال پیش کرتے ہوئے اس زمانے کو نم یا گیلا زمانہ کہتے ہیں، گویا دوسرے لفظوں میں اسے green sahara''گرین سہارا'' کا نام دیا گیا تھا۔

اپنی نئی تحقیق میں ماہرین یہ خیال بھی پیش کرتے ہیں کہ ان حالات سے گھبرا کر یا پریشان ہوکر یعنی آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات دیکھنے اور انہیں قبل از وقت بھانپنے کے باعث انسان نے اس جگہ سے لگ بھگ 70,000 سال پہلے ہجرت کی ہوگی اور اپنے لیے نسبتاً زیادہ محفوظ اور بہتر علاقے تلاش کرلیے ہوں گے اور وہاں آباد ہونے کا فیصلہ کیا ہوگا۔

سائنس دانوں نے حالات و واقعات اور شواہد کو دیکھ کر اپنی یہ رائے بھی دی ہے کہ اس خطے میں آب و ہوا کی تبدیلی بار بار یعنی ایک تواتر کے ساتھ اور خاصی شدید ہوئی ہوگی اور یہ سب کام نقل مکانی کے زمانے میں ہی ہوا ہوگا۔

ایک نئے تحقیقی مطالعے سے اس بات کے ٹھوس شواہد بھی ملے ہیں کہ موسموں اور آب و ہوا کی مسلسل تبدیلیوں نے اس خطے میں انسانوں کے رہنے کو یقینی طور پر مشکل بنادیا ہوگا جس کی وجہ سے مجبور ہوکر انہیں اس خطے کو خیر باد کہنا پڑا۔

ریسرچ کرنے والے ماہرین نے سمندر کی ایک تہہ میں موجود تلچھٹ یا تہہ نشین کا بھی تجزیہ کیا اور اس سے انہیں دو لاکھ سال پہلے شمال مشرقی افریقا کی آب و ہوا کی کچھ علامات کے آثار بھی ملے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ وہ مدت تھی جس دوران یہ خطہ بالکل خشک ہوگیا تھا جس کے بعد یہاں ''نم یا گیلا انقلاب'' آیا اور اس دور کو ماہرین نے ''گرین سہارا'' کا نام دیا، جس نے اس خطے کو مزید خشک کردیا، اس کی خشکی کا یہ حال ہوگیا تھا کہ یہ آج کے زمانے سے بھی زیادہ خشک ہوگیا تھا۔

ریسرچ کرنے والے ماہرین نے Lamont-Doherty Core Repository کے مہتمم حضرات کے ساتھ کام کیا اور یہ پتا چلایا کہ شمال مشرقی افریقا کی سمندری تلچھٹ یا تہہ نشین کی ایک تہہ کے آثار ملے ہیں جو لگ بھگ 55,000 سے 70,000 سال قدیم ہے۔ ماہرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ جینیاتی ریسرچ اس طرف اشارہ دیتی ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب اس خطے کے لوگوں نے افریقا سے یوریشیا کی طرف نقل مکانی کی تھی۔

٭انہوں نے یہ سب کیسے کیا؟
محققین نے سمندر کی اس تلچھٹ کی تہہ کا تجزیہ جہاں کیا تھا، جو جگہ دو لاکھ سال پرانی ہے اور انہوں نے اپنے تجزیے اور ریسرچ کے لیے ہارن آف افریقا کا انتخاب کیا تھا۔ محققین کی ٹیم نے یہاں کی سمندری تہہ سے متعدد نمونے اس طرح جمع کیے کہ ہر چار انچ (دس سینٹی میٹر) کے بعد نمونے لیتے چلے گئے۔ اس سے یہ ہوا کہ ماہرین کو لگ بھگ ہر 1600سال کی مدت کے بعد یا اس مدت کے درمیانی عرصے کے نمونے مل گئے۔ اس کے بعد ماہرین نے alkenones نامی کیمیکلز بھی تلاش کیے جو ایک خاص قسم کی بحری الجائی سے بنتے ہیں۔ اس سے پانی کے درجۂ حرارت کی ترکیب کے بارے میں معلوم ہوسکتا تھا کہ پانی کب اور کس دور میں گرم تھا یا سرد۔

ماہرین نے قدیم leaf wax کا بھی تجزیہ کیا جو سمندر کے اندر کھلا یا پھولا ہوا ہوتا تھا، اس سے ماہرین کو بارش کے نمونے اور انداز کی تعین کرنے میں مدد ملی تھی۔

ایک ماہر Jessica Tierney, UA associate professor of geosciences نے کافی غور و خوض کے بعد خود سے ہی ایک سوال یہ پوچھا کہ آخر آب و ہوا کی اس تبدیلی نے اس خطے کے رہنے والوں پر اس وقت کوئی اثرات ڈالے تھے یا نہیں جب انہوں نے یہاں سے یعنی افریقا سے ہجرت یا نقل مکانی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا:''ہمارا ڈیٹا کہتا ہے کہ جب شمالی افریقا سے ہماری زیادہ تر انواع ہجرت کرگئی تھیں تو اس وقت یہ خطہ خشک تھا مگر نم یا گیلا نہیں تھا۔''

اس تحقیقی مطالعے کا اہتمام یونی ورسٹی آف ایری زونا میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کیا تھا جس نے Lamont-Doherty Core Repository کے مہتمم حضرات کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ اس نے یہ پتا چلایا تھا کہ شمال مشرقی افریقا کی سمندری تلچھٹ یا تہہ نشین کی ایک تہہ کے آثار ملے ہیں، جو لگ بھگ 55,000 سے 70,000 سال قدیم ہے۔ ماہرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ جینیاتی ریسرچ اس طرف اشارہ دیتی ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب اس خطے کے لوگوں نے افریقا سے یوریشیا کی طرف نقل مکانی کی تھی۔

ماہرین کی اس ٹیم نے ہارن آف افریقا سے جمع کیے گئے کچھ نمونوں کا تجزیہ بھی کیا جو 1965میں لیے گئے تھے اور یہ پتا چلایا گیا تھا کہ ان میں دو لاکھ سال پرانی تلچھٹ موجود ہے۔ اپنی اس تحقیق اور اس کے متوقع نتائج کے بعد ماہرین اس بات کا تعین کرنے میں کام یاب ہوئے کہ قدیم آب و ہوا کس طرح تبدیل ہوئی ہوگی۔

اس سے پہلے ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ اس مدت کے دوران آب و ہوا کی تبدیلی کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ ماہرین کی اس تمام ریسرچ کے بعد یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس خطے کی آب و ہوا کس طرح زیادہ ٹھنڈی اور زیادہ خشک ہوئی تھی۔

ایک تحقیقی ماہر Tierney کا کہنا ہے:''ہمارا ڈیٹا بتارہا ہے کہ اس خطے سے انسانوں کی نقل مکانی یا ہجرت کا واقعہ خطے میں ہونے والی ایک بہت بڑی ماحولیاتی تبدیلی کے بعد ہی پیش آیا تھا۔ جب اس خطے میں ماحولیاتی صورت حال مسلسل بگڑتی چلی گئی اور انسان کے لیے یہاں رہنا اور زندگی گزارنا مشکل ہوگیا تو پھر انہوں نے ان حالات سے گھبراکر اس خطے کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کرلیا۔ خطے کے زیادہ خشک ہوجانے نے بھی لوگوں کو پریشان کردیا تھا، ممکن ہے یہی صورت حال لوگوں کی یہاں سے منتقلی کا سبب بنی ہو۔

٭ایک خیال: انسان آسٹریلیا اس وقت سے پہلے پہنچا ہوگا جس کے بارے میں پہلے سوچا گیا تھا
آسٹریلیا میں قدیم تاریخی حقائق کا مطالعہ کرنے والے ماہرین نے اپنی رائے ظاہر کی ہے کہ پہلے ہمارے سائنسی اور ارضیاتی ماہرین کا خیال تھا کہ اس خطے میں انسان 20,000 سے 65,000 پہلے پہنچا تھا، مگر ایسا نہیں ہے، یہاں انسان اس سے بھی پہلے پہنچا ہوگا۔ اس انکشاف کا مطلب یہ ہوا کہ انسان آسٹریلیا کے منفرد میگا فانا علاقوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں لاکھوں سال پہلے آباد ہوا ہوگا۔ میگا فانا برفانی دور کے ان لحیم شحیم زمینی جانوروں کو کہا جاتا ہے جیسے مموتھ۔ یہ جنگل میں پائے جانے والے بہت بڑے زمینی جانوروں کے لیے استعمال کی جاتی ہے خاص طور سے ہاتھی، زرافے، دریائی گھوڑے، گینڈے، قدیم دور کے بڑے ہرن یا elk، اور امریکی بڑا گدھ کرگس وغیرہ۔

برفانی دور کے بعد ماضی بعید کے جانور دنیا سے مٹ گئے تھے، جب ماہرین اس عہد کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو مذکورہ بالا ٹرم میگا فانا استعمال کی جاتی ہے۔

کرۂ ارض پر 12,000 سال پہلے جو قدیم زمینی جانور دندناتے پھرتے تھے، وہ اب دنیا سے معدوم ہوچکے ہیں، مگر ارضیاتی ماہرین اب صرف اس حوالے سے بحث و تمحیص کرتے ہیں کہ یہ جانور کیوں اور کیسے مٹ گئے؟

اس ضمن میں ماہرین دو نظریات پیش کرتے ہیں: ایک یہ کہ ان کے خیال میں چوں کہ انسانوں نے ان جانوروں کا بہت زیادہ شکار کیا تھا، اس وجہ سے یہ قدیم جانور مٹ گئے اور دوسرا نظریہ ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بھی یہ تاریخی جانور کرۂ ارض سے ختم ہوگئے۔

ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے Madjedbebe ملنے والے جو نمونے دیکھے، ان سے انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ اس خطے کے شمالی علاقے میں چٹانی پتھروں کا ایک گھر بھی موجود ہے، جو یہاں کے ابتدائی آبادکاروں نے اس وقت آباد کیا تھا جب وہ یہاں پہنچے تھے۔

یہاں سے 10,000 سے زیادہ پتھر کے اوزار بھی ملے ہیں اور نارنجی مائل زرد (کھریا مٹی والے) کے ساتھ ساتھ پیلے کچھ اور اوزار بھی ملے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کچھ پودوں کی قدیم باقیات بھی ملی ہیں اور ہڈیاں بھی، یہ سب نادر و نایاب اشیا 1973 میں اسی مقام سے زمین کھود کر نکالی گئی تھیں۔

ان سبھی ماہرین کے اجتماعی تجزیے اور گہری تحقیق کے نتیجے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ انسان آسٹریلیا کی اس سر زمین پر اس زمانے سے بھی کہیں پہلے پہنچا تھا جس کے بارے میں پہلے ماہرین نے اندازہ لگایا تھا۔

اس نئی اسٹڈی کے بعد ماہرین اس خیال پر متفق ہوگئے ہیں کہ انسان آسٹریلیا لگ بھگ 65,000 سال قبل پہنچا تھا گویا پچھلے اندازے کے مقابلے میں 18,000 سال قبل پہنچا تھا۔ یہاں اس بات کا سوچنا بھی بڑی دل چسپی کا باعث ہوگا کہ ہمارے آباو اجداد نے آب و ہوا کا اور اس کے اثرات کا کس طرح مقابلہ کیا ہوگا اور اس بدلتی ہوئی صورت حال سے کیسے نمٹے ہوں گے۔ ماہرین کے خیال میں یہ بات خاصی دل چسپ اور حیرت انگیز ہے کہ انسان نے افریقا میں آب و ہوا کی تبدیلی کا اس طرح مقابلہ کیا کہ متعلقہ خطے کے حالات سے گھبراکر وہ وہاں سے نقل مکانی کرکے دوسرے علاقے یا دوسرے خطے میں چلا گیا اور اس طرح خود کو آب و ہوا کے منفی اثرات سے محفوظ کرلیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں