سیاسی سرگرمیوں سے دوری کے لیے اہل خانہ نے امریکا بھیج دیا عاشق رضا

ہماری مخالفت کے سبب ضیاالحق جامعہ کراچی نہ آسکے، سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل


Ashraf Memon/Rizwan Tahir Mubeen November 23, 2017
مقدمات صرف اجارہ دار وکلا کو ملتے ہیں، سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل سید عاشق رضا ایڈووکیٹ سے ایک ملاقات

یہ شہر قائد میں آتے ہوئے جاڑوں کی ایک خنک صبح تھی، جس کی میٹھی اور چمکیلی دھوپ میں عدالت عالیہ (سندھ) کی عمارت دمکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی، لگ بھگ ایک صدی سے ایستادہ اس ایوان کی 'چمک' میں شاید اس کے مکینوں کی انصاف پسندی کو بھی دوش ہو۔۔۔

اس کے گردونواح میں سائلین اور وکلا کی بڑی تعداد کی آمد اس کی خبر دے رہی تھی کہ صوبے کی سب سے بڑی عدالت میں فراہمیٔ انصاف کا تخت سج چکا ہے۔۔۔ بہت سے ظالم و مظلوم بہ یک وقت کٹہرے میں آرہے تھے۔۔۔ کچھ گواہ بھی ہوں گے، کہیں مظلوم نے ظلم کرنے والے کو اس چوکھٹ پر عدل کا پابند کرنا چاہا، تو کہیں ظالموں نے دروغ گوئی کا سہارا لیا اور حق غصب کرنے کی خاطر بے کسوں کو یہاں آنے پہ مجبور کیا۔۔۔ کہیں ابھی شنوائی کے مراحل طے ہونے ہیں، تو کہیں فیصلے بھی صادر کر دیے گئے ہیں۔۔۔ اس لیے یہاں بہت سے لوگ دَم سادھے ہوئے ہیں، تو بہت سے مقدمہ جیتنے پر 'مٹھائی کھلاؤ' کے مطالبے کرتے ہوئے بھی سنائی دیتے تھے۔۔۔

ہماری منزل 'سندھ ہائیکورٹ بار' تھی، جہاں سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل سید عاشق رضا اس مرتبہ ''شخصیت'' کے مہمان تھے۔۔۔ وہ وکیل سے پہلے عوام میں سے سامنے آنے والے ایک فعال سیاسی کارکن ہیں، اور گفتگو میں آخر تک ان کی شخصیت کا یہی تاثر زیادہ حاوی رہا۔

انہوں نے 1952ء میں کراچی میں آنکھ کھولی، گھر کا ماحول مذہبی و غیر سیاسی تھا، حلقۂ احباب کی لبرل اور سیکولر سوچ سے متاثر ہوئے اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کا حصہ بنے۔ 1974ء 1973 میں سینٹ پیٹرک کالج میں طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے، سینٹ پیٹرک کالج سے کیٹرک ہال تک پہلی بار یوم مئی کا ایک بڑا مشعل بردار جلوس نکالا۔ اُن کے والد سید موسیٰ رضا سول انجینئر تھے، جو 1954ء میں قطر گئے، اور لگ بھگ 30 برس خدمات انجام دیں۔ عاشق رضا نو بھائی اور چار بہنیں تھیِں، اُن سے چھوٹی بہن کا انتقال ہو چکا، جب کہ تین بھائی اُن سے چھوٹے ہیں۔ بڑے بھائی پی آئی اے میں فلائٹ انجینئر رہے، ایک بھائی کا قطر میں ملبوسات کا کام ہے، کچھ بھائی خاندانی کاروبار 'مسٹر برگر' سے منسلک ہیں، جب کہ کچھ امریکا میں کاروبار کر رہے ہیں۔

عاشق رضا نے 1975ء میں ایس ایم لا کالج میں 'ایل ایل بی' میں داخلہ لیا، دن کا وقت جامعہ کراچی سے جُڑ کر کارآمد کیا، اور ایم اے فلسفہ کے طالب علم ہوئے۔ اُن دنوں ڈاکٹر منظور احمد صدر شعبہ تھے، جب کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف بھی ایک نمایاں استاد تھے۔ یہاں بھی طلبہ سیاست میں سرگرم رہے، کئی گروہ میں بٹی ہوئی 'این ایس ایف' کے گروہ کو ملا کر اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف 'پروگریسو فرنٹ' بنایا، جس میں پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، سندھ این ایس ایف وغیرہ کو شامل کیا، پھر اس 'پروگریسو فرنٹ نے 'لبرل گروپ' کے ساتھ اتحاد کر کے پہلی دفعہ طلبہ یونین کے انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کو شکست دی۔ لبرل گروپ، پروگریسو سے بڑا تھا، اس لیے صدارت انہیں ملی اور سردار عبدالرحیم (جو ان دنوں مسلم لیگ فنکشنل میں ہیں) صدر ہوئے، جب کہ پروگریسو فرنٹ کے خورشید حسنین سیکریٹری قرار پائے۔

'لبرل گروپ' کے حوالے سے عاشق رضا کہتے ہیں کہ اُن کے پاس کوئی سیاسی، سماجی یا معاشی پروگرام نہ تھا، وہ صرف لبرل ازم کا شکار تھے۔ تاہم نظریاتی فرق کے باوجود ہم جمعیت کے مقابل یک جا ہوئے، جس نے جامعہ کراچی میں بڑی غنڈہ گردی مچا رکھی تھی۔ کہتے ہیں کہ 1975ء میں ہمارے جیتنے کے بعد جامعہ کی پرتشدد فضا میں کمی آئی، ورنہ جمعیت کا 'تھنڈر اسکواڈ' قائم تھا، جو مار پیٹ کرتا اور دھمکاتا تھا۔ یونین انتخابات کے بعد جمعیت کے کچھ لوگ خون خرابہ چاہتے تھے، لیکن اُن کے صدر بہت سمجھ دار اور ذی شعور تھے، غالباً اُن کا نام مالک مجاہد تھا، جنہوں نے کہا کہ ''ہمیں نتیجہ تسلیم کرنا پڑے گا، اور کوئی ہنگامہ نہیں ہونا چاہیے۔''

جامعہ کراچی میں آتشیں اسلحے کی فراوانی اُن کے دور کے بعد ہوئی، تشدد اور اسلحے کے حوالے سے وہ جماعت اسلامی کو زیادہ مورود الزام ٹھیراتے ہیں کہ 'این ایس ایف' والے تو دلائل سے بات کرتے تھے، کہتے ہیں ''جمعیت نے برنس روڈ میں باقاعدہ ایک ٹریننگ سینٹر بنایا تھا، جہاں وہ جوڈو، لاٹھی چارج اور مارپیٹ کی تربیت دیتے۔ جب وہ کسی تعلیمی ادارے میں یونین کا چناؤ ہارنے لگتے یا کم زور ہوتے، تو یہاں سے لڑکوں کو گاڑیوں میں لے جاکر مار پیٹ کرتے۔ آج اس کی مثال پنجاب یونیورسٹی ہے، جہاں شیخ الجامعہ کے بہ جائے جمعیت کے ناظم کی زیادہ چلتی ہے۔'' دیگر تنظیموں کے تشدد میں ملوث ہونے پر انہوں نے کہا کہ ردعمل میںدوسروں نے بھی تشدد اپنایا۔ عاشق رضا طلبہ یونین کی بحالی پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ طلبہ سیاست کو سب سے زیادہ نقصان یونین پر پابندی سے پہنچا۔ صرف کتابوں کا علم، علم نہیں، بلکہ مکالمے، مشاہدے اور باہمی گفت وشنید سے بھی علم آتا ہے۔

دوران گفتگو ڈاکٹر حسن ظفر عارف کا ذکر ہوا، تو ہم نے اُن کی متحدہ قومی موومنٹ (لندن) سے وابستگی کے حوالے سے رائے لینا چاہی، جس پر عاشق رضا نے کہا یہ وہی بہتر بتا سکتے ہیں، ہمارے زمانے میں وہ بہت ترقی پسند سوچ کے تھے۔ فلسفے کو تمام علوم کی ماں کہا جاتا ہے اور وہ فلسفہ کے استاد ہیں، جس کی نگاہ بہت وسیع ہوتی ہے۔ اُن کے اس اقدام کی وجوہات پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا، ممکن ہے کہ جس گروہ کو کارنر کیا جا رہا ہے، اس کا دباؤ ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک سیاست میں افہام وتفہیم اور مکالمہ نہ ہو بات نہیں سلجھے گی۔ تشدد اور لوگوں کو جیلوں میں بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

عاشق رضا کہتے ہیں کہ 1977ء میں مارشل لا کے بعد جنرل ضیاالحق پنجاب کی آٹھ جامعات کے دورے کر کے آٹھ کروڑ روپے کا اعلان کر چکے تھے، وہ جامعہ کراچی بھی آنا چاہتے تھے۔ جمعیت وغیرہ کی خواہش تھی کہ وہ یہاں آکر جامعہ کراچی کا ڈھائی کروڑ روپے کا خسارہ پورا کرنے کا اعلان کریں، شیخ الجامعہ ڈاکٹر احسن رشید بھی اس کے حامی تھے۔ عاشق رضا اور اُن کے رفقا نے شیخ الجامعہ سے کہا کہ امداد کے اعلان محض سیاسی حربے ہیں، کیوں کہ آٹھ کروڑ روپے کے اعلان پر وزیر خزانہ غلام اسحق خان کا بیان ہے کہ ہمارے پاس ایک پیسہ نہیں۔ اگر وہ اسلام آباد سے یہ اعلان کر دیں کہ ہم نے ڈھائی کروڑ کا خسارہ پورا کر دیا، تو پھر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم اس روز غیر حاضر رہیں، لیکن ایسا نہ ہوا اور یوں ضیا الحق جامعہ کراچی نہ آسکے۔ اس دوران عاشق رضا پر فائرنگ ہوئی اور وہ شدید زخمی ہو گئے۔ اہل خانہ پہلے ہی ان کی سیاسی سرگرمیوں کے مخالف تھے، اب انہوں نے علاج کے لیے زبردستی امریکا بھیجا، تاکہ انہیں سیاسی سرگرمیوں سے بھی باز رکھ سکیں۔ علاج کے بعد 'نیو اسکول فور سوشل ریسرچ' (نیویارک) میں پولیٹیکل اکنامی میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد 'ایل ایل ایم مکمل'{ کر رہے تھے کہ والدہ کے انتقال کے سبب وطن لوٹنا پڑا۔ کراچی آکر 1984ء 1983ء سے باقاعدہ وکالت کا سلسلہ شروع ہوا، جو تاحال جاری ہے۔

موکلین کے اپنے وکلا سے حقائق چھپانے کے حوالے سے عاشق رضا کہتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ وہ مخالف فریق سے نہ مل جائے۔ ''کالی بھیڑیں کہاں نہیں ہوتیں، اکثر وکیل محنتی ہیں۔ نئے وکلا بہت سمجھ دار ہیں اور واقعی میں پڑھ کر آئے ہیں۔'' 'وکلا گردی' کے سوال پر گویا ہوئے کہ وکیل بھی اسی سماج کا حصہ ہیں۔ جنرل ضیا کے مارشل لا کے بعد سماج میں جبر اور تشدد کی زبان فروغ پائی، جس میں مکالمے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مارشل لا کبھی 'رول آف لا' کی بات نہیں کرے گا وہ کہے گا 'لا اینڈ آرڈر۔'

عاشق رضا کہتے ہیںکہ سب سے زیادہ غربت وکلا میں ہے۔ بے روزگار ہونے کی وجہ سے لوگ اس پیشے میں آگئے ہیں۔ اگر روزگار مل جائے، تو اس مشکل تر پیشے میں نہ آئیں۔ پورے عدالتی نظام میں چند وکلا کی اجارہ داری ہے، جو 'انڈر اسٹینڈنگ' پر کام کرتے ہیں اور ریلیف دیتے ہیں۔ میں اس کے خلاف نبرد آزما ہوں۔ وکلا کی اکثریت کے پاس مقدمات کی کمی ہے، صرف اجارہ دار وکلا کو مقدمات ملتے ہیں۔ تاریخیں مل جاتی ہیں، لیکن مقدمات چلتے نہیں۔ چھے ماہ میں ختم ہونے والے کیس چھے، چھے سال چلتے رہتے ہیں۔

عاشق رضا وکلا کی سیاسی وابستگی کے حامی ہیں کہ یہ تو سماج کا باشعور طبقہ ہے۔ کہتے ہیں کہ بائیں بازو کا نظریہ انسانی ضرورتوں کے حل کی بات کرتا ہے، امریکا نے جو ترقی 200 سال میں کی، وہ سوویت یونین نے 70 برس میں کی، لیکن ان کا فوجی اور صنعتی کومپلیکس پھیلنے کے سبب سوشل سیکٹر نظرانداز ہوتا چلا گیا، اور اُس کے حصے بخرے ہوئے۔ وہ نظریہ اب بھی موجود ہے، اور پھر دوبارہ آئے گی۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا آنا وہاں کی نئی سوچ ہے، جو اسٹیبلشمنٹ کی فکر کے خلاف ہے۔ انگلینڈ کے علاوہ پورا یورپ امریکا مخالف ہے، جو امریکا کو جمہوری ملک کے بہ جائے پولیس اسٹیٹ کہتا ہے۔

عاشق رضا کو تاریخی کتب اور سوانح عمریاں زیادہ پسند ہیں۔ انہیں غالب، جوش، فیض کو سننے میں لطف آتا ہے۔ روسی ادیب ٹالسٹائی کے گرویدہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ ادب میں پہلے معاشی مسائل اجاگر کیے جاتے تھے، آج کل گلیمر زیادہ ہے۔کہتے ہیں کہ امریکا میں تیسری دنیا سے متعلق تصانیف کے پیچھے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پنٹاگان ہوتا ہے۔

ججوں کا تقرر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونا چاہیے
عاشق رضا کے بقول 'ہمارے عدالتی نظام میں انصاف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صرف 'ریلیف' دے دیتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا مقولہ ہے کہ میدان جنگ کے بعد سب سے زیادہ نا انصافی عدالت کے ایوانوں میں ہوتی ہے۔ جج سننے کے لیے تیار نہیں، ہمارے سول جج تو بے چارے نوکری کر رہے ہیں۔ انہیں Disposer دکھانا ہے، پھر عدالتوں میں کرپشن بے انتہا ہے۔ وکلا کی بدعنوانی پر کہتے ہیں کہ'فیصلہ تو جج نے دینا ہوتا ہے۔' وہ کہتے ہیں کہ عدالتی نظام کے خامیوں کی وجہ سے بہت زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ عدالتی اصلاح کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ سے پہل کرنی چاہیے۔

ججوں کا تقرر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونا چاہیے اور عدالت صرف نظر رکھے کہ تقرر اہلیت پر ٹھیک طریقے سے ہو۔ عدالتوں کا اختیار ملازمتیں دینا نہیں، بلکہ لوگوں کو ریلیف اور انصاف دینا ہے۔ عدالتیں یہ دیکھیں کہ حکومت کہیں زیادتی کرے، تو روکے۔ عاشق رضا مقدمات جلد نمٹانے کے لیے تجویز کرتے ہیں کہ جب ججوں کو اتنی مراعات مل رہی ہیں، تو ہائی کورٹ کا وقت ڈیڑھ بجے سے بڑھا کر شام پانچ بجے تک کر دینا چاہئے۔ جب ہم نے وکالت شروع کی تو جج کی تنخواہ تین ہزار ہوتی تھی، اور اتنا Disposer ہوتا تھا، کہ تصور نہیں کر سکتے، جج اگلے مقدمات کی فائلیں گھر لے جا کر پڑھتے تھے۔

تضحیک نہ ہو تو عدالتی فیصلوں پر تنقید جائز ہے
عاشق رضا کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے عوامی ملکیت ہوتے ہیں، ان پر تبصرہ، تنقید اور اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ یہ قانونی طور پر بھی جائز ہے، بس اس میں تضحیک کا عمل نہ ہو۔ عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل کرنا بھی تو اختلاف ہی کی شکل ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کا عدالتی نظام پر اعتماد ختم ہو رہا ہے، اس میں کچھ دوش وکلا کو اور کچھ عدلیہ کو ہے۔ فیصلوں میں تاخیر، صحیح اور بروقت فیصلے اہمیت رکھتے ہیں۔

عاشق رضا ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے زبردست حامی ہیں، کہتے ہیںکہ کسی نے جرم کیا ہے، تو سزا تو ملنی ہی ہے، اس لیے شک کا فائدہ ملزم کو ملنا چاہیے، عام قانون بھی یہی کہتا ہے اور مشہور قول ہے کہ 'گناہ گار چھوٹنے کا قلق نہ کرنا، بس کسی بے گناہ کو سزا نہ ہو۔' گناہ گار چھوٹ بھی گیا، تو اللہ کی عدالت میں ضرور گرفت ہوگی۔ ہمارے ہاں کسی کے بینک سے قرض لینے پرجیل بھیج دیتے ہیں۔ پھر یہاں تفتیش کی صورت حال بھی اچھی نہیں۔ دوران حراست جان چلی جاتی ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے۔ ملزمان کو ضمانت ملنی چاہیے، سوائے اُن کے جو سماج کے لیے خطرہ ہوں۔

موکل نے کہامجھے وکیل کی ضرورت نہیں پھر۔۔۔
سید عاشق رضا کی شادی 1988-89ء میں ہوئی، چار بچے ہیں۔ بڑے صاحب زادے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بیرسٹر ہوئے، مگر یہاں کے نظام سے کافی مایوس ہیں۔ چھوٹے بیٹے امریکا میں زیرتعلیم ہیں۔ صاحب زادی شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، جب کہ دوسری 'ایم بی اے' میں ہیں۔ عاشق رضا شروع میں سول مقدمات کی طرف رہے، پھر سیاسی لوگوں کے کرمنل مقدمات بھی لینے پڑے۔ ساتھ ساتھ جنرل ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک میں شامل رہے۔ اپنے پہلے مقدمے کی بابت بتاتے ہیں کہ ایک سیاسی کارکن کو پولیس نے پکڑ لیا، عاشق رضا نے بلامعاوضہ ان کی پیروی کی، لیکن آئی او نے ان کے موکل سے کہا وکیلوں کے چکر میں پڑو گے، تو لمبا چکر چلتا رہے گا۔

عدالت میں جرم قبول لو، 50 روپے جرمانہ ہوگا، وہ میں دے دوں گا۔ یوں موکل نے انہیں پیروی سے روک دیا۔ چھوٹی موٹی چوری کا جھوٹا الزام قبول کرلیا، اور چھے ماہ کی جیل ہوگئی۔ اس کے بعد عاشق رضا نے ایڈووکیٹ جنرل آفس میں پینل پر دو، تین سال کام کیا۔ کہتے ہیں کہ مقدمات کے دوران مختلف قسم کے دباؤ آئے، مگر اپنے ایک سیاسی پس منظر کی وجہ سے کبھی دباؤ قبول نہیں کیا۔ اُن کا طویل ترین مقدمہ 10 برس چلا، جو سمجھوتے پر ختم ہوا۔ اب بھی بہت سے مقدمات دس، دس برس سے زیرالتوا ہیں۔ کئی مقدمات تو دو، دو سال سے نہیں لگے۔ عاشق رضا 2009ء تا 2014ء تقریباً ساڑھے پانچ برس ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان رہے۔ کہتے ہیں کہ ''اکثر سرکاری وکیل پرسنل ہو جاتے ہیں، لیکن میں نے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دلوایا۔'' اِن دنوں عاشق رضا پہلی بار سندھ ہائیکورٹ بار کے انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔

کسی مقدمے میں مقابل وکیل سے ذاتی راہ ورسم ہونے کی بابت کہتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم اپنے موکل کے لیے بات کرتے ہیں، موکل تیار ہو تو معاملہ حل کرا دیتے ہیں۔ دوران سماعت تلخی بھی ہوتی ہے، لیکن اس میں پرسنل ہونا غلط ہے۔ کچھ ساتھی خفا بھی ہوتے ہیں، جو کہ ٹھیک نہیں، میں نے بھی کئی مقدمات ہارے ہیں، لیکن تعلقات پہ آنچ نہ آنے دی۔ پسندیدہ وکیل کے سوال پر عاشق رضا سوچ میں پڑگئے کہ ان کا میعار کافی کڑا۔۔۔ تاہم عاصمہ جہانگیر سے کافی متاثر ہیں کہ وہ انسانی حقوق کے لیے کھل کر بات کرتی ہیں۔

عدلیہ کو افتخار چوہدری سے زیادہ نقصان کسی نے نہیں پہنچایا
جب ہم نے عاشق رضا سے سابق چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری کے 'جوڈیشل ایکٹوازم' کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ ''وہ بہت غلط تھا، اِس نے سپریم کورٹ سے ٹرائل کورٹ تک پوری عدلیہ کو بری طرح ڈیمیج کیا، آج تک عدالت اس سے سنبھل نہیں پائی۔'' عاشق رضا وکلا کی تحریک کو ججوں کی بحالی کے بہ جائے 'بحالی جمہوریت کی تحریک' کہتے ہیں۔ 2009ء میں جو دوسری تحریک چلی، اس میں وہ شامل نہیں تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب چناؤ ہو گئے اور جمہوریت آگئی، تو ہماری تحریک مکمل ہوگئی، اس کے بعد یہ ایک فرد کا مسئلہ تھا۔ ججوں کو پارلیمان کے ذریعے بحال ہونا چاہیے تھا، مظاہروں سے جج تعینات نہیں ہوتے۔ سڑک پر آنے والوں نے فاش غلطی (Blunder) کی۔ کہتے ہیں کہ ''ہم 2007ء میں صرف بحالی جمہوریت کی تحریک میں شامل تھے، ہم نے یہ تحریک کسی فرد کے لیے نہیں چلائی۔''

عاشق رضا اس تحریک میں شامل وکلا کو دوش نہیں دیتے، کہتے ہیںکہ چناؤ کے بعد چیف جسٹس بحال نہ ہوئے، تو کچھ وکلا نے بھول پن میں یہ موقف اپنایا کہ افتخار چوہدری نے چوں کہ ایک آمر سے ٹکر لی، اس لیے ان کی بحالی ضروری ہے۔ یہ دوستوں کاغلط فیصلہ تھا، عدلیہ کو جتنا ڈیمیج جسٹس افتخار چوہدری نے کیا اتنا کسی نے نہیں کیا۔ ججوں کے 'ریمارکس' کو عاشق رضا، جسٹس (ر) افتخار چوہدری کی 'مہربانی' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہونا چاہیے، جسٹس (ر) اجمل میاں کی بہت اچھی بات تھی کہ جج اپنے فیصلے سے بولتا ہے، جج کو کوئی حق نہیں ہے کہ ریمارکس یا رائے دے۔ اس سے فیصلے کے اندازے لگائے جانے لگتے ہیں۔

سیاست دانوں نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا کر ہمیشہ انہیں امتحان میں ڈالا
عاشق رضا کہتے ہیں کہ عوام کا اعتماد حاصل کرنے والی جماعتوں کا فرض ہے کہ اپنے سارے مسائل اور اختلافات پارلیمان میں حل کریں اور اسے مضبوط کریں۔ دھرنے اور عدالتوں میں جانا سیاست دانوں کو زیبا نہیں۔ سب سے بڑی عوام کی عدالت ہے، جہاں ہر پانچ سال بعد احتساب ہوتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے ہمیشہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا کر انہیں امتحان میں ڈالا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمان پیچھے ہٹ گئی اور ایک ادارہ، جسے مقرر کیا جاتا ہے، وہ ان کے فیصلے کر رہا ہے۔ موجودہ اور پچھلی پارلیمان دیکھ لیجیے، کتنے اجلاس اور کتنی قانون سازی ہوئی؟ وجہ سیاسی تربیت کی کمی ہے، جس کا ذریعہ طلبہ یونین یا سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔

جب اِن کے سر پہ پڑتی ہے، تو قانون تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں، بند سیلاب آنے سے پہلے باندھا جاتا ہے، بعد میں نہیں۔ اُن کے بقول ایک پیپلزپارٹی مار کھا کر جیسی تیسی ایک جماعت بن گئی ہے، دوسری سیاسی جماعت 'اے این پی ہے' یہ لبرل اور سیکولر جماعتیں ہیں۔ جتنی قربانیاں اے این پی نے کراچی اور خیبر سے دی ہیں، وہ کسی نے نہیں دیں۔ میں ان کا رکن نہیں، لیکن اُن کی فکر پس پا کرنے کے لیے انہیں ایک طرف دھکیلا گیا۔ 'اے این پی' کی قوم پرستانہ سوچ کو ان کے زیادتیوں پر بات کرنے کا حق کہتے ہیں۔ ووٹ لینے والوں کا احترام ضروری قرار دیتے ہیں، چاہے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ بقول عاشق رضا، یہاں صحیح معنوں میں پارلیمانی جمہوریت آئی ہی نہیں، لیکن لولی لنگڑی جمہوریت تو ہے، جہاں ہم آواز تو اٹھا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری عدالتیں اگر تھوڑا سا اسٹینڈ لیں، تو لاپتا افراد کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

ججوں کا تقرر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونا چاہیے
عاشق رضا کے بقول 'ہمارے عدالتی نظام میں انصاف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صرف 'ریلیف' دے دیتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا مقولہ ہے کہ میدان جنگ کے بعد سب سے زیادہ نا انصافی عدالت کے ایوانوں میں ہوتی ہے۔ جج سننے کے لیے تیار نہیں، ہمارے سول جج تو بے چارے نوکری کر رہے ہیں۔ انہیں Disposer دکھانا ہے، پھر عدالتوں میں کرپشن بے انتہا ہے۔ وکلا کی بدعنوانی پر کہتے ہیں کہ'فیصلہ تو جج نے دینا ہوتا ہے۔' وہ کہتے ہیں کہ عدالتی نظام کے خامیوں کی وجہ سے بہت زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ عدالتی اصلاح کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ سے پہل کرنی چاہیے۔

ججوں کا تقرر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونا چاہیے اور عدالت صرف نظر رکھے کہ تقرر اہلیت پر ٹھیک طریقے سے ہو۔ عدالتوں کا اختیار ملازمتیں دینا نہیں، بلکہ لوگوں کو ریلیف اور انصاف دینا ہے۔ عدالتیں یہ دیکھیں کہ حکومت کہیں زیادتی کرے، تو روکے۔ عاشق رضا مقدمات جلد نمٹانے کے لیے تجویز کرتے ہیں کہ جب ججوں کو اتنی مراعات مل رہی ہیں، تو ہائی کورٹ کا وقت ڈیڑھ بجے سے بڑھا کر شام پانچ بجے تک کر دیا جائے۔ جب ہم نے وکالت شروع کی تو جج کی تنخواہ تین ہزار ہوتی تھی، اور اتنا Disposer ہوتا تھا، کہ تصور نہیں کر سکتے، جج اگلے مقدمات کی فائلوں کا پلندہ گھر لے جا کر پڑھتے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں