Arif Aziz

  • کوچۂ سخن

    جو سماعتوں میں ہیں شورشیں، انہیں جام کر؛
    کسی وقت حرف کے ذائقے میں قیام کر

  • کوچۂ سخن

    کڑکتی دھوپ میں سایہ مرا ابھر آیا؛
    کوئی تو جاننے والا چلو نظر آیا

  • کوچۂ سخن

    بستی میں مری جب بھی کوئی خواب گر آیا؛
    کیوں مسجد و مندر کو وہ باغی نظر آیا

  • کوچۂ سخن

    جہاں پرندوں کے پر کھلے ہیں؛
    وہیں مسافت کے ڈر کھلے ہیں

  • کوچۂ سخن

    درختوں کا سایہ نہیں مل رہا؛
    بڑوں سے کچھ اچھا نہیں مل رہا

  • کوچۂ سخن

    جن کو معلوم نہیں پاس ِ ادب کیا شے ہے؛
    سب کو سمجھانے چلے نام و نسب کیا شے ہے

  • کوچۂ سخن

    کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے

  • کوچۂ سخن

    ہجر سے دشت کو آباد نہیں رکھوں گا؛
    عشق میں قیس کو استاد نہیں رکھوں گا

  • کوچۂ سخن

    کاش اتروں تمہارے چاک سے میں؛
    خود سے مل پاؤں انہماک سے میں

  • کوچۂ سخن

    کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے